غیرت -کہاں ہے تو !

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
سن 92 ہجری کی بات ہے جب اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا،مسلم حکومت دنیا کی سپر پاور طاقت تھی ،قیصروکسری کا خاتمہ ہوچکاتھا،دنیا کی دوبڑی سطلنت روم اور ایران اسلامی خلافت کا حصہ بن چکے تھے ،اسلامی فوج مغرب او ر مشرق کے محاذ پر برسر پیکار تھیں ،ایک طرف اسلامی فوج کا بڑا حصہ موسی بن نصیر کی قیادت میں اندلس پر فتح ونصرت کے جھنڈے لہرارہاتھا اور فرانس وجرمنی کی جانب بڑھنے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی تو دوسری طرف مشرق کے ترکستان میں قتیبہ مسلم کی قیادت میں مسلم افواج کی پیش قدمی جاری تھی ،اس دوران کوفہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے کانوں میں ایک مسلم خاتون کی دردانگیز آواز پہونچتی ہے ’’کہ مجھے راجہ داہر نے قیدکررکھاہے ،میری عزت کو خطرات کے لاحق ہیں ،میری جان محفوظ نہیں ہے ‘‘ حجاج بن یوسف جسے اسلامی تاریخ میں ظالم اور خونخوار گورنر کے نام سے یادکیاجاتاہے وہ اس آواز کو سن کر تڑپ اٹھتاہے،بے چین وبیقرار ہوجاتاہے اور راجہ داہر کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی کرلیتاہے،سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہتاہے کہ اب مسئلہ ہماری قومی غیرت کا ہے ،مسلم ماؤں اور بہنوں کی عزت اور عصمت کا ہے ،جس نے بھی ہم پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے اسے اب بخشانہیں جاسکتاہے ۔حجاج بن یوسف خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک سے بہت ہی مشکل اور جدوجہد کرکے ہندوستان پر چڑھائی کی اجازت طلب کرتے ہیں کیوں کہ دومحاذو ں پر فوج کے برسرپیکار ہونے کی وجہ سے خلیفہ ایک اور محاذ کھولنے کے حق میں نہیں تھے ،یوں حجاج بن یوسف نے سات ہزار فوج کے ساتھ ایک سترہ نوجوان محمد بن قاسم کو سپہ سالار بناکر ہندوستان کی جانب روانہ کیا ، سامانِ جنگ اور رسد میں حجاج نے سوئی دھاگہ تک مہیا کی۔ محمد بن قاسم 92 بمطابق 11 7میں بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ دیبل پر حملہ آورہوکراسے فتح کر ڈالا، لیکن یہاں وہ خواتین نہیں ملی جن کی آواز نے محمد بن قاسم کو یہاں تک پہونچایاتھا چناں چہ انہو ں نے نہایت تیزی کے ساتھ 75 میل کے فاصلے پر نیروان شہر پر چڑھائی کردی اور پے در پے کئی علاقے فتح کرتا ہوا دریا عبور کر کے داہر سے سخت مقابلہ ہوا۔ بالآخر سخت لڑائی کے بعد داہر مارا گیا اور مذکورہ عرب قیدی عورتیں اور بچے راجہ داہر کے ایک وزیر سسکار کی تحویل سے دیبل میں بر آمد ہوئے۔
مسلمانوں کے غیرت قومی کی ایک معمولی مثال ہے جس میں اپنی قوم کے افراد سے محبت ،ان کی حفاظت اور فکرمندی مکمل طور پر عیاں ہے ،بعینہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان اس طرح شیروشکر ہوکر رہیں کہ اگر مشرق میں کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھے تو مغرب کے مسلمانوں کو اس کا احساس ہو‘‘لیکن آج مسلمانوں سے غیرت قومی ختم ہوگئی ہے ،ان کا ضمیر مردہ ہوگیا ہے ،تعیش اور عیش پسند ی نے انہیں دوسروں کی فکر کرنے سے محروم کردیاہے یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے نقشے پر 57 سے زائد مسلم ممالک موجود ہیں ،دنیا کے اہم ترین خطے میں مسلمانوں کی حکمرانی ہے ،دولت کا وافر حصہ ان کے قبضے میں ہے ،تیل گیس سمیت متعدد قدرتی ذخائر سے یہ ممالک مالامال ہیں لیکن انہیں دنیا کے دوسرے خطے میں آلام ومصائب کے شکار اور ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں سے کوئی سروکارنہیں ہے ،ان پرٹوٹنے والی قیامت سے انہیں کو ئی مطلب نہیں ہے ،مسلم ممالک کے خلاف جنگ کرنا،مسلم تنظیموں پر دہشت گردی کا لیبل چسپا ں کرنا،منتخب اسلامی حکومتوں کے خلاف اقدام کرنا جیسے کارنامے یہ تو خوب انجام دیتے ہیں لیکن جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوتاہے ،ان پر قیامت ٹوٹتی ہے ،مظالم کے تمام حربے اپنائے جاتے ہیں اس پر کبھی کچھ بولنے کی جرات بھی نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے طرزعمل سے پتہ چلتاہے کہ دنیا کے دوسرے خطے میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم وستم کی انہیں بھی خبرہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ چند ممالک کو چھوڑ کرپوری دنیا کے مسلمان شدید مظالم سے دوچار ہیں ، وہاں بھی پریشان حال ہیں جہاں ان کی حکومت ہے اور وہاں بھی ظلم وستم سے دوچار ہیں جہاں یہ اقلیت میں ہیں ،اگر شام ،عراق ،افغانستان ،لیبیا ،یمن فلسطین سمیت مسلم ملکوں میں مسلمان بدترین صورت حال کا سامناکررہے ہیں تو وہیں یہ مسلمان ،امریکہ ،جرمنی ،یورپ ،فرانس سمیت متعدد ممالک میں تعصب ،منافرت اور عدم رواداری جیسے مسائل سے دوچا رہیں ،ان سب کے درمیان میانمار کے روہنگیا مسلمان بحران کے آخری پائیدان پر پہونچ چکے ہیں،ان سے ان کی شہریت سلب کرلی گئی ہے ،انسانی حقوق سے دستبردار کردیاگیاہے ،فوج جب چاہتی ہے جیسے چاہتی ہے قتل کردیتی ہے ،بچوں کو زندہ آگ میں جھونک دیتی ہے ،خواتین کا جنسی استحصال کرتی ہے ،رائٹر نے ایک ابھی ایک انٹر ویو شائع کیاتھا جس کے مطابق بنگلہ دیشن پہونچنے والی ایک خاتون نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہاکہ انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایاگیا ،پھرفوج نے ریپ کیا ،اس کے بعد ان کے بیٹے کو پولس نے اسلحہ کے زور پر ماں کے ساتھ ریپ کرنے کاحکم دیا۔میانمار میں فوج خود ریپ کرتی ہے ،ماں کو بیٹے کے ساتھ اور بیٹی کو باپ کے ساتھ ریپ کرنے پر مجبور کرتی ہے اس کے بعد پھرگولیوں سے بھون دیتی ہے یا پھر انہیں میانمارمیں پوری جائیداد سمیت چھوڑ کرکہیں اور جانے کو کہاجاتاہے ،جب یہ مظلوم زندگی کی آس میں سمندر پہونچ کرکشتی پر قدم رکھتے ہیں تو کبھی سمندر کی موجیں انہیں لقمہ اجل بنالیتی ہیں اور کبھی انسانی اسمگلر اپنی خوراک بنالیتے ہیں ،کچھ لوگ بہت مشکلوں سے اپنی جانیں بچاکر سمندر عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ساحل کنارے واقع بنگلہ دیش سمیت تمام ملکوں کی سرحدیں انہیں بندملتی ہیں ۔
ظلم وستم کا یہ سلسلہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ دراز سے جاری ہے لیکن عالمی رہنما اور مسلم لیڈران خاموش ہیں اقوام متحدہ بیانات جاری کرکے لفظی ہمدردی کرنے سے آگے نہیں بڑھ رہاہے ،سفارتی آداب برقراررکھنے کی کوشش میں مسلم ممالک میانمار حکومت سے باز پرس تک کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ،اقوام متحدہ کے اجلاس میں کسی کو روہنگیا مسلمانوں کے بحران پر بات کرنے کی توفیق نہیں ملتی ہے ،میانمارکی وزارت خارجہ کو ایک بیان بھیج کر اس واقعہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے یاوہاں کے سفیر کو طلب کرکے ظلم وستم کا یہ سلسلہ بندکرنے کی اپیل تک مسلم حکمرانوں نے نہیں کی ہے ۔
کہاں گیا مسلمانوں کا دھڑکتاہوادل ،کہاں چلی گئی قومی غیرت ،کس کے پاس مسلمانوں نے گروری رکھ دیا اپنا ضمیر ،جو قوم غیرت کے حوالے سے سب سے زیادہ مشہور تھی آج اس قوم کی رہنما بے حس بن گئے ہیں اور دوسری قوموں کے حکمراں غیرت مندی کا ثبوت پیش کرنے لگے ہیں،ابھی حال کی بات ہے ،2014 میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد ہندوستان میں متعدد چرچ اور عیسائی اسکولوں پر حملے ہوئے تو اوبامہ نے ہندوستان آکر نریندر مودی حکومت کو نصیحت کی کہ جمہوری ملک میں اقلیتوں کے ساتھ انصافی زیادتی اور تشدد نہیں ہونی چاہیئے ،2010 میں امریکہ کی سرزمین پر ایک گردوارہ میں فائرنگ ہوئی جس میں پانچ سکھ مارے گئے تو اس وقت کے ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے امریکی صدرباراک اوبامہ کو فون کرکے اس واقعہ کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی ۔
آج مسلمان اور مسلم حکمران خواب عیش میں مست ہیں ،اپنی سرحد اور ملک کی حفاظت میں امت مسلمہ کا درد بھی محسوس نہیں کرپاتے ہیں ،ظلم وجبر اور قہروستم کے شکار روہنگیا مسلمانوں کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں بول پاتے ہیں ،خدا بھلاکرے ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق کا جنہوں نے جرا ت ایمانی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے میانمار حکومت کے خلاف سخت موقف اپنایاہے،گذشتہ اتوار کو حکومت کے اعلی افسران کے ساتھ ایک ریلی کرکے ان سے ظلم وتشدد روکنے کی اپیل کی ہے ،میانمار کے ساتھ ہونے والے فٹبال میچ کو بھی انہوں نے منسوخ کردیا ہے ،ترکی سے بھی یہ خبر آرہی ہے کہ وہاں کے علماء نے حکومت سے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھانے کی درخواست کی ہے۔
اے روہنگیا مسلمانوں !ہمیں معاف کردینا ، آج ہم بے بس ہیں ،ہمارے پاس اقتدار نہیں ہے جن کے پاس اقتدار ہے ان پر بے حسی کا غلبہ ہے ،وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے فکر مند ہیں،انہیں قول خدااور قول رسول اب یادنہیں رہ گیا ہے ، جن کی زمین پر وہ حکومت کررہے ہیں ان کے فرمان سے وہ بغاوت کرچکے ہیں،جن کی قربانیوں کے صدقے میں انہیں حکومت نصیب ہوئی ان کے افکار وعزائم کو فراموش کرچکے ہیں،ہم بارگاہ ایزدی میں غیرت کی واپسی کیلئے دعا گو ہیں، اے خدا مسلمانوں کو غیرت وحمیت عطا فرما۔(ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE