کاش ہاشم پورہ سے سبق لیا ہوتا

قاسم سید 

طاقت اور عددی قوت کو فیصلہ کن حیثیت دینے، ہجوم کو انصاف کا حق، قانون کے رکھوالوں کو ناپسندیدہ عناصر کو اپنے حساب سے نمٹانے کی اجازت، آئینی اداروں کی بے وقعتی اور نظرانداز کئے جانے کے خطرناک اشارے اپنے اندر بہت سے طوفان سمیٹے ہوئے ہیں۔ طوفان میں پوشیدہ بجلیوں کو اپنا ہدف معلوم ہے اور کنٹرول روم کے بٹن سے حرکت میں آتی ہیں۔ مظفرنگر سے دادری اور تلنگانہ سے بھوپال تک ہونے والے واقعات سے یہ سبق ضرور لینا چاہیے کہ جب معاملہ اقلیتوں سے متعلق ہو تو ان پر سوال اٹھانا، ملک سے غداری، بغاوت اور قومی سلامتی تک جاپہنچتا ہے اور اس معاملہ میں کسی بھی پارٹی کو کلین چٹ نہیں دی جاسکتی، یہ بات ہزار بار کہی جاچکی ہے کہ خود کو سیکولرازم کا محافظ کہنے والی پارٹیاں ہوں یا اقلیتوں کے تئیں اپنے ’ارادے‘ علی الاعلان ظاہر کرنے والے بااختیار لوگ، کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جسے موقع ملا اپنا ہاتھ صاف کیا، اگر ایک انچ اوپر اٹھانے کا دکھاوا کیا تو دس گز زمین میں دھنسانے کی کوششیں کیں۔ ہمیں کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ سچر کمیٹی اس لئے تشکیل دی گئی تھی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آپ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے یا نہیں اور یقیناً انھوں نے مطلوبہ اہداف کے حصول پر اطمینان کا سانس لیا ہوگا۔ یہ فسادات، یہ انکائونٹر اس میں بے گناہوں کا مارا جانا کون سی سرکار ہے جس کے دامن پر دھبے نہیں ہیں۔ کیا کانگریس کو معصوم عن الخطا کہا جاسکتا ہے۔ اس نے تو دوسروں کو راستہ دکھایا ہے۔ ہماری سوئی گجرات پر آکر اٹک گئی ہے، لیکن اس سے قبل گجرات کئی دہائیوں تک فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں مسلسل جھلستا رہا۔ کرفیو احمدآباد و دیگر علاقوں کا مستقل عذاب بن گیا تھا، آسام میں نیلی کا فساد کون بھول سکتا ہے جہاں ایک ہی دن میں دو ہزار سے زائد مسلمانوں کو مار دیا گیا اور فسادات کی تاریخ کا سب سے بھیانک قتل عام ہاشم پورہ، تصور کریں تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بستی میں پی اے سی جوان کڑیل نوجوانوں کو اکٹھا کرتے ہیں، انھیں ٹرک میں بٹھاتے ہیں اور ہنڈن ندی کے کنارے لے جاکر لائن میں کھڑا کرکے گولی مار دیتے ہیں۔ کاش ہم نے اس واقعہ سے سبق لیا ہوتا، اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور یک نکاتی ایجنڈا بناکر قصورواروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی لڑائی لڑتے، جس طرح 84 کے متاثرین اور ان کی بیدارمغز، جاںنثار قیادت نے آج تک ملزموں کو گردن سے پکڑکر رکھا ہے، کانگریس کی ہمت نہیں ہے کہ وہ ان لیڈروں کو ٹکٹ بھی دے سکے۔ کئی ملزم لیڈر سیاسی جلاوطنی پر مجبور کردیے گئے۔ ادھر ستم ظریفی تو دیکھئے کہ تیس سال بعد بھی جب ہاشم پورہ سانحہ جسے ریاستی دہشت گردی کہنا زیادہ بہتر ہوگا، کے مقدمہ کا فیصلہ آیا تو کسی پر جرم ثابت نہیں ہوا، متاثرین کی جوانیاں بڑھاپے میں بدل گئیں۔ کسی نے بھی ان کی انگلی نہیں پکڑی۔ کیا یہ ہماری اجتماعی ناکامی نہیں، کیا ہم اپنی مجرمانہ کوتاہی کے مجرم نہیں ہیں۔ ہاشم پورہ سانحہ نے ان عناصر کو تقویت دی جو اقلیتوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنے کے قائل ہیں اور انھیں دستوری و جمہوری حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ آج بھی ہاشم پورہ کے متاثرین دھکے کھارہے ہیں، مقتولین انصاف کے منتظر ہیں۔

ہمارا رویہ کیا رہا، ہاشم پورہ کے منصوبہ سازوں کو کاندھوں پر لئے گھومتے رہے، پیشانی پر بل تک نہیں آیا۔ جب کوئوں اور مرغیوں کی طرح شور مچانے کی عادت پڑجائے تو اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا، دربہ میں سے مرغی نکالی جاتی ہے تھوڑی دیر تک احتجاج کی آوازیں آتی ہیں پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور شام تک دربہ خالی ہوجاتا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا جاتا رہا ہے، یہ خاموش پالیسی کا تسلسل ہے، ہر جانے والا حکمراں آنے والے کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔ ان کے حوصلے بڑھے، بابری مسجد شہید کردی گئی، ایک نے انتظام کیا، دوسرے نے ہتھوڑا چلایا اور اس وقت تک انھیں تحفظ فراہم کیا گیا جب تک ہدف حاصل نہیں کرلیا گیا۔ حضرت علی میاںؒ کی موجودگی میں ندوہ پر چھاپا مارا گیا، کس کی سرکار تھی؟ الٰہ آباد میں بچیوں کے مدرسہ پر چڑھائی ہوئی، اجتماعی عصمت دری ہوئی، کس کی سرکار تھی؟ مظفرنگر میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا کیا وہ فراموش کیا جاسکتا ہے؟ ایک جمہوری ملک کی ریاست میں اس کے ہی شہری اپنے ہی ضلع سے باہر کردیے جائیں اور ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینی کی زندگی کے جہنم میں جھونک دیے جائیں۔ آج بھی وہ خانماں برباد ہیں، کیا ایسے حکمراں معافی کے قابل ہیں۔ دادری میں اخلاق کا بے رحمانہ قتل، جس کی پوری دنیا میں گونج ہوئی، لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے، کس کی حکمرانی ہے؟ غیرت و حمیت کی معمولی سی بھی رمق رکھنے والا اسے بھلادے گا۔ دہشت گردی کے الزام میں سیکڑوں نوجوانوں کی گرفتاریاں، طویل سماعت اور باعزت رہائی کی جگنو کی طرح جگمگاتی مثالیں، کیا اس ’کارخیر‘ میں ہاتھ بٹانے سے کوئی پیچھے رہا۔ مہاراشٹر پر پندرہ سال کون قابض رہا جہاں بے قصور ’پرندے‘ سب سے زیادہ شکار ہوئے۔ خالد مجاہد زیر سماعت قیدی پولیس کسٹڈی میں مارا گیا، ’امام المسلمین‘ کی پارٹی برسراقتدار، تلنگانہ میں فرضی انکائونٹر، منہاج الدین انصاری کا حوالات میں قتل، قصور تھا وہاٹس اپ پر قابل اعتراض مواد ڈالنے کا، کیا اس کی سزا موت ہے؟ بھوپال انکائونٹر میں 8 زیرسماعت قیدیوں کو گولی سے اڑادینے کا مذموم واقعہ، شیوراج چوہان کی سرکار جنھیں ہم بی جے پی کے معتدل لیڈروں میں گنتے ہیں، یہ چند ایسے واقعات ہیں جنھوں نے ملک کی سیاست پر اثر ڈالا ہے۔ جرم کی نوعیت سنگین ہے اور خون میں سب کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں، کوئی کسی سے کم نہیں ہے، بس مارنے کی ادائوں کا فرق ہے۔ ہم بھوپال انکائونٹر کے معاملہ میں ’رفیق الملک و ملت‘ اور ان کی پارٹی کی خاموشی کو کیا معنی دیں؟ ہمارے مسیحا کہاں ہیں؟ ان کے دربار میں حاضری دینے والے معزز علما، درجہ حاصل وزیر اور مسلم ممبران اسمبلی کی زبانیں کیوں خاموش ہیں؟ ہمارا اکلوتا نجات دہندہ اور امام سیکولرازم کہاں ہے؟ اسے کیا نام دیا جائے، کوئی ہے پوچھنے والا، دراصل حمام میں سب ننگے ہیں اور ہم ان کے لئے محض سیاسی بساط کے مہرے، غلاموں اور وفاداری کی فوج ہے جو ان کو کمک فراہم کرتی ہے اور اپنا محنتانہ وصول کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست کرنے والوں کے وسائل اور شکار ہونے والے کے مسائل بڑھتے گئے۔ یہ ہر پارٹی میں موجود ہیں۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کے فلسفہ نے بھی ہمارے زخموں کی تعداد بڑھائی ہے۔ منفی بنیادوں پر اٹھایا گیا کوئی قدم مثبت نتائج نہیں دے سکتا۔ بی جے پی کو ہراتے ہراتے اسے مرکز تک پہنچادیا گیا۔ سیکولر پارٹیاں اقتدار میں پہنچتی گئیں اور محاذ آرائی کے لئے ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا، ہم اس کے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں۔ دوسروں کی کٹھ پتلیاں بن کر باعزت مقام حاصل نہیں ہوتا، پھر نصیب میں تلنگانہ، مظفرنگر، دادری، بھوپال انکائونٹر جیسے کانٹے ہی آتے ہیں۔ اب ایک احسان کردیں، مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے یا اپنا قبلہ و کعبہ درست کرلیجئے۔ معاملہ انفرادی قتل سے اجتماعی قتل تک پہنچ گیا، اس کی سفاکیت کو محسوس کرئیے، پریشر کوکر کے پھٹنے کا انتظار مت کیجئے۔ بھوپال انکائونٹر آنے والے بھیانک خطروں کا الارم ہے۔

بھوپال انکائونٹر ہماری بصیرت، سیاسی فراست، اجتماعی اتحاد اور نیک نیتی و اخلاص کا امتحان ہے۔ معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی جرأت و صلاحیت پھر کسوٹی پر ہے۔ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا چیلنج اپنی جگہ لیکن جن کے سینوں میں ایمان کی شمع فروزاں ہے اگر وہی سلامت نہ رہے تو شرعی قوانین کی پاسداری کس پر ہوگی۔ ہمیں سرکار کی طرف سے طلاق ثلاثہ میں الجھادیا گیا ہے اور ہم نے ایک قدم اور آگے جاکر ایک نشست میں تین طلاق کے نفاذ کی بحث میں دلائل و براہین پیش کرنے میں ساری توانائی جھونک دی ہے۔ ہم سیکولر قوتوں کے اتحاد کی فکر چھوڑکر اپنی سلامتی و اتحاد کی فکر کریں تو یہ ملت اسلامیہ پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ اپیلوں، قراردادوں، کانفرنسوں، بیانوں اور گرماگرم تقریروں کے ساتھ جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کے رویہ کا مظاہرہ کرنا ضرورت ہی نہیں مجبوری ہوگیا ہے۔ عوام لگاتار قربانیاں دے رہے ہیں، اسی کے ساتھ قربانی دینی ہے ذاتی پسند و ناپسند کی، گروہی و جماعتی عصبیت کی، انانیت و خودپسندگی کی، اگر ہاں تو آگے کی راہیں آسان ہوں گی۔ ہاشم پورہ سانحہ میں کی گئی مجرمانہ غلطیوں سے سبق لینا اور اجتماعی قیادت کا مظاہرہ ہی ایسے واقعات کے سدباب کا حل ہے ورنہ ہماری جانیں قومی سلامتی سے جوڑدی گئی ہیں۔ ابابیلوں کا انتظار کرنے میں کوئی برائی نہیں لیکن اپنے حصہ کا کام تو کرنا پڑے گا۔(ملت ٹائمز)

٭مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹرہیں

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE