“جمعیت علماء نیپال” ملک نیپال کی قومی وملی جماعت ہے۔ اس باوقارجمعیت کےاکابر کی قربانیاں تاریخ کےاوراق میں سنہرے حرفوں میں قلم بند ہیں ۔ “جمعیت علماء نیپال “نیپال کی سرگرم ،متحرک وفعال تنظیم ہے۔
“جمعیت “ملت اسلامیہ نیپال کی ہرنازک موڑ اور نامساعد حالات میں بہتر سےبہتر قیادت وسیادت کررہی ہے،آج جب کہ پوری دنیا کے حالات پہلے سےزیادہ ناگفتہ بہ بن چکے ہیں،تو اس قدیم جماعت کےاستحکام کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے ۔
واضح رہے کہ ملک نیپال میں مسلمانوں کے مختلف مسائل کوحل کرنے لیے اور مسلمانوں کی آواز حکومت تک پہنچانےلیے ملک نیپال میں کئی تنظیمیں قائم ہیں،مگرسب سے زیادہ مقبول و محبوب تنظیم ، تنظیم “جمعیت علماء نیپال “ہے ،جو بر وقت مسلمانوں پر آنے والے مسائل، مصائب ومشکلات کوحل کر تی ہے اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی ،بہتر نمائندگی کرتی ہےاور بوقت ضرورت مسلمانوں کی آواز حکومت تک بھی پہنچاتی ہے۔
اس لیے نیپالی مسلمانوں کو چاہئے کہ اس قدیم ،معروف و مشہور تنظیم کی ہرممکن تعاون کریں اور اس تنظیم کو مزید مستحکم ومضبوط کرنےکی بھر پور کوشش کریں ۔
جمعیت کےدائرے کومزید وسیع کرنےکےلیے اور اس کے جال کوپورےنیپال میں بچھانے اور اس کی خدمات گھر گھر تک پہنچانےکے لیےابھی ضلع روتہٹ نیپال میں “ممبر سازی مہم”شروع ہےاور ضلع روتہٹ کےچاروں چہتروں میں عنقریب یکے بعد دیگرےمیٹنگ منعقد ہوگی ۔
چناں چہ بتاریخ 22ربیع الثانی 1442ھ مطابق 23گتے اگھن 2077بکرمی بروز منگل بوقت 2بجے دن،بمقام :دارالایتام مصعب بن عمیرالاسلامیہ میں حضرت اقدس مولانا محمد شوکت صاحب قاسمی مدنی کی صدارت میں “جمعیت علماء روتہٹ “کی ایک خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی،جس میں ممبر سازی مہم کوتیز اور سرگرم کرنےکےلیے ضلع روتہٹ کے چاروں چھتروں میں میٹنگ کےانعقاد کافیصلہ لیاگیاہے۔
چھتر نمبر (۱ )کی میٹنگ “چھتونا”میں بتاریخ 24/دسمبر کو رکھی گئی ہے ۔
چھتر نمبر (۲ )کی میٹنگ “مٹھیا”میں بتاریخ 16/دسمبر کو رکھی گئی ہے ۔
چھتر نمبر (۳ )کی میٹنگ “لچھمی پور” میں بتاریخ28/دسمبر کورکھی گئی ہے۔
چھتر نمبر (۴ )کی میٹنگ”بھسہا”میں 21/دسمبر کو رکھی گئی ہے۔
اس لیے تمام حضرات سے درخواست ہے کہ “ممبرسازی مہم ” کوتیز کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں،جان ،مال اور اولاد کےذریعہ،اور کوشش یہ ہوکہ ضلع روتہٹ کاہرمسلمان جمعیت سے جڑجائے ،اورہرشخص جمعیت کےلیے خوب خوب محنت کرے۔
شعر:
گر حوصلہ بلند ہو کامل ہو شوق بھی
وہ کام کو ن ساہے جو انسان نہ کر سکے
اگر ہمت کرے تو کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے