پیرس
ملت ٹائمز،ایجنسیاں
پناہ گزینوں کو ملک کے مختلف شہروں کی سڑکوں اور غیر سرکاری کیمپوں سے منتقل کرنے کے سلسلے میں فرانسیسی حکام نے کیلے کے بعد آج دارالحکومت پیرس کے شمال مشرقی حصے میں قائم ایک بڑے کیمپ کو بھی منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے اسٹالن گراڈ نامی محلے میں قائم غیر سرکاری کیمپ سے پناہ گزینوں کے منتقلی کا عمل جمعہ چار نومبر کی صبح شروع کیا گیا۔ پولیس نے علی الصبح کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے خیموں کے اندر اور کھلے آسمان تلے بستروں پر سوتے ہوئے پناہ گزینوں کو جگایا اور انہیں بسوں کے ذریعے مختلف مقامات پر منتقل کر دیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق منتقلی کا کام کافی منظم انداز میں ہوا اور کسی مزاحمت یا مخالفت کی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ البتہ اکثریتی مہاجرین بوکھلائے ہوئے نظر آئے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کیمپ میں تقریباً تین ہزار پناہ گزین مقیم تھے۔ اسٹالن گراڈ کے اس کیمپ میں موجود اکثریتی پناہ گزینوں کا تعلق افغانستان، سوڈان یا اریٹریا سے ہے۔
فرانسیسی استغاثہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک کے شمالی حصے میں کیلے جنگل کے نام سے مشہور مہاجر بستی میں مہاجرین کے مختلف گروپوں کے درمیان ہونے والے تصادم کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔پیرس میں اسٹالن گراڈ کا علاقہ مہاجرین میں کافی مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکام کئی مرتبہ اس علاقے سے مہاجرین کو منتقل کر چکے ہیں تاہم وہ دوبارہ اسی علاقے میں اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ فرانس میں عام انتخابات سے چھ ماہ قبل سوشلٹ صدر فرانسوا اولانڈ نے اس عہد کا اظہار کیا ہے کہ وہ فرانس کی سڑکوں پر مقیم اور غیر سرکاری کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزینوں کو باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں منتقل کرائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرانس کو پناہ گزینوں کو بہتر انداز میں خوش آمدید کہنا ہو گا۔ انسانی حقوق سے منسلک کارکنان نے مہاجرین کے ساتھ بہتر برتاؤ کے حوالے سے نئی سیاسی حکمت عملی کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرانس نے اس بحران سے نمٹنے میں ابتداء ہی سے کافی سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔
قبل ازیں چوبیس اکتوبر کو فرانسیسی حکام نے شمالی شہر کیلے کے کیمپ کو خالی کرانے کا عمل بھی شروع کر دیا تھا۔ اپنے عروج پر تقریباً دس ہزار افراد کی پناہ گاہ کیلے کا جنگل کہلانے والا مہاجر کیمپ انتہائی ناقص سہولیات و حالات کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔
فرانس میں گزشتہ برس سیاسی پناہ کی ساڑھے تہتر ہزار تازہ درخواستیں دائر کی گئی تھی جبکہ حکام کا اندازہ ہے کہ رواں رواں میں تقریباً ایک لاکھ ایسی درخواستیں موصول ہو سکتی ہیں۔