شام میں صلیبی جنگ کا تسلسل !

پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی

حلب کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے،زمانہ قدیم میں یہ دنیاکا تجارتی مرکز تھا،بغداد جانے والا قافلہ یہیں سے ہوکر گزرتاتھا،عثمانی دورخلافت میں بھی اس کا شمار تین بڑوں شہروں میں ہوتاتھا،انقرہ ،قاہرہ اور حلب ، ایک ہزال سال قبل مسیح سے بھی پہلے کے یہاں آثار پائے جاتے ہیں ، اس شہر کی تعمیر وترقی میں بازنطینی حکومت کا خصوصی عمل دخل رہاہے ،عیسائیوں کے اہم ترین شہروں میں سے ایک حلب بھی ماناجاتاتھا،اہل حلب نے قتل وغارت گری کے مختلف معرے کے بھی دیکھے ہیں ،رومی دورحکومت میں متعدد بار اہل فارس نے قابض ہوکر حلب کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی ،اس شہر کو تاراج کیاتھا،بے گناہوں ،عام شہریوں اور خواتین کا بے دریغ قتل کیا تھا،اس خطہ کی عوام قیصری وکسری کی آپس میں ہونے والی جنگوں اور ایک دوسرے کے قابض ہونے کے بعد یہاں برپا کئے جانے والے قہر سے تنگ آچکی تھی ،انہیں انتظا رتھاکسی ایسی فاتح قوم کا جو وہاں خون کی ندیاں نہ بہائے ،ایسی حکومت کا جو انہیں جان ومال کا تحفظ فراہم کرسکے۔ چناں چہ طلوع اسلام کے بعد جب شام کی سرحد سے متصل یمامہ میں اسلامی فوجوں کی آمد کی انہیں خبر ملی تو امید کی نئی کرن پھوٹی ،انہوں نے پرامن قوم کے اپنے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی ،بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں اسلامی جیالوں نے ساتویں صدی عیسوی میں اس شہر کو رومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہونے سے بچالیا، شام کے مختلف شہروں پر فتح کا علم لہراتے ہوئے حلب کو بھی اسلامی قلمروں کا حصہ بنالیا۔
دسویں صدی میں یہ شہر ایک مرتبہ پھر اہل صلیب کے قبضہ میں چلا گیا، لیکن زیادہ دنوں تک ان کی حکومت قائم نہیں رہ سکی ، خلافت عباسیہ کو زوال سے بچانے والے ترک سلجوقوں نے گیارہویں صدی کے آخر میں حلب کو اپنے زیر نگیں کرلیا۔لیکن یہ سلسلہ بھی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا ،غازیان سلجوقی الپ ارسلان اور ملک شاہ کے بعد سلجوقی حکومت کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیااور موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے باز نطینی سطلنت حلب پر چڑھائی کی منصوبہ بندی شروع کردی،عیسائی سیاست دانوں سے لیکر علماء اور پوپ نے دنیاء عیسائیت کو متحدکرنے کی عالمگیرتحریک چلائی،عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقریر کی گئی ،پوپ اربلان کی تقریر کے چند جملے اس کی عکاسی کرتے ہیںجو انہوں نے کہاتھا۔
”اے فرنگیو! وہ ممالک جن میں تم آج سکونت پذیر ہو ،جسے ہر طرف سے سمندروں نے گھیر رکھاہے وہ تمہارے اوپر تنگ ہوتے جارہے ہیں،آج تم کھانے کیلئے دانے دانے کومحتاج ہو،تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے پر آمادہ ہواور خانہ جنگیوں کا شکار ہو،تم نے آپس میں جنگ وجدال کا بازارگرم کررکھاہے،آؤ حقدوعداوت سے اپنے دلوں کو صاف کرو،اپنے باہمی نزاع فرامو ش کرکے عیسی مسیح کے مقدس قبر کی جانب مارچ کرو،اس سرزمین کو خبیث جنس سے چھین کر اپنے قبضہ میں لو،دنیا میں یروشلم کے پھلوں اور پیداوار کی کوئی مثال نہیں”۔
پوپ اربان کی تقریر کا ہر ہر جملہ یہ بتارہاہے کہ صلیبی حملوں کے پس پردہ دنیا سے اسلام کا خاتمہ اور مسلمانوں کو تاراج کرناتھا،وہ اسلامی دولت وثروت کو ہتھیانا چاہتے تھے،اپنے باہمی جنگ وجدال کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑنا چاہتے تھے،اپنی معاشی بدحالی اور یورپ کی تنگی کو دورکرنے کیلئے عالم اسلام کے علاقوں پر قابض ہونا چاہتے تھے۔چناں چہ 1096 میں عیسائیوں نے عالم اسلام پرچڑھائی کردی،تین لاکھ صلیبیوں پر مشتمل یہ فوج قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہوئے ایک ایک شہر کو تاراج کرتے ہوئے شمالی شام کے شہر انطاکیہ تک پہونچ گئی اور تین سالوں بعد بیت المقدس پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
چند سالوں بعد عالم اسلام کی غیرت جوش میں آئی ،مسلمانوں نے اپنی زمین واپس لینے کیلئے تن من دھن کی قربانیاں دینے کا عزم کیا ،نورالدین زنگی جیسے عظیم حکمراں کو اللہ تبارک وتعالی نے اس امت میں پیدا کیا جو نازک وقت میں عالم اسلام کی کھوئی ہوئی طاقت کو بحال کرنے کیلئے روشن علامت بن کر ابھرے ،صلیبی نورالدین زنگی کی طاقت سے لزر اٹھے ،حلب سمیت شام کے تمام شہروں کو زنگی نے صلیبیوں کے ناجائز تسلط سے آزادکرنے میں کامیابی حاصل کرلی ، حلب کو انہوں نے درالحکومت بنایا، اب ان کی آخری منزل بیت المقدس کی آزادی تھی لیکن اسی دوران وہ58 سال کی عمر میں دارفانی سے کوچ کر گئے اور ان کے جانشیں ،عالم اسلام کے عظیم محسن فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی نے ان کا یہ خواب شرمند تعبیر کیا ۔
بغداد اور دیگر مسلم ملکو ں میں خون کی ندیاں بہانے والے ہلاکو خان نے بھی1260 میں حلب پر قبضہ کیا ، 1401ء میں امیر تیمور نے بھی اسے اپنی سلطنت کا حصہ بنایا۔ 1517 میںحلب عثمانی ترکوں کے قبضہ میں آگیا اور اس شہر کی لازوال ترقی ہوئی ،لیکن خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ سقوط حلب کی کہانی بھی کاتب تقدیر نے لکھ دی ،پہلی عالمی جنگ کے دوران فرانس اور برطانیہ نے بلادشام کو مختلف حصوںمیں تقسیم کردیا،جنوبی شام کے علاقے فلسطین اور اردن برطانیہ کے حصے میں آئے تو شمالی شام کا علاقہ لبنان اور موجود سیریا فرانس کے قبضہ میں آگیا جس میں شہر حلب بھی شامل ہے ۔اس کامیابی کے بعد دنیائے صلیب میں جشن منایاگیا ،حلب کی سڑکوں پر جنرل گوروں کی قیادت میں مارچ نکالاگیا،پیٹرسن اسمتھ نے اپنی کتاب ”عیسی مسیح کی عوامی زندگی” میں لکھا”سارے صلیبی حملے ناکام رہے لیکن ایک عظیم حادثہ اس وقت رونما ہواجب برطانیہ نے آٹھواں صلیبی حملہ کیا اور یہ حملہ کامیاب رہا”پہلی عالمی جنگ کے دوران بیت المقدس پر جنرل الینبی کا حملہ آٹھواں اور آخری صلیبی حملہ تھا۔فرنچ فوج کا کمانڈر انچیف جنٹرل گورو صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر پہونچا اور للکارتے ہوئے بولا” اٹھو صلاح الدین ہم واپس آگئے”۔
شام اور فلسطین کے موجودہ حالات پر نگاہ ڈالنے کے بعد یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہاں اب جو کچھ ہورہاہے وہ اسی نئی صلیبی جنگ کا تسلسل ہے جس میں مسلمانوں کو شکست فاش ملی تھی اور عیسائیوں کو عظیم ترین کامیابی ،حالیہ دنوں میں حلب میں جاری قتل وغارت گری ،خواتین کی عصمت دری ،نہتوں کا خون ،بچوں کا قتل ،مساجد پر حملہ ،قبروں کی مسماری اسی صلیبی جنگ کا حصہ ہے کیوں کہ فرانس نے قابض ہونے کے بعد انہیں طاقتوں کو وہاں بڑھاواد یا جو شروع سے ہی مسلمانوں کے لباس میں مسلمانوں کے مخالف اور دشمن تھے ،جنہوں نے ہمیشہ عالم اسلام کو نقصان پہونچانے اور امت محمدیہ کے بڑھتے قدم کو روکنے کی کوشش کی ،غداری اور منافقت کے ذریعہ عالم اسلام کو کمزور کرنے میں ان کا تعاون کیاتھا ،خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کیلئے ان کے مشن میں شریک تھے۔
چناں چہ آخری صلیبی جنگ کے بعد فرانس نے سیریا میں فرقہ واریت کو فروغ دیا،مذہبی اقلیتوں کے درمیان علاحدگی کے رجحانات کو ہوادینے کیلئے ان کی اکثریتی آبادی والے علاقے میں آزاد حکومتیں بنائی ،علوی اور نصیری فرقہ کو آگے بڑھاتے ہوئے سلیمان بن مرشد بن یونس نامی شخص کے ہاتھوں میں قیادت سونپی جس کا تعلق دونوں فرقہ سے بہت قریبی تھا،یوں یہ دونوں فرقہ آگے چل کر ایک متحدہ پالیسی پر عمل پیرا ہوگیا،صلیبی اور نصیری علوی دونوں نے یہ منصوبہ بندی کی کہ” سیریا میں ایک ایسی طاقت کھڑی کردی جائے جو یہودیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی سیریا سے بے دخل کردے ”۔شام کے موجودہ صدر بشارالاسد کے داد سلیمان وحشی کی جانب سے فرانسیسی وزیر اعظم کو لکھے گئے خط سے اس حقیقت کا بھی انکشاف ہوتاہے کہ اس مقصد کی تکمیل کیلئے نصیریوکی تعلیم وتربیت اور فوج ٹریننگ پر خاصی توجہ دی گئی ،اعلی تعلیم کے حصول کیلئے نصیری فرقہ کے لوگوں کو فرانس بھیجاگیا،سیریا کی فوج میں سنیوں کو نکالنے اور نصیریوں کو داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیااور جب 1946 میں فرانس نے سیریا کو الوداع کہا تو اس وقت شام کے تمام ادارے تباہ وبرباد ہوچکے تھے صرف فوج طاقتو ر او ر مضبوط تھی۔
فرانس کے نکلنے کے بعد نصیری مفکر ”زکی ارسوزی ” اور عیسائی دانشور ”میشل عفلق ” کی قیادت میں بعث پارٹی کا قیام عمل میں آیا ،نصیری اس پارٹی کے علم تلے متحد ہونا شروع ہوگئے ،فوج کو اصل ہدف بناتے ہوئے اعلی عہدوں پر قابض ہونے لگے اور مارچ 1963 میں بغاوت کرکے مکمل طور پر نصیری اقتدار پر قابض ہوگئے ۔حافظ الاسد نے سنی مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کا نیا محاذ کھول دیا جس کے بعد سے وہاں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ، ہلاکو اور چنگیز خان جیسی بربریت کا مظاہر ہ اکیسویں اور بیسویں صدی میں شام کررہا ہے ، ملک کی نصف سے زائد آبادی ہجرت کرچکی ہے، اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق صرف 2011 کے بعد سے اب تک وہاں 5 لاکھ سے زائد شہریوں کا قتل ہوچکا ہے ،سیریا میں مقیم 15 ملین عوام انسانی حقوق سے محروم ہیں ،12 ملین عوام نقل مکانی کرچکے ہیں ،6 ملین سے زائد لوگوں کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے،گذشتہ چنددنوں سے حلب میں جاری قتل وغارت گری نے مقتولین ،مظلومین اور مہاجرین کی فہرست میں مزید اضافہ کردیا ہے جہاں روس ،ایران اور شام کی سرکاری فوج مشترکہ طور پر بمباری کرکے دنیا کے عظیم اور محفوظ شہر کو خاک وخون میں تبدیل کرچکی ہے ، ہزاروں میل دوربھی وہاں کی آہ وبکا اور چیخ وپکار سنائی دے رہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ عرب بہار یہ کے نام پر متعدد ممالک میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی ،ضرورت پڑنے پر نیٹو حملہ کیا گیا لیکن صرف شام میں ایسا کچھ نہیں ہوا،اقتدار کی تبدیلی پر سپر پاورطاقتوں نے توجہ نہیں دی ،مظاہرین اور باغیوں کی آواز نہیں سنی گئی کیوں ؟محض اس لئے کہ صلیبیوں نے شام کو اب تک فراموش نہیں کیا ہے ،وہ اس سرزمین سے مسلمانوں کا انخلااوراپنا تسلط چاہتے ہیں ،بشاالاسد اسی منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں مصروف عمل ہیںاوریہ آخری صلیبی جنگ کا تسلسل ہے۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹرہیں)
stqasmi@gmail.com