آذربائیجان میں پڑھی گئی نظم کو لے کر ایردوآن کے خلاف ایران کی اشتعال انگیزی ، ترکی کا احتجاج

ترکی نے صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف ایران کی طرف سے ’اشتعال انگیز‘ زبان استعمال کرنے پر تہران کی سرزنش کی ہے۔ ایران کو اس نظم پر اعتراض ہے، جو صدر ایردوآن نے آذربائیجان میں پڑھی تھی۔
گزشتہ عشرے کے دوران مجموعی طور پر ایران اور ترکی کے مابین اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے کئی خطوں میں ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو صدر ایردوآن نے ترکی کے اتحادی ملک آذربائیجان کا دورہ کیا تھا، جہاں ایک ملٹری پریڈ کا انعقاد ہوا تھا۔ اس فوجی پریڈ کا انعقاد نگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کی آرمینیا کے خلاف فتح کے جشن کے دوران کیا گیا تھا۔
وہاں صدر ایردوآن نے ایک نظم پڑھی تھی، جو آذری قوم کی آزادی اور خود مختاری کو بیان کرتی تھی۔ ایران نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نظم ایرانی اقلیتی آذری قوم اپنے مقاصد اور ایران سے علیحدگی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ ایران کے شمال مغربی صوبے آذربائیجان کے بالکل قریب واقع ہیں اور وہاں پر آذری قوم کے باشندے آباد ہے۔ وہاں آذربائیجان، آرمینیا اور ایران کی سرحدوں کا تعین دریائے اراس کرتا ہے۔
اگلے دن ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا ٹوئٹر پر کہنا تھا، ”صدر ایردوآن کو یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے باکو میں کیا کچھ برے طریقے سے پڑھا ہے۔ اس کا مطلب اراس کے شمالی علاقوں کی وطن عزیز سے زبردستی علیحدگی ہے۔‘‘
ایرانی نیوز ایجنسی اِسنا کے مطابق جو نظم ترک صدر نے پڑھی تھی، وہ سیاسی تحریک ‘پان ترکیسم‘ کی بنیادی علامت ہے۔ یہ وہ سیاسی تحریک ہے، جو اسی کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور اس کا مقصد ترک نسل کو ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے متحد کرنا ہے۔
اس کے بعد ایران نے تہران میں ترک سفیر کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ صدر ایردوآن کی نظم ایران کے اندرونی ”معاملات میں مداخلت ہے اور اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس کے جواب میں ترکی نے اپنے ہاں ایرانی سفیر کو طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے ‘بے بنیاد دعوے‘ بند کیے جائیں۔ اس کے بعد ترک صدارتی دفتر سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا، جس کے مطابق، ”ہم اپنے صدر کے خلاف اشتعال انگیز زبان کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔ اس بیان کی مذمت کرتے ہیں، جو ہمارے ملک اور نظم کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ اس نظم کے معنی جان بوجھ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیے جا رہے ہیں۔‘‘