سعودی عرب: کوفہ تا مکہ مکرمہ درب زبیدہ کے تاریخی راستے کی دوبارہ بحالی

درب زبیدہ یا پگڈنڈی اور گزرگاہ زبیدہ یہ اسلامی تہذیب کے اہم ترین انسان دوست اور سماجی منصوبوں میں سے ایک ہے۔
یہ عراق کے شہر کوفہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ مملکت میں اس کی لمبائی 420 کلومیٹر ہے۔
کسی زمانے میں یہ حجاج اور تاجروں کے راستے کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس پگڈنڈی یا گزرگاہ کا نام خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ زبیدہ بن جعفر کے نام پر رکھا گیا تھا جنہوں نے علاقے سے گزرنے والے قافلوں اور راہگیروں کے لئے اس کی تعمیر اور بحالی میں کردار ادا کیا۔
دس روز قبل 100سے زائد مرد وخواتین نے اونٹوں کے قافلے میں شامل ہو کر تاریخی راستے ’’ درب زبیدہ ‘‘کی دوبارہ بحالی کا اقدام کیا ہے۔
اس تاریخی سفر کا آغاز کرنے والوں میں شامل ترکی المحیفرنےبتایا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت اس گزرگاہ کے ورثے کو نقشہ بندی کے ساتھ دوبارہ بحال کرنے کی کوشش اسی طرح کی جا رہی ہے جیسے زبیدہ کے دور میں ہوتی ۔
اس گزرگاہ کی اہم تاریخی جہت ہے جو ہمیں ہمارے آباو اجداد کی عالیشان ثقافت کے بارے میں بتاتی ہے۔ المحیفر نے کہا کہ یہ راستہ عراق اور سعودی عرب کو باہم مربوط کرنے کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے ۔
یہ عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ جانے والے ضیوف الرحمن کا راستہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے شرکا نے 4 جنوری کو 420 کلومیٹر طویل سفر کا آغاز کیا تھا۔ یہ سفر 19جنوری تک جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ سفر کے دوران ہم متعدد تاریخی مواقف اور یادگاروں سے گزرے ہیں جو طویل مدت گزرجانے کے باوجود آج بھی سر اٹھائے کھڑی ہیں۔
ہر روز ہماری ٹیم کے ارکان صبح سویرے فجر کی نماز سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ نماز کے بعد وہ ناشتہ کرتے ہیں پھر تیار ہوتے ہیں اور سفر کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں، ہر 10کلومیٹر کے بعد آرام کے لئے ٹھہرتے ہیں۔
یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ ہم رات کو سونے کے لئے قیام کرتے ہیں اور اگلی صبح پھر شروع سے وہی سارا عمل دہراتے ہیں۔
ہمارے قافلے میں 13قوموں کے افراد کی شرکت ہونی تھی تاہم کورونا کی عالمی وبا کے باعث پیدا ہونے والے مخصوص حالات کی وجہ سے یہ تعداد محدود ہو گئی۔
ہمارے گروپ نے اب تک اس تاریخی راستے کا نصف فاصلہ طے کر لیا ہے۔ متعدد قسم کے علاقوں سے گزرے ہیں جن میں پتھریلا علاقہ اور ریتلا علاقہ شامل ہے۔
المحیفر نے کہا کہ یہ منصوبہ نوجوانوں اور محبانِ تاریخ کو اچھے اسباق فراہم کرتا ہے۔
ٹیم کے ایک اور رکن فریح الشمری نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد درب زبیدہ کے بارے میں کچھ زیادہ انکشاف کرنانہیں۔
یہ گذرگاہ اس تہذیب کی کامرانیوں پر روشنی ڈالتی ہے، ہمارے اقدام کا مقصد اس مقام کی وہ تاریخی اور تہذیبی توثیق کرناہے جس کا یہ مستحق ہے۔
اس کے ساتھ ہی پیدل چلنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور ترغیب دینا بھی ہے۔الشمری نے کہا کہ ہمیں تاریخ ، علم آثار قدیمہ ، فوٹوگرافی اور ماحول سے محبت کرنے والوں کو خوش کرنے کا منفرد تجربہ ہوا ہے۔
ہمارا ہدف ہے کہ یہ لوگ اپنے شوق کو عملی جامہ پہنائیں اور اس تاریخی ورثے کی حفاظت کریں۔
ہمارے اس اقدام کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ دنیا کو اسلامی تہذیب کی مضبوط شناخت دکھائی جائے۔
درب زبیدہ اسلامی تہذیب اور اسکے حیرت انگیز ورثے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دکھاتا ہے۔ہم صرف شتر بان یا گڈریے نہیں ہیں جیسا کہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ میں ہمیں دکھایاجاتاہے بلکہ ہم ایک متمول اور پائدار میراث کے حامل لوگ ہیں۔
پٹرول سے قبل بھی ہماری تہذیب موجود تھی، اس کا ثبوت درب زبیدہ ہے۔ یہ راستہ کئی اسٹیشنوں سے گزرتا ہے، ہر اسٹیشن میں کنویں اور تالاب موجود ہیں۔
یہاں چھوٹی مارکیٹس بھی ہوتی تھیں جو کئی صدیوں کے بعد دفن ہو گئیں جبکہ بعض کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
اس منصوبے میں شریک خاتون تاجر سارہ المدیمغ نے کہا کہ یہ میری زندگی کے انتہائی اہم تجربات میں سے ا یک ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک متحرک و پرجوش گروپ کا حصہ کہا اور درب زبیدہ کے سفر کو ایک ایسا تجربہ قرار دیا جو جسمانی فٹنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ثقافت و تاریخ کے مطالعے کو فروغ دیتا ہے۔
یہ منصوبہ ایک ایسی عظیم خاتون کی کہانی بیان کرتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی اور کاوشوں کو انسان دوستی اور ثقافتی کاموں کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
وہ تمام تر مشکلات کے باوجود عراق کے شہر کوفہ سے مکہ مکرمہ تک تجارت اور حج کے راستے کو محفوظ بنانے کے لئے اس راستے کی تعمیر کرنے میں کامیاب رہیں۔
انہوں نے زبیدہ گزرگاہ کو’’بھولے بسرے ورثے‘‘ سے متعلق انوکھی کہانی کا حصہ قرار دیااور اس جانب توجہ دلانے کے اقدام کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اُمید کی تجدید کرتا ہے اور ایک ایسی خاتون کی کہانی پر روشنی ڈالتا ہے جن کے کارنامے اور دوراندیشی ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے۔