جامع حلب کا نمازی!

اے ایچ اصغرقاسمی،دیوبندی
گذشتہ روزکا واقعہ ہے کہ میں مسجد میں،جس کی محراب ہمارے گھر کی مشرقی دیوار سے بالکل متصل ھے،نماز پڑھ رہاتھا،میرے ساتھ میرا کلاس فیلو اصغر بھی موجود سربہ سجود تھا،وہ پابند شریعت و جذبہ جہاد سے معمور دل کا مالک تھا لیکن ہمیشہ خود سے ہی اپنی بے سروسامانی کا گلہ کیاکرتا تھا،اکثر دوستوں کی مجلس میں کہا کرتاتھا ،کہ مسلمانان عالم خصوصا ہمارے عرب بھائیوں کے دلوں سے اسلامی غیرت وحمیت ناپید سی ہوتی جارہی ہے،یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں میرے نبی تاجدارِدوعالم فخرِکائنات سرورِکونین امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے””م¶منین ایک جسم کے مانندہیں اگر جسم کے کسی حصے میں کوئی تکلیف ہوتی ھے پورا جسم درد محسوس کرتا ھے“،مگر آج امت مسلمہ کے قلب کا وہ گوشہ جس میں احساس جنم لیتا ہے مردہ ہوچکا ہے بلکہ شاید نفس قلب بھی!۔نمازِعشاءسے ذراقبل بھی ہمارے درمیان اسی موضوع پر گفتگو جاری تھی کہ م¶ذن کی صداءِ پرنور ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہوئے دلوں میں جابیٹھی اور ہم رب العالمین کے دربار عالی میں حاضری کی تیاری کرنے لگے ،میں مسجد تو پہنچ گیا مگر صف اول میں جگہ نہ پا سکا،کاش میں بھی……فضا اگرچہ خوشگوارتھی مگر اپنی تمام تر دل آویزیوں کے باوجود اسدی و روسی بمبار طیاروں کے شور و جوہری مادوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کا شکوہ کررہی تھی اور بیچارے امام محترم باوجود اپنی پیرانہ سالی کے مقتدیوں تک اپنی آواز پہچانے کے لئے زور لگا رہے تھے،دوران تلاوت” کُلُّ نَف±سٍ ذائقةُ الموت“ کو انہوں نے اس روح کش انداز سے پڑھا کہ ہمیں یہ یقین ہوچلا کہ بس اب موت آنا چاہتی ہے اور ہم بس چند لمحوں کے مہمان ہیں۔
خیر امام صاحب نے تھرتھراتی ہوئی آواز سے اللہ اکبر کہا اور ہم سب رکوع میں چلے گئے ،کہ دفعة ایک زور دار دھماکہ ہوا اور فضا¶ں میں ایک بھیانک زنّاہٹ گونجنے لگی،جیٹ طیاروں کا نشانہ اگرچہ ہمارا ذاتی گھر تھا لیکن اللہ کا گھر بھی اسکے نافرمانوں کی بغاوت کی زد میں آگیا،ہمارے چھوٹے سے گھر میں میرے مشفق والدین کے علاوہ پانچ بھن بھائی بھی موجود تھے جو اب زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے تھے
شاید اب بہشت میں اپنے آخری وارث کے منتظر ہوں !!
خیر !
امام صاحب ضعفِ پیرانہ سالی سے آزاد اور اپنے دیگر سینکڑوں مقتدیوں کیساتھ نہایت ہی تیزی سے رب العالمین کی دعوت پر تشریف لے جارہے تھے،اور میرے مجاہد دوست اصغر کے سر کو جیسے ھی بم کے ایک ٹکڑے نے چھوا، بلااختیار اس کے منھ سے ایک دبی دبی چیخ نکلی مگر یہ چیخ زیادہ لمبی نہ رہ سکی کیوں کہ جنت المعلی میں اپنی باقی ماندہ نماز کی تکمیل کے لئے وہ بھی فرشتوں کیساتھ سفر پر نکل چکاتھا،اور میں نے بس نماز کی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ سے اسکی آنکھیں بند کیں اور نماز بغیر سجدہ سہو کے مکمل کرلی ،تو کیا دوست کے آخری سفر کی تیاری میں دورانِ نماز کیا جانے والا میرا یہ عمل درست تھا ؟،کیا مجھے سجدہ سہو کرنا چاہئے تھا(ملت ٹائمز)