میں چاند ہوں یا داغ ….!

ام ہشام ، ممبئی

آس پاس کتنا شور ہے نا! کیا میری طرح آپ کو بھی یہ شور پریشان کرتا ہے ،حیران کرتا ہے ؟
عجیب و غریب سی فضا چل نکلی ہے ۔
ہر کوئی اپنی ذات  فراموش کئے  دوسروں سے یہ امیدیں وابستہ کئے بیٹھا ہے کہ وہ اس کے تئیں اپنی ذمہ داریاں ٹھیک سے نبھائے اور اسے عزت واحترام نصیب ہو۔
انسانی بستی کے اس شور نے ہم سے قوت بصیرت چھین لی ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت  کو نقطہ انجماد پر معلق کر دیا ہے ۔
ایک ہُو ہَلّہ سا ہوتا ہے کہ  لوگ  چڑھ دوڑتے ہیں ، باہم دست وگریباں ہونے لگتے ہیں بنا یہ سوچے سمجھے کہ اس  معاملہ کی جڑیں کہاں تک ہیں اس کے  حقیقی اسباب کیا ہیں؟
“ابھی ابھی جو جان گئی ”
یہ کوئی چھوٹا حادثہ تو نہ تھا دل لرز گئے ، آنکھیں نم ہوگئیں ،دِنوں اس لڑکی کا چہرہ بھلایا نہیں گیا۔
کیا ! ” جان واقعی اتنی سستی ہوتی ہے کہ ہنستے ہنستے ہوا اور پانی کی نذر کردی جائے ؟”
کیا  آج کی “عورت” اتنی کمزور ہوچکی ہے ؟
یہ اعتراف کرلینے میں  حرج ہی کیا  ہے کہ ہم آج حقیقی دنیا کو چھوڑ کر افسانوی دنیا میں جینا چاہتے ہیں ، ذمہ داریاں کم نبھارہے ہیں توقعات زیادہ پال رہے ہیں۔اس لئے ہم بہت کمزور ہوتے جارہے ہیں۔
ہمیں ایک سجی سجائی زندگی چاہیے جس میں انتظار ، ایثار ، قربانیاں ، مشکلات ، آزمائشیں ، پریشانیاں بالکل بھی  نہ ہوں۔
آج کسی  لڑکی سے پوچھئے اسے مستقبل میں کیسا گھر چاہیے؟
جو جواب آئے گا اس جواب کی تعبیر آپ کو صرف فلمی ویڈیوز ،فیسبک یا  انسٹاگرام کی پندرہ سیکنڈ کی شارٹ ویڈیوز میں ہی مل سکتی ہے۔
حقیقی زندگی ان آسائشوں اور  خوبرو لیکن خیالی رفیق سفر سے ایک دم خالی ہے جن کا سپنہ لے کرآج قوم کی بیٹیاں چل رہی ہیں۔ تو پھر ان کی زندگی میں نا آسودگی ، تشنگی باقی ہی رہے گی۔
اگر خواتین آزادی نسواں  اور مساوی حقوق کے دلفریب نعروں پر ایمان لانا چاہتی ہیں اور  ان کی یہ دنیا بڑی دلفریب معلوم ہورہی ہو تو پھر کیوں نہ وویمن ایمپاورنمنٹ کی صداؤں سے ہی بات شروع کی جائے ۔
اس کے تقاضوں کا ہی موازنہ کرلیتے ہیں۔
آپ کو تو اسلام نے یونہی سارے اختیارات دے رکھے ہیں بغیر کسی شور شرابے کے
یکساں تعلیم ، خوراک ، صحت ،  میراث ، حسن سلوک ، شادی اور شریک سفر کے لئے مکمل رضامندی وغیرہ ۔۔۔۔
گھر میں پیدا ہونے والی ایک مسلمان بچی کے لئے اسلام نے یہ ساری رعایتیں رکھی ہیں ۔
اب اگر یہ سارے حقوق اگر کہیں  کسی کے ذریعے پامال کردئے جائیں تو قصور اسلام کا ہے یا ظالموں کا ؟۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے سب سے زیادہ نعرے وہی لگارہی ہوتی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے گھر اجاڑ رکھے ہیں۔
جو عورت اپنے حقوق کے لئے غلط طریقوں سے واویلا کررہی ہوتی ہے وہی عورت کہیں ماں بن کر کہیں ساس بن کر تو کہیں بھاوج یا جٹھانی بن کر اپنی ماتحت عورتوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہے۔
غور کرئیے گا !!! چاند سی بہو کی طلب میں سیکڑوں  لڑکیوں کو ریجکیٹ کرنے والی کون  ۔۔۔عورت/ مرد؟
جہیز کی فرمائش اور اس کی لسٹ تیار کرنے والی کون عورت / مرد؟
گھر میں بیٹی کی پیدائش پر اٹھتے بیٹھتے جو خدائی  کردار بیٹی جننے والی ماں کی درگت بناتے ہیں وہ کردار کس کے عورت / مرد؟
شادی کے فورا بعد  اپنی الگ جنت بنانے کے نام پر شوہر کو اس کے رشتوں اور مال سے  دیوالیہ کرنے والا کون مرد /  عورت ؟
بیٹیوں اور نندوں کی میراث ہڑپ کر بیٹے اور شوہر کا کاندھا مضبوط کرنے والا کون مرد / عورت؟
اپنے نالائق، نشئ ، بد قماش  بد کردار بیٹوں کی شادیاں  غریب ، خوبصورت کم عمر لڑکیوں سے کرواکر ان کہ۔زندگیاں جہنم بنانے والا کون مرد /  عورت ؟
جہیز کم لانے یا نہ لانے پر گھریلو تشدد کون کرتا ہے؟
مرد / عورت؟
پولیس اسٹیشن کی فائلوں میں درج جنسی ہراسانی اور جہیز کی جھوٹی رپورٹیں اور ایف آئی آر کس نے کٹوائیں عورت / مرد نے ؟
بات بات پر سسرال والوں کا جذباتی استحصال  کرنا خودکشی کی دھمکیاں کون دیتا ہے عورت / مرد؟
پھر اب فیصلہ کیجئے کہ اختیارات کس کے پاس ہیں ؟
کون ہے زیادہ طاقتور ؟
معاشرتی ، سماجی امور کی نکیل اکثر کس کے ہاتھ ہوتی ہے ؟
اب اگر سمجھ آگیا ہو تو آگے بڑھتے ہیں
“عورت مظلوم ہے ” کی دہائی دینے والے جانتے ہیں کہ جو سماج اپنی بنیاد ، اپنے مذہبی  اقدار واصول چھوڑ دیتا ہے وہ اسی طرح سے ریزہ ریزہ ہوکر بکھرجاتا ہے ۔یہ جو ناقابل یقین سے  معاملات آس پاس ہورہے ہیں وہ سب کیا ہیں ؟
“دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔”
اللہ نے مردو عورت کی تخلیق ایک ہی اسکیل پر کی ہے بندگی کے معاملے میں بھی  دونوں برابر ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو محض اس کے ختیارات  اور دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے ظالم  قرار دینا ظلم ہے۔
مرد یا عورت ظالم تو کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔ ہاں!  کئ مقامات پر عورت کمزور پڑجاتی ہے اور وہاں اس پر ظالم مرد حاوی ہوجاتا ہے۔
لیکن یہ کیا کہ خود پر ہوئے ظلم کا بدلہ دوسری  ماتحت عورتوں سے لیا جائے جو کسی صورت مناسب نہیں۔
آپ یقین رکھ کر پڑھیں عورتوں کے حقوق کا گلا پھاڑ اعلان وہی لوگ کررہے ہیں جنہوں نے دوسرے کے حقوق غصب کررکھے ہیں ۔
میں عورتوں کو مخاطب کرتی ہوں …
آپ کے سارے حقوق، ساری طاقتیں آپ ہی کے پاس ہیں۔ بس ضرورت ہے انہیں پہچاننے کی ،  سر اٹھاکر عزت ووقار کے ساتھ اپنے حقوق منوانے کی ۔
آپ کی طاقت کیا ہے  ؟
آپ کی ممتا ، وفاداری  ، آپ کا کردار  ،  نرم خوئی آپ کی قوت فیصلہ ، آپ کا علم  ، صابر وشاکر طبیعت  یہی آپ کی سب سے بڑی  طاقت ہے ۔
کرنا کیا ہے ؟
اٹل رہنا ہے اپنی سچائی خودداری پر مکمل اعتماد کے ساتھ  ،جو ذمّہ داریاں ہمیں پیدا کرنے والے نے عطا کی ہیں  ، جن کے ہم جوابدہ ہیں وہ ذمہ داریاں ہمیں سب سے پہلے پوری کرنی ہیں اور بحسن وخوبی ادا کرنی ہیں ۔
ہم معاشرے کو صالح افراد دینا چاہتی ہیں  ، تو وہ افراد ہم ہی تیار کریں گی اس طرح کہ  ” ہر عورت اپنی اولاد کی نیک اور صالح تربیت کرے تاکہ ایک ایک گھر سے تیار ہونے والا معاشرہ حرص وھوی بے ایمانی اور گمراہی سے پاک معاشرہ ہو۔
ہمیں ان معصوموں کو بچانا ہے جن کے ہاتھوں میں آج  کتابوں کی بجائے نشے کے سگریٹ ہیں ۔
ان بچے بچیوں کو وقت رہتے سنبھالنا ہے جو رفتہ رفتہ الحاد کی طرف جارہے ہیں۔ قوم کی ان بچیوں کی زندگیاں بچانی ہیں، جو کسی غیر مسلم سے شادی کے لئے کوشاں ہیں ۔
عورتیں یہ تسلیم کرلیں کہ زندگی کے اکثر شعبوں میں ہماری وجہ سے انقلاب آسکتا ہے مثلا عورتیں مایوں  ، مہندی  ، ڈھولکی  ، برائیڈل  شاور   بارات ، برتھ ڈے اینی ورسری جیسی خرافات  پر پیسوں کے ضیاع سے اپنا پیچھا چھڑوائیں اور  سمجھداری کا ثبوت دیں کیونکہ ان میں ایک نہیں کئ مفاسد ہیں۔
اپنے رسوخ ومرتبہ کو اسلام اور اس کی سر بلندی میں صرف کریں ۔تاکہ دنیا اور اہل دنیا آپ کی قدر دان ہو۔جہیز لین دین کا بائیکاٹ اپنے گھروں سے شروع کریں ۔
بیٹیوں اور نندوں کو اپنے ہاتھوں  سے میراث میں ان کا حصہ دلائیں۔
اور جن  نوجوان لڑکیوں کو گاجے باجے ،ہلدی، مہندی اور پھول پتیوں کا زیادہ شوق ہے وہ بھی ایک بار تو ضرور سمجھنے کی کوشش کریں ۔
آپ کی زندگی “پھولوں کی سیج نہیں ہے اس کی شروعات ناچ گانے  ،  بے پردگی ، بے حیائی ، خرافات و فضول خرچی اور ریا کاری سے  نہ کریں ۔والدین سے جہیز کے مہنگے سامان کی فرمائش نہ لگائیں ۔
والدین سے اچھی تربیت لے کر آگے بڑھیں کیونکہ جس زندگی میں آپ قدم رکھنے جارہی ہیں وہ
زندگی ہندی فلموں کی دو گھنٹے کی لَو اسٹوری نہیں کہ ڈیزائنر  لہنگا پہنے پہنے زندگی کا  ” ہیپی والا  اینڈ  ” ہو جائے گا ۔
انسانی زندگی جن پہیوں پر چلتی ہے ان کے نام ہیں کفایت شعاری  ، سمجھداری  ، ایثار  ، برداشت،  وفا پرستی  ، سمجھوتے ۔
یہاں کئی  الجھنیں ہیں جنہیں آپ ہی کو سلجھانا ہوگا ۔مضبوط بن کر سمجھدار بن کر ایک رول ماڈل بن کر اپنے جیسوں کے لئے مثالیں قائم کرنی ہوں گی ۔
کہ زندگی اتنی سستی نہیں کہ حالات سے گھبراکر اسے ہوا یا پانی میں اڑادیاجائے ڈبودیا جائے۔
تب کہلائیں گی آپ ایک  super women
بچیو!! آپ کی موبائیل اسکرین پر ہر دو منٹ بعد اشتہاری کمپنیاں اپنا اشتہار عورتوں کی آزادی ، خوشی ، شناخت وپہچان کے نام سے لگاتی آرہی ہیں اور جنکو دیکھ دیکھ کر آپ نے اپنا دماغ خراب کر رکھا ہے ،والدین اور گھر والوں سے بغاوت ٹھان لی ہے۔ اور ایک اَن دیکھی آزادی کی فضا میں سانسیں لینے کی جو خواہش پالے جارہی ہیں ذرا عقل کا استعمال کرکے سوچئے!
یہ لوگ آپ کو آزاد ، خود مختار ، خود کفیل ، بیباک بنانے کا دعوی کرتے ہیں لیکن یہ  سب کیسے ہوگا ؟
جب آپ سر عام ہاتھ اٹھاکر اپنی بغلوں پر  ان کی کمپنی کے 50 روپے والا  شیونگ بلیڈ یوز کریں گی تب آپ جہاں کو جیت لیں گی؟
جب آپ انتہائی چھوٹے کپڑے پہننے کے باوجود بغیر شرمائے ان کے تین ہزار کے جوتے پہن کر سڑک پر بے تحاشہ دوڑیں گی تب دنیا آپ کے قدموں کو چھورہی ہوگی؟
اگر آپ نے ان کے صابن سے اپنے چہرے کو دھولیا تو آپ کو رشتے والے کبھی ریجیکٹ نہیں کریں گے ؟
“ایسا ہونا سچ مچ ممکن ہے ؟” یہ مارکیٹنگ کی دنیا رفتہ رفتہ آپ سے آپ کی نسوانیت چھین رہی ہے بغاوت پر آمادہ کرکے انتہائی سستے  گیتوں کے بولوں  پر ، آپ کو گلیمر کی چکا چوند دے کر کمرشیلائزڈ کردینا چاہتی ہے۔
بغل کھول کر دکھادینے سے  ، شارٹس پہن کر چلنے سے  ، ہاتھوں میں سینیٹری پیڈز اچھالنے سے آپ کا کیا فائدہ ہوا ؟
سارا فائدہ تو کمپنی کا ہوا  کہ ان کا مال بِکا ۔آپ تو مفت میں لوگوں کی نظروں میں تماشہ بنیں۔
یاد رکھئے! تماشہ انہی چیزوں کا بنتا ہے جسے سماج قبول نہیں کرپارہا اور سماج ان چیزوں کو کبھی قبول نہیں کرتا جو انسانیت سے عاری ہوتی ہیں اور اس کی فطرت کو چیلنج کرتی ہیں۔
ایسے پُر فریب نعروں سے ہوشیار رہنا اور ہوشیار رکھنا یہ ایک عورت کی ذمہ داری ہے ۔
آپ کا فائدہ تو تب ہوتا جب آپ اپنے تعلیمی میدان میں کچھ کر دکھاتیں ۔
آپ کی ڈگریاں سماج کے کسی کام آتیں ۔آپ” بولڈ” ہیں۔ “بنداس “ہیں ۔لیکن یہ بیباکی تب کام دے جاتی جب آپ کسی مظلوم عورت کو اس کا حق دلواتیں۔
عریانیت بےحیائی فحاشی اور جنگل راج جیسی آزادی نہ ہی ماڈرن ازم ہے اور نہ ہی کوئی کامیابی ۔۔۔
یہ فقط جبلت کی تکمیل کا ایک شیطانی راستہ ہے ۔
کمیوں کوتاہیوں کا اعتراف کریں ۔اپنے کردار متعین کریں۔
ہم warrior ہیں ، بزدل نہیں ۔ زندگی سے الجھنا پھر انہیں سلجھانا ہمیں خوب آتا ہے ۔
اسٹینڈ لینا سیکھیں۔جہاں لگے اب” کسی “کے ساتھ جینے کی گنجائش نہیں بچی ۔ وہاں ہمت کا ثبوت دیں راستے الگ کرلیں ۔
جاتے جاتے آپ کو  اپنی ایک  دینی بہن  عطیہ مبارکپوری کا خوبصورت پیغام  زندگی کی مشکلات  سے لڑرہی باہمت خواتین کے نام دے کر جاتی ہوں۔
(“مرد نکاح کے بعد ناموافق حالات میں عورت کو چھوڑ دیتے ہیں! مگر تم ہو کہ دنیا ہی چھوڑ جاتی ہو!
یاد رکھو ! “تمہارا محبوب کبھی تمہاری آخرت سے بڑھ کر نہیں ہونا چاہیے “)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں