قاسم سید
بھوپال سینٹرل جیل سے مفرور دہشت گردی کے ملزموں کے انکاؤنٹر کی خبر نے سب کوہلاکر رکھ دیا ہے۔ جہاں مدھیہ پردیش سرکار ملک کو تباہی سے بچانے کے لئے اپنی پیٹھ تھپ تھپارہی ہے وہیں ملک کے مختلف حلقوں کی طرف انکاؤنٹر کی حقیقت پر سوال
اٹھانے والوں پر وزیراعلیٰ شیوراج چوہان نے لعنت بھیجی ہے، جبکہ مرکز نے دہشت گردی کے معاملہ میں ایک آواز ہونے کا مطالبہ کیا۔ بڑے سلیقہ کے ساتھ انکاؤنٹرکی حقیقت پر شبہ کرنے والوں کی نیت پر انگلی اٹھاکر اسے دیش بھکتی سے بھی جوڑدیا گیا ہے۔ جس طرح سرجیکل اسٹرائیک پر کچھ کہنا دیش دروہ ہوگیا تھا اب ایسے ہیانکاؤنٹر پر سوالیہ نشان لگانے والوں کے ڈی این اے کی تلاش کے ساتھ اسے دیشدروہ تک پہنچادیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے ان احساسات کیترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بھی بولے، سوال کرے، انصاف مانگے وہ دیش کاغدار ہے، یہ مودی راج ہے، فرضی انکاؤنٹر، فرضی معاملے، روہت ویمولا، کے جی
بنسل، غائب نجیب، دلتوں پر ظلم، اے بی وی پی کی غنڈہ گردی، آر ایس ایس،گؤرکشک یہی نہیں جو جمہوریت اور وکاس ماڈل کی اس تعریف کو نہ مانے وہپاکستان چلا جائے۔ دیش بھکتی کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی فنکاروں کیفلم کے خلاف احتجاج کیا جائے، مارنے پیٹنے کی دھمکی ملے مگر جب 5 کروڑ روپیدینے پر پروڈیوسر راضی ہوجائے تو تمام اعتراضات ختم، ایسی دیش بھکتی سے کونلوہا لے سکتا ہے۔مسلم پرسنل لاء پر جذباتی نس دباکر سرکار نے ایک داؤ کھیلا، سرجیکل اسٹرائیککے بعد یہ انکاؤنٹر ملک کی فضا کو اترپردیش انتخابات تک گرم رکھنے کے لئے کافیہے، یعنی آپ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ہندوستان کے اور آپ دہشت گردوں کے خلافہیں یا سرکار کے، اب ہر سوال کرنے پر ان ہی سے سوال کیا جانے لگا ہے۔ بی جے پیکے ہارنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے۔ اس کا مطلب بیان کرنیکی ضرورت نہیں۔ اب ایک بات بالکل صاف ہے آپ مارے جائیں تو احتجاج نہ کریں ورنہآپ کی حب الوطنی مشتبہ، اس کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔ انکاؤنٹر پر سوال اٹھانادہشت گردی کی حمایت کرنا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے بھی سرکار سے رپورٹ طلب کی
ہے۔ کل اگر سپریم کورٹ بھی ازخود نوٹس لے لے تو اسے کس زمرہ میں رکھا جائے گا۔حالانکہ چیف جسٹس آف انڈیا کہہ چکے ہیں کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت میں تالہ لگادیا جائے۔ اس کا اشارہ بہت صاف ہے کہ عدلیہ میں بیٹھے لوگ بھی کسی خطرہکی آہٹ محسوس کررہے ہیں۔ سرکار نے واضح کردیا ہے کہ اس انکاؤنٹر کی جانچ نہیں کرائے گی، حالانکہ اعتماد کا بحران ہو تو جانچ فرض ہوجاتی ہے۔ یہ سرکار کی مورلاتھارٹی کا بھی سوال ہے۔ دہشت گرد مارے جائیں، انھیں عبرت ناک سزا ملے، نشانعبرت بنادیا جائے، یہ کون نہیں چاہے گا مگر انصاف اور قانون کے دائرے میں۔ یہیہمارے ملک کی جمہوریت کی خوبی ہے کہ وہ 26/11 کے ملزم کو بھی تمام آئینی وقانونی حقوق فراہم کرتی ہے، پھر سزا دیتی ہے۔ سرکار کے ہاتھ آئین و قانون سیبندھے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کریں، خاموش رہیں، لب سی لیں، بیانات دے کرخاموش بیٹھ جائیں، سپریم کورٹ کی طرف سے ازخود نوٹس لینے کا انتظار کریں یا ایکاور کانفرنس اس موضوع پر کرلیں۔ اس میں کچھ ٹھنڈی کچھ گرم تقریریں ہوں، ایک دوقرارداد منظور کرلیں، سرکار کو واننگ دیں، آگے ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے
کی نصیحت کردیں اور بس۔ یہ کبھی اخلاق، کبھی منہاج انصاری، کبھی مبینہگؤاسمگلروں کو پیشاب پینے و گوبر کھانے پر مجبور کرنے، یہ لوجہاد، گھر واپسی،نجیب کی پراسرار گمشدگی اور پھر یہ انکاؤنٹر ایک سیریز ہے آپ کی حیثیت واوقات بتانے کی۔ گزشتہ دنوں ایک بدمعاش کو پولیس انکاؤنٹر میں مار دیا گیاتھا، اس کے خلاف اتنا ماحول بنا کہ وزیرداخلہ نے اسپیشل سیل کو ہی تحلیل کردیا۔اس وقت کسی نے پولیس کا مورل گرنے اور انکاؤنٹر پر سوال اٹھانے کو دیش دروہ سیتعبیر نہیں کیا، مگر ہماری سیاسی حیثیت صفر، مسلم جماعتوں کی حیثیت زیرو، مسلملیڈروں کی اَن سنی یہاں تک بڑھ گئی کہ جب تلنگانہ انکاؤنٹر پر صرف پھڑپھڑاکررہ گئے تو ان حوصلوں کو تقویت ملی جو اقلیتوں، دلتوں کو دباکر رکھنا چاہتے ہیں۔ہم مطمئن ہیں کہ ہماری دکانیں آباد ہیں، ہمارا کاروبار منافع میں ہے، ہمیں اپنے بکھرنے، ٹوٹنے کی اتنی فکر نہیں جتنی سیکولر لوگوں کے منتشر ہونے کی ہے۔ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ ایسی صورت میں جب ایک ایک کرکے شکار کیا جارہا ہے، مسلمجماعتوں اور مسلم قیادت کے ہونے کے کیا معنی ہیں، جنھیں مسلمان اپنے کاندھوں پربٹھاتا ہے، جان و مال نچھاور کرتا ہے، ایک آواز پر لبیک کہتا ہے، ان کے پیروں کی دھول اپنے سر میں ڈالنے کو فخر سمجھتا ہے۔ عوض میں اسے کیا ملتا ہے، صرفتابعداری- کیا ہمارے سوال کو بھی توہین، نافرمانی، گستاخی، زباں درازی کہہ کرٹھکرادیا جائے گا۔ خدا کے لئے کچھ کرئیے، ہمارا جو حشر ہوتا ہے اس کی پروا نہیں
لیکن بچے گا کوئی بھی نہیں۔ کسی پر کوئی بھی الزام لگاکر کٹہرے میں کھڑا کرناسرکار کے لئے مشکل نہیں، ذاکر نائیک کی مثال سامنے ہے۔ اب کچھ کرئیے، یہ کاندھیجنازے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے۔ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ سب کچھ بھول کر جماعتیحصاربندیوں، مسلکی مناقشوں سے اوپر اٹھ کر ایک میز پر بیٹھ کر سوچیں اور بتائیں کہ ہم کیا کریں، بڑی مہربانی ہوگی۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)
qasimsyed2008@gmail.com