آج کے بدلتے ہوئے حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں!

نقطۂ نظر : ڈاکٹر منظور عالم
اتحاد واتفاق کامیابی کی شاہ کلید ہے ۔ ہر زمانے میں اس کی اہمیت مسلم رہی ہے ۔ خاص طور پر اہل ایمان کے درمیان اتحاد ضروری اور وقت کا تقاضاہے ۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ متحدہوکر کامیابی طے کی ہے ۔ نااتفافی اور اختلاف وانتشار کی صورت میں انہیں ذلت ورسوائی اور بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ کیوں کہ مسلمان ایک درخت کی تنے کے مانند ہے اور اس میں موجود تمام مسالک، قبیلے اس درخت کے مختلف شاخوں جیسا ہے اگر تنے کو کچھ ہو گیا تو شاخوں کی کو ئی اہمیت اور اس کا باقی رہنا مشکل ہے ۔حالیہ صدیوں میں مسلمانوں کی عدم پیش رَفت اور پسماندگی کا سبب اختلافات اور آپسی تفرقے ہیں۔ ان کے قومی اور مذہبی اختلافات نے انہیں مختلف قوموں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ماضی قریب میں مسلمان علمی اور سائنسی لحاظ سے سب سے پیش رفت تھے۔ ان کے شہر علم و سائنس و صنعت و تجارت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کو اس زمانے کا راہنما مفکر سمجھا جاتا تھا، عالم اسلام سیاسی، اقتصادی اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آج عالم اسلام کی اس شوکت و عظمت کو کیا ہوا؟ مسلمانوں کی وہ یکجہتی کہاں گئی؟ مسلمانوں کی عظمت، عزت و سربلندی سب کچھ اختلافات کی نذر ہو گیا۔ اگر مسلمان تعلیماتِ وحی پر کاربند رہتے ، ۔ اپنے سیاسی اور سماجی اتحاد کی حفاظت کرتے تو ان کا آج یہ حشر نہ ہوتا۔ آج بھی اگر مسلمان ایک پرچم تلے آ جائیں اور اپنے اختلافات پر بے سود وقت ضایع کرنے کے بجائے تھوڑا سا وقت امت کی فلاح و بہبود کے لیے نکالیں تو آج بھی ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ ہمارے علماءاور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔
قرآن کریم میں مسلمانوں کو متعدد بار اس بات کی تلقین کی گئی کہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے متحد و متفق ہو جاؤ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اپس میں تفرقہ بازی نہ کرو“۔ (سورہ آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے اختلاف اور باہمی انتشار و بد امنی کی مذمت کرتے ہوئے اسے بد ترین عذاب قرار دیا ہے۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”بتا دیجئے کہ اللہ قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے،تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہیں فرقہ فرقہ بنا کر ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی کا مزا چکھا دے۔ ابن اثیر نے کہا کہ شیعہ سے مراد امت اسلامیہ کا تفرقہ پھیلانا ہے (النھایہ فی غریب الحدیث ج دوئم )
اللہ رب العالمین نے پیغمبروں کو ایسے لوگوں سے لا تعلقی کا حکم دیا جو آپس میں اختلاف ایجاد کرتے ہیں اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں ۔ ”جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈلا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کا کوئی سروکا ر نہیں ہے“ (سورہ انعام )
اللہ تعالی نے آپسی اختلاف و انتشار اور فخر و غرور کو مشرکوں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے فرمایا
”اور ان مشرکوں میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے اپنا دین اللگ کر لیا اور گروہوں میں بٹ گئے“ ( سورہ روم)
جب انسان اتحاد و اتفاق کو طاق نسیاں میں رکھ کر گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ جاتا ہے، تو ان کا انجام کیا ہوتا اور کس طرح سے انہیں اس کا نتیجہ ملتا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا۔
اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم لوگ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی۔ مزید فرمایا اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقے میں بٹ گئے اور روشن دلائل آ جانے کے بعدآپس میں اختلاف کرنے لگے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اہل ایمان کے درمیان اتحاد واتفاق کو باقی رکھنے کے لئے متعدد فرامین وارد ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ”مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے رحم کرنے، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب ان میں سے کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو پورا جسم اس کے لئے درد اور بخار کے ساتھ رات جگائی کرتا ہے۔ اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے عمارت کے مانند ہے جس کا بعض بعض سے تقویت حاصل کرتا ہے“۔
قرآن کریم اور احادیث پاک کے یہ چند نمونے ہیں جہاں اتحاد و اتفاق کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ لیکن مت اسلامیہ کا ایک عظیم المیہ یہ ہے کہ وہ ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن کے حامل ہونے کے باوجود افتراق و انتشار کے شکار ہیں اور یہ اختلاف عوام سے لیکر خواص تک کے درمیان پایا جاتا ہے ۔
آئیے ذیل میں جائزہ لیتے ہیں کہ ان اسباب کا جو اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور پھر اتحاد کیلئے رہنما اصول کا بھی تذکرہ کریں گے ۔
اتحاد و اتفاق کی راہ میں سب سے بڑی رکاروٹ وسوسہ ہے ۔ وسوسہ کا آنا فطری تقاضا ہے ۔ ہر شخص کو مختلف امور کے بارے میں وسوسہ آتاہے ۔ کبھی وسوسہ تو ایمان کے تعلق سے بھی آجاتاہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ وسوسہ کو محض وسوسہ تک ہی محدود کردیاجائے ۔ اس پر یقین اور بھروسہ نہ کیا جائے ۔ دل میں آئے وسوسہ کا زبان پر بھی کوئی تذکرہ نہیں ہو ۔ حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا کہ ”ہم اپنے دلوں میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانا بھی ہمارے لیے بہت گراں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،کیا تم (واقعی) اس چیز کو پاتے ہو؟ ”وہ کہتے ہیں جی ہاں۔جواب ملتا ہے
:“یہی تو خالص اور صحیح ایمان ہے۔ ”یعنی وساوس کا آنا خالص ایمان کے حامل لوگوں کی نشانی ہے ۔۔ چور اور ڈاکو اس گھر میں حملہ آور ہوتے ہے جہاں خزانہ ہوتا ہے، اسی طرح شیطان بھی ڈاکہ زنی کے لیے ایسے دلوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں دولت ایمان ہوتی ہے،اس لیے وسوسوں سے ڈرنے والا انسان بہت ہی نصیب والا ہے۔ دوسری جگہ حدیث میں ہے کہ جب تک ان وساوس کو زباں پر نہ لایا جائے۔، ان پر عمل نہ کیا جائے۔تب تک گرفت نہیں ہوگی ۔ (متفق علیہ (البخاری: ۲۵۲۸ و مسلم: ۳۳۱/۱۲۷)۔ اس لئے وسوسہ کو محض وسہ ہی سمجھیں ۔ کبھی بھی زبان پر نہ لائیں ۔ اسے ذہنوں سے مکمل طور پر نکال دیں ۔ اگر اس نے ترقی کی ، ذرہ برابر بھی اس پر توجہ دیا گیا تو پھر نقصان کے دروازے کھلنے شروع ہوجائیں گے ۔
اتحاد کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ حسد ہے ۔ حسد ایک تباہ کن بیماری کا نام ہے جس میں ایک انسان دوسری انسان کی ترقی اور کامیابی کے بارے میں یہ سوچتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے ۔ اس کے پاس اس کا ہونا غلط اور انصاف کے خلاف ہے ۔ اسے حسد کہا جاتا ہے جس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے اور اتحاد کی راہ میں یہ بڑی رکاوٹ بنتاہے ۔ ایک انسان کے پاس دولت ، عہدہ اور عزت ہونے کی صورت میں دوسرا سوچتاہے کہ یہ اس کے پاس کیوں ہے ۔ اسے یہ چیزیں نہیں ملنی چاہیئے ۔ اس کا حقدار صرف میں ہوں ۔مجھے ہی یہ عزت ، دولت ، عہدہ اور منصب ملنی چاہیئے ،اسی حسد کی آگ میں دشمنی شروع ہوجاتی ہے ۔ اتحاد کی جگہ اختلاف و انتشار پروان چڑھنے لگتا ہے اور معاشرہ تباہی کی نذر ہو جاتا ہے ۔
تیسری وجہ تحقیق ضروری ہے ۔ آج کل لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں ،اسی بنیاد پر کسی کے بارے میں بدگمانی قائم کرلیتے ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوجاتاہے ۔ اس لئے سب پہلے ناقل کیلئے ضروری ہے کہ وہ مکمل تحقیق اور یقین کے ساتھ کوئی بات کہے ۔ جب تک یقین نہ ہو ، کوئی ثبوت نہ ہو اس کا تذکرہ کہیں بھی نہ کرے ۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ کسی کے بارے میں کوئی تذکرہ بھی کرتاہے تو سننے والے کی ذمہ داری ہے کہ اس کو آگے بڑھانے کے بجائے پہلے اس کی تحقیق کرے ، اس کے بارے میں چھان بین اور تفتیش کرے ۔
دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی بھی ضرور ی ہے ۔کسی کی ذات میں کوئی عیب ہے ۔ اس کا کوئی ذاتی معاملہ ہے تو انسان کو چاہیئے کہ اس پر پردہ رہنے دے ۔ اس کی تشہیرنہ کرے ۔ اس پر ہنگامہ نہ برپا کرے ۔ اللہ تعالی عیوب پر پردہ پوشی کو پسند کرتاہے ۔ ہمارے معاشرہ اور سماج کا رویہ اس حوالے سے بہت مختلف ا و رشرمناک ہے ۔ لوگو ں کو دوسروں پر تنقید کرنا ،اس کے ذاتی معاملوں کو اچھالنا اور اس کی تشہیر کرنا بہت زیادہ پسندہے۔
اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ غیبت بھی ہے ۔ غیبت ایک ایسی خطرناک سماجی برائی ہے جو انسانوں کو تباہ وبربادکردیتی ہے اور اختلاف وانتشار کا شکار بنادیتی ہے ۔ غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کے برے وصف کو اس کی عدم موجودگی میں اس طرح بیان کریں کہ اگر وہ سن لے تو برا مانے خواہ زبان سے بیان کرے یا بذریعہ اعضا یا بذریعہ قلم یا کسی اور طریقے سے عیب جوئی کی جائے اگر وہ عیب اس میں موجود نہیں تو یہ تہمت اور بہتان ہے۔ اسلام میں غیبت کرنے کی سخت وعید آئی ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایاہے”اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) آگ سے ڈرو بیشک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے“( سورہ الحجرات، 49 : 12)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ باوجود ندامت اور توبہ کے اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت میں غیبت کو تمام کبائر سے زیادہ مہلک اور سنگین گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک شخص غیبت کرتا ہے اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ غیبت نہ کرو تو وہ کہتا ہے میں تو اس شخص کا صحیح عیب بیان کر رہا ہوں یہ غیبت نہیں ہے۔ حالانکہ غیبت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے غیبت کیا چیز ہے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا بہتر علم ہے۔ ارشاد فرمایا : غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہے جو اسے بری لگے کسی نے عرض کیا اگر میرے بھائی میں وہ برائی موجود ہو تو کیا اس کو بھی غیبت کہا جائے گا؟ فرمایا جو کچھ تم کہتے ہو اگر اس میں موجود ہو تو جبھی تو غیبت ہے اور اگر تم ایسی بات کہو جو اس میں موجود نہ ہو تو یہ تو بہتان ہے۔
گفتگو اور ملاقات میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا اور نرم رویہ اختیار کرنا بھی اتحاد کے اسباب میں سے ایک ہے ۔کوشش ہونی چاہیئے کہ گفتگو کے درمیان رویہ نرم رہے ۔ انداز مخلصانہ رہے ۔طنز نہ ہو ۔ باہمی احترام کا جذبہ ملحوظ رہے ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کی جائے ۔
تعظیم انسانیت اور احترام انسانیت کے تصور کو فروغ دینا بھی اہم ارو ضروری کاموں میں سے ایک ہے ۔ انسان سبھی برابرہیں ۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے ۔ سبھی انسان اکرام اور احترام کے حقدار ہیں ۔ اللہ تعالی نے خود قرآن کریم میں ارشاد فرمایاہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے تمام بنی نوع انسان کو مکرم اور قابل احترام بنایاہے ۔
علم کا فروغ اور معاشرہ کو تعلیم یافتہ بنانا بھی ضروری اور بنیادی کاموں میں شامل ہے ۔ علم کے بغیر کسی بھی سماج کی ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔ علم خواہ کوئی بھی ہو اس کی اہمیت اور ضرروت ہرزمانے میں رہی ہے اور آج بھی ہے ۔ خاموشی کے ساتھ علم کو فروغ دینا ،اس کے لئے اسباب وسائل مہیاکرانا بنیادی کاموں میں سر فہرست ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ معیاری اسکول قائم کئے جائیں ۔ اعلی تعلیم کیلئے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر توجہ دی جائے ۔ طلبہ وطالبات کی درست سمت میں رہنمائی کی جائے۔
مجموعی طور پر منفی قوتوں اور منفی امور سے گریز کیا جائے ۔ ان کو ختم کیاجائے اور مثبت چیزوں پر توجہ دی جائے ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کو برابر قرار دیا ہے ۔ متعدد جگہ اللہ تعالی نے اتحاد واتفاق قائم کرنے کا حکم دیا ہے ۔اللہ تعالی نے تمام بنی نوع انسان کو برابر قرار دیاہے ۔ اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کہاہے کہ ایک دوسرے کے تعلق سے بدگانی پیدا نہ کی جائے ۔ لوگوں کے بارے میں حسن ظن قائم رہنا چاہیئے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں بہت زوردیکر ارشاد فرمایاہے کہ کوئی بھی نقل کرنے سے پہلے اس کی تحقیق ضروری ہے اور خاص طور پر تفرقہ بازی ، گروپ بازی اور اختلاف و انتشار کی شدید ممانعت آئی ہے ۔یہ قرآن کریم کے واضح احکامات ہیں جو امت مسلمہ کیلئے تا قیامت مشعل راہ ہیں ۔ ان پر عمل کرنا اور ان آیات کے مطابق زندگی گزارنا ضروری ہے ۔ اسی میں کامیابی اور کامرانی ممکن ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ موجود ہ حالات میں ان امور پر توجہ دی جائے اور یہ ضروری کام انجا م دیئے جائیں ۔جو لوگ جس میدان کے ماہر ہیں اس میں دوسروں کو تعاون دیں ۔ دوسرے کام کرنے والوں کی رہنمائی اور مدد کریں ۔ تعلیم کے میدان میں جو لوگ کام کرنے چاہتے ہیں ان کی وہ لوگ مدد کریں جنہیں اس کا تجربہ ہے ۔ ساؤتھ میں اس تعلق سے قابل ذکر کام ہوا ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی مہم چلانے والوں کی وہ لوگ مدد کریں جو پہلے سے اس میں فعال ہیں ۔ جو لوگ میڈیکل کے میدان میں ہیں وہ وہاں مدد کریں ۔ جو سیاست کے میدان میں فعال ہیں وہ وہاں دوسروں کو تعاون دیں ۔ باہمی تعاون کا جذبہ زیادہ سے زیادہ پیدا کریں ۔ آپسی تعاون اور امداد کو جاری رکھیں ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)