کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

از خود ” کھلا خط بنام مولانا انس ” کا جواب
کل ایک تنقیدی ” کھلا خط بنام مولانا انس “ بغرضِ اصلاح میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا جس میں قدرے تلخ باتیں بھی درج کی گئیں تھی ، اس کے بعد کافی لوگوں نے اس کی تعریف کی ، اور کچھ حضرات نے اس سے اختلاف بھی کیا ، بیشک دونوں حضرات اپنی جگہ اپنے نظریات کے مطابق درست ہیں،
بہر حال جو بات آج مجھے عرض کرنی ہے وہ یہ کہ میرے اس خط کے بعد مولانا انس کا میرے پاس فون آیا اور بڑی خوش اخلاقی اور عاجزی سے انہوں نے بات کی اور اس خط پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے تسلی سے مجھے صورت حال سے آگاہ کرایا ساتھ میں یہ بھی وضاحت کی کہ وہ مفتی نہیں ہیں بس ایک عالم ہیں انکلیشور کے کسی مدرسہ سے فارغ ہیں اور تبلیغی جماعت سے ان کا تعلق ہے۔
آپ سب کو معلوم ہے محترمہ ثناء خان ابھی کچھ دن پہلے ہی اس گندگی اور گناہوں کی دلدل سے نکل کر آئیں ہیں ، پھر انہوں نے حال ہی میں مولانا انس سے شادی کی ہے ، محترمہ کے دونوں فیصلوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ، جتنے الفاظ اُن کی تحسین میں منتخب کیے جائیں کم ہیں ، اگر میں یہ کہوں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ، کہ محترمہ نے اپنے نفس اور حالات سے جنگ میں فتح حاصل کی ہے اور اپنی خواہشات کو اللہ کے سامنے قربان کر ڈالا ، اس فتح اور قربانی پر ہم ان کو تہ دل مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
رہی بات اُن کے فوٹو اور ویڈیوز ڈالنے کی ، تو آپ سب کو سمجھنا چاہیے کہ شادی زندگی کی کتنی اہم چیز ہے اور ہر لڑکی کے دل میں اپنی شادی کو لیکر بہت سی خواہشات ہوتی ہیں ، محترمہ اپنی تمام خواہشات کو چھوڑ کر اسلام کی طرف آئی ہیں ، بس وہ اپنی خوشی اپنے مداحوں کے ساتھ فوٹو اور ویڈیوز اپلوڈ کر کے شیئر کر رہی ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ کافی حد تک محترمہ نے فوٹو اور ویڈیوز میں احتیاط سے کام لیا ہے ، ایک دو فوٹو میں حجاب پہنے بھی نظر آئیں ہیں ، میرے خیال سے شروعات میں اتنا کافی ہے اس پر ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ ادکارہ تو اداکارہ ہمارے معاشرے کی لڑکیاں کیسے بے حیائی کی فوٹوز اپلوڈ کرتی ہیں اور پھر شادی کے موقع پر تو حد سے گری ہوئی حرکتیں سامنے آتی ہیں اور پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب وہ اتنی بڑی گندگی اور بے حیائی کے اڈے سے نکل کر آگئی ہیں تو ان شاءاللہ یہ چھوٹی موٹی باتیں بھی دور ہو جائیں گی، اور خوش ہونا چاہیے اس بات پر کہ ان کا ہم سفر ایک عالم دین ہے جو ہر موڑ پر ان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ انسان کو کسی سانچے میں ڈھلنے کےلیے وقت درکار ہوتا ہے ، آپ کسی نئے کالج میں جائیں تو وہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگتا ہے، کسی نئی جگہ رہنے جائیں تو وہاں کی آب و ہوا کے مطابق ڈھلنے میں وقت لگتا ہے ، اسی طرح محترمہ ابھی نئی ہیں ، ان کو اسلام کے سانچے میں ڈھلنے کے لئے وقت درکار ہے ، آپ دیکھیں کہ کالج میں ٹیچرز نئے طلباء کے ساتھ نرمی اور محبت و الفت کے ساتھ پیش آتے ہیں ، ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو درگزر فرماتے ہیں اور ان پر دست شفقت رکھتے ہیں ، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بچہ ابھی نیا ہے اگر اس سختی کی گئی تو اس کے قدم ڈگمگا جائیں گے اور یہ تعلیم سے دور ہو جائے گا ، جیسے جیسے دن گزریں گے ویسے ویسے وہ اپنے آپ کو کالج کے اصولوں کے مطابق ڈھال لے گا ، اسی طرح ہمیں بھی محترمہ کے ساتھ نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور ان کی چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کرنا چاہیے ، ان شاءاللہ جیسے جیسے وقت گزرے گا وہ اپنے آپ کو اسلام کے مطابق ڈھال لیں گی ، خدانخواستہ اگر ہمارے رویہ سے ان کی دل آزاری ہوئی یا تکلیف پہنچی یا ان کے قدم ڈگمگا گئے تو یقیناً اس کا وبال ہم پر ہی آنا ہے اور بروزِ محشر اس وبال سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا ۔
ہمیں حالات کو دیکھتے ہوئے بڑی مصلحت سے چلنا پڑے گا اور نہایت خلوص کے ساتھ ان کے لئے استقامتِ دین کی دعا کرنی ہوگی اور جو لوگ اس گندگی میں پھنسے ہوئے ہیں ان لئے کوشاں رہنا ہوگا کہ وہ بھی اس بے حیائی کی زندگی سے چھٹکارا پا سکیں ، بلکہ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ محترمہ ثناء خان کے ذریعہ دعوتِ دین کا بڑا کام انجام دیا جا سکتا ہے ، اُس گندگی میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں ، جو اسلام کے بارے میں جانتے ہیں ۔ اگر ان پر تھوڑی سی محنت کی جائے تو وہ سیدھی راہ پر آسکتے ہیں ، پر افسوس ہے اس بات پر کہ وہاں ہماری ذرا سی بھی محنت نہیں ہے اور سچی بات تو یہ کہ ہم کرنا بھی نہیں چاہتے ، محترمہ جیسے کیسے نکل کر آئیں ہیں تو ان پر یکلخت دباؤ بنا رہے ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ بس ایک دم وہ رابعہ بصریہ بن جائیں ؛ ایسا تو نہیں ہوتا نا !! ۔ مولانا انس بھی ان کو فورس کر کے اپنی زندگی میں آگ نہیں لگا سکتے ، تھوڑا سا اپنے دل کو بڑا کیجئے ، مثبت پہلو پر غور کیجئے ، اور سمجھئے کہ بستے بستے بستی ہے ، محترمہ ثناء کے ذریعہ مولانا انس کے پاس یہ بہترین موقع ہے وہ پوری مصلحت اور دوراندیشی کے ساتھ اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھا کر ان لوگوں میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ محنت کرکے دعوتِ دین کا بڑا کام انجام دیں۔
قابِل توجہ بات یہ بھی ہے کہ مولانا انس اور ثناء خان کے رابطہ میں بڑے بڑے علماء حضرات ہیں جن میں حضرت مفتی تقی عثمانی اور مولانا طارق جمیل بھی شامل ہیں ، جب یہ حضرات خاموش ہیں تو ہم کیوں چوں چرا کر رہے ہیں ؟؟ یقیناً یہ بڑے حضرات ہیں اور بڑی مصلحت سے کام کرتے ہیں۔
یہاں پر مولانا انس بھی قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس نازک مرحلے میں وہ بڑی مصلحت اور نرمی کے ساتھ اپنے اس نئے رشتے کو آگے لے کر چل رہے ہیں اور اس کو مضبوط و مستحکم بنانے میں لگے ہوئے ہیں، یقیناً مولانا کا اس وقت سخت امتحان ہے ایک طرف ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ان کی اپنی زندگی ہے ، دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی زوجین میں محبت و الفت قائم رکھے۔
بس ایک آخری بات یاد رکھیں کہ کبھی بھی تعریف کو دماغ پر اور تنقید کو دل پر مت لیجئے۔

نوٹ : اُس کھلے خط میں میری جن باتوں سے تکلیف پہنچی میں ان پر مولانا اور محترمہ سے معذرت خواہ ہوں ۔
فقط والسلام
آپ کا خیر خواہ محمد زعیم اختر
ڈائریکٹر اسلامک سینٹر سہارنپور
mohdzaeemakhtar@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں