دہشت گردی سے متعلق ایجنسیوں کی حکمت عملی اور اس کے متاثرین پر کتاب منظر عام پر

نئی دہلی کے پبلشر فاروس میڈیا نے حال ہی میں عبدالواحد شیخ کی تصنیف کردہ کتاب ’’بے  گناہ قیدی‘‘  کا انگریزی ورژن ’’ انّوسینٹ پرزنرز ‘‘ (Innocent Prisoners) کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ عبدالواحد شیخ بذات خود ان ایجنسیوں کے بنائے ہوئے  مفروضہ دہشت گردی کے منصوبے کا شکار رہ چکے ہیں۔ یہ کتاب مصنف نے اس وقت لکھی جب وہ ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں قید تھے۔

یہ کتاب اصل میں اردو میں شائع ہوئی تھی اور بعد میں اس کا ہندی میں ترجمہ  بھی شائع کیا گیا ۔ اب یہ کتاب انگریزی میں بھی دستیاب ہے۔ 504 صفحات پر مشتمل اس گراں قدر کتاب میں  تفصیل سے  بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایجنسیاں اور پولیس سرکاری پالیسیوں کو درست ٹھہرانے اور ہندوستان کی سیکیوریٹی صورت حال کی بہتری کے نام پر باشندگان ملک کو متاثر کرنے کی ایک حکمت عملی کے تحت   دہشت گردی کے فرضی معاملوں میں بے قصور افراد کو پھنساتی ہیں اور اس سے ایک مخصوص ماحول پیدا کرتی ہے۔
مصنف بذات خود ان حربوں کا شکار ہو چکے ہیں ۔ انھیں اسپیشل مکوکا اور این آئی اے کورٹ ممبئی نے بری کردیا تھا جبکہ ان کے شریک ملزم  اب بھی جیل میں سڑ رہے ہیں اور ان کی اپیل پچھلے چھ سالوں سے بمبئی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
عبدالواحد شیخ بے گناہ لوگوں کو ملوث کرنے، ان کے خلاف فرضی ثبوت گھڑنے اور متاثرین پر تشدد نیز ان کے لواحقین پران  مفروضہ  ’’جرائم‘‘ کو قبول کرنے کے لیے غیر اخلاقی دباؤ کا استعمال کرکے  ان کو   ناکردہ   جرائم کے اعتراف پر مجبور کرنے کی چالوں کو واضح طور پر بتاتے ہیں۔
یہ کتاب بنیادی طور پر 7/11  ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس کے بارے میں ہے لیکن اس میں جرمن بیکری دھماکے 2010 ، مالیگاؤں دھماکے 2006 ، اورنگ آباد آرمز ہال کیس 2006 ، اکشردھام حملہ 2002 اور ایجنسیوں کے ذریعے فرضی کیسوں میں ’’انڈین مجاہدین‘‘ کے نام کے استعمال کے بارے میں بھی تفصیل سے  گفتگو کی  ہے۔ اس  کتاب میں پولیس  کے تشدد ، من گھڑت تدبیروں ، پولیس اور ایجنسیوں کی جانب سے بے گناہوں کو پھنسانے نیزایجنسیوں اور پولیس کے ذریعے بیان کی گئی کہانیوں کو ثابت کرنے کے لئے کس طرح جھوٹے ثبوت گھڑے جاتے ہیں اور جھوٹے اعتراف جرم پر بے گناہوں کو مجبور کیا جاتا ہے، جیسے اہم موضوعات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ کتاب ’’دہشت گردی‘‘ کے نام پر کئی دہائیوں سے ریاستی پولیس اور ایجنسیوں کی جانب سے ہندوستان میں کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیل کی حیرت انگیز تفصیلات پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب حکومت اور ایجنسیوں کےمکروہ چہروں، پولیس ، اے ٹی ایس اور تفتیشی ایجنسیوں کے طریق کار ، ان کی غیر انسانی اذیتوں ،منصوبہ بند قانونی حربوں اور عدالتی معاملات کے رازوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث بے قصور افراد کو اس کتاب کے ذریعے اپنی قانونی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ملے گا۔ اس کتاب میں پولیس اور میڈیا کے ذریعے دھماکوں کے واقعات کے بارے میں بلند بانگ دعوؤں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے، جو خود پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے تشدد اور ہتھکنڈوں کا شکار  رہ چکے ہیں، پولیس ، تفتیشی ایجنسیوں اور جیل سسٹم کے عہدےداروں کے ہاتھوں اپنے اور کچھ دوسرے بے گناہ قیدیوں  پر ہونے والے ظلم کےبراہ راست  تجربات بیان کیے ہیں۔
یہ کتاب صرف ایک ایسے شخص کی بے گناہی  کی گواہی نہیں ہے جو ’’دہشت گردی‘‘ کے ایک بدنام زمانہ مقدمے میں تمام الزامات سے بری ہوچکا ہے ، بلکہ اس کی اپنی اور دیگرمتاثرین کی آزادی کے لئے قانونی جنگ لڑنے کے غیر متزلزل عزم کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو اس شاطرانہ  جال میں پھنسنے سے بچایا جائے اور اگر کوئی گرفتار ہوہی جائے تو وردی میں رہنے والے سفاک افراد کے چنگل سے آزادی کیسے حاصل کی جائے۔
مصنف   عبدالواحد شیخ ممبئی کے ایک اسکول میں استاد ہیں۔ وہ 11؍  جولائی   2006   کےممبئی ٹرین بم دھماکے کے معاملے کے  13 ملزمان میں سے بری ہونے والے واحد شخص ہیں، کیونکہ  وہ آخر تک جھوٹے اقبالیہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار کر تے رہے، جبکہ ان کے دیگر ساتھی ملزم دباؤ کا شکار ہوگئے اور انھوں نے جھوٹے اقبالیہ بیان پر دستخط کردیئے جس کو عدالت میں ان کو سزائے موت اور عمر قید دینے کے لیے غلط استعمال کیا گیا۔
عبدالواحد شیخ نے جیل میں نو سال  گذارنے کے دوران پوسٹ گریجویشن مکمل کیا اور قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اپنے شریک ملزمین سے  کئے گئے اپنے وعدے کو نبھاتے ہوئے ، وہ ملک بھر کا دورہ کرتے ہیں اور ان حقائق سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں۔ ان کی زندگی پر مبنی ایک ہندی فیچر فلم جلد ریلیز ہوگی۔ ان کے بری ہونے کے کئی سال بعد بھی پولیس اہلکار انھیں  اب بھی ہراساں کرتے رہتے ہیں۔ 495 ؍روپے قیمت   کی یہ کتاب نیز اس کے اردو اور ہندی ورژن امیزون اور   books@pharosmedia.com  سے دستیاب ہیں۔