(امیر الہند حضرت مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ، معاون مہتمم دار العلوم، دیوبند)
خورشید عالم داؤد قاسمی
امیر الہند حضرت مولانا قاری سیّد محمد عثمان صاحب منصورپوریؒ کی پیدائش 12/اگست 1944ء کو آپ کے آبائی گاؤں منصور پور میں ہوئی۔ آپ کا تعلق منصور پور میں آباد سادات حسینیہ بارہہ کی ایک شاخ سے ہے۔ “منصور پور” اترپردیش کے ضلع: مظفرنگر کا ایک قصبہ ہے۔ آپ عوام وخواص میں “قاری صاحب” سے معروف تھے۔ آپ کے والد ماجد کا نام نواب محمد عیسیؒ تھا۔
قاری صاحب کے والد ماجدؒ:
قاری صاحبؒ کے والدؒ ایک نیک اور متقی آدمی تھے۔ وہ علما وصلحا سے بڑی محبت کرتے تھےاور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ (1879-1957) کے مرید تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے دینی تعلیم سے آراستہ ہوں۔ انھوں نے اپنے صاحبزادوں کے لیے حفظ قرآن کریم کی دعا کی۔ اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کے تینوں بیٹے (حافظ محمد موسی صاحبؒ، حافظ محمد داؤد صاحبؒ اور قاری سید محمد عثمان صاحبؒ) حفظ قرآن کریم کی نعمت سے مالا مال ہوے۔ انھوں نے اپنے بچوں کی دینی تعلیم کے لیے یہ قربانی دی کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر، دیوبند میں کرائے کے مکان میں رہنا پسند کیا۔ ان کی وفات دیوبند میں ہی 1963 ء میں ہوئی اور “مزار قاسمی” میں مدفون ہوئے۔
قاری صاحب ؒکا تعلیمی سفر:
حضرت قاری صاحب ؒ نے تعلیمی سفر کا آغاز اپنے وطن منصور پور سے کیا۔ مدرسہ حسینیہ، منصورپور میں آپ نے حفظ القرآن الکریم مکمل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ آپ نے از ابتداء تا فضیلت کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں مکمل کی۔ سن 1965ء (1385ھ) میں، آپ نے فراغت حاصل کی اور دورۂ حدیث شریف میں اعلی نمبرات سے کام یاب ہوے۔
تجوید و قرأت:
فراغت کے بعدقاری صاحبؒ سن 1966ء میں، دار العلوم میں ہی رہے۔ اس مدت میں آپ نے تجوید و قرأت میں سبعہ عشرہ کی تکمیل کی۔ حسن تلاوت کی وجہہ سے آپ کو پروگراموں میں مدعو کیا جاتا؛ تاکہ آپ کی تلاوت سے پروگرام کا افتتاح کیا جائے۔ پھر “قاری” آپ کے نام کا جزو لاینفک بن گیا۔ جہاں بھی رہے،آپ کو عام طور پر قاری صاحب سے جانا گیا۔
یہاں پر حضرت قاری صاحبؒ کی تلاوت کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ جب ہم لوگ دار العلوم میں پڑھتے تھے، اس وقت رمضان میں مصری قاریوں کا ایک وفد ہندوستان کے دورے پر تھا۔ وہ دار العلوم دیوبند کی زیارت کے لیے بھی تشریف لائے۔ ظہر کی نماز کے بعد، “مسجد قدیم” میں، ان کی تلاوت کا پروگرام رکھا گیا۔ قاری صاحبؒ بھی پروگرام میں موجود تھے۔ پروگرام شروع ہوا۔ ان قاریوں نے تلاوت ختم کی۔ پھر قاری صاحبؒ نے فرمایا کہ وہ بھی اس ادارہ میں تجوید کا طالب علم رہ چکے ہیں۔ پھر آپ نے تلاوت قرآن کریم شروع کی۔ آپ نے ان قاریوں کی طرح “ترتیل” میں تلاوت نہیں کی؛ بلکہ آپ نے قواعد ومخارج کی پوری رعایت کے ساتھ،بڑے عمدہ انداز میں “حدر” میں تلاوت کی۔ آپ کی تلاوت میں پائی جانے والی حسن اداکی وجہہ سے نہ صرف سامعین ؛ بلکہ ان مصری قراء نے بھی آپ کی تلاوت کو پسند فرمایا۔ اخیر میں ان میں سے ایک نے آپ کی تلاوت پر تحسینی کلمات بھی کہے۔ اگر مجھے درست یاد آرہا ہے؛ تو یہ سن 2002ء کے رمضان کا واقعہ ہے۔
کیا کیا حسین صبح، حسین شام آئے گی – لیکن ہماری یاد، بھلائی نہ جائے گی
بیعت و خلافت:
قاری صاحب ؒ نے اصلاح نفس اور تزئین اخلاق کے لیے شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ (1898-1982) کے دست مبارک پر بیعت کی۔ پھر ان ہی کے حکم سے آپ فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ (1928-2006) سے متعلق ہوگئے۔ آپ کو فدائے ملت سے خلافت حاصل تھی اور ان کے اجل خلفا میں شمار ہوتے تھے۔
تدریسی خدمات:
حضرت قاری صاحبؒ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز، سن 1967ء میں، جامعہ قاسمیہ، گیا، بہار سے کیا۔ شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ کے خلیفہ حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحبؒ نے یہ مدرسہ قائم کیا تھا۔ آپ تقریبا پانچ سال اس دارہ میں رہے۔ سن 1972ء میں آپ وہاں سے مستعفی ہوکر، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد، امروہہ میں تدریسی خدمت قبول کی۔ آپ یہاں سنن ابو داؤد، جلالین ،مختصر المعانی وغیرہ پڑھاتے تھے۔ آپ نے اس ادارہ میں، طلبہ کے لیے “النادی الادبی” قائم کی؛ تاکہ وہ عربی زبان میں تحریری وتقریری مشق کرسکیں۔ پھر سن 1982ء میں، جامعہ اسلامیہ سے مستعفی ہوکر، آپ دار العلوم، دیوبند سے منسلک ہوگئے۔
جب ہم لوگ دار العلوم، دیوبند میں تھے اس وقت قاری صاحبؒ ہدایہ، مشکاۃ المصابیح، مؤطا امام مالک وغیرہ پڑھاتے تھے۔ ہم نے آپ سے دورۂ حدیث شریف میں، “مؤطا امام مالک” پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ جمعہ کو صبح میں پڑھاتے تھے۔ آپ وقت پر دار الحدیث میں تشریف لاتے۔ جب آپ پڑھاتے تو بہت مختصر اور موضوع سے متعلق ہی کلام کرتے۔ آپ کے کلام میں صرف مغز ہی مغز ہوتا تھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر اس طرح بولتے تھے کہ آسانی سے طلبہ آپ کی تقریر قلمبند کرلیتے تھے۔ جب کوئی مشکل مقام آتا؛ تو آپ بہت سہل طریقے سے اس کی وضاحت فرماتے تھے۔ جب بھی آپ کچھ خاص بات بتاتے؛ تو اس کا حوالہ بھی ذکر کرتےتھے۔ آپ نے مؤطا حضرت مولانا بشیر احمد خانؒ سے پڑھی اور انھوں نے علامہ محمد انور شاہ کشمیری ؒ (1875-1933) سے پڑھی تھی۔ آج کل آپ مشکاۃ المصابیح، طحاوی وغیرہ پڑھاتے تھے۔
عربی زبان سے دلچسپی:
قاری صاحب ؒعربی زبان وادب کے مشہور معلم اور رجال سازحضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ (1930-1995) کے قریبی شاگرد تھے۔ آپ کو عربی زبان سے بڑی دل چسپی تھی۔ آپ پوری طرح سے عربی زبان میں تقریر و تکلم پر قادر تھے۔ آپ نے شعبہ تکمیل ادب عربی میں ایک مدت تک “أسالیب الانشاء” پڑھائی۔ پھر بعدمیں، شاید انتظامی ذمے داریوں کی وجہ سے ، آپ نے اس کتاب کی تدریس ترک کردی۔ آپ “النادی الادبی” کے نگراں اعلی تھے۔ عام طور پر النادی کا سالانہ پروگرام آپ کی صدارت میں ہوتا تھا۔
دار العلوم میں انتظامی ذمے داریاں:
قاری صاحبؒ ایک اصول پسند، نرم لہجہ، شیریں گفتار، کم سخن اور ٹھنڈے دل ودماغ کے مالک تھے۔ آپ اپنی ذمے داریوں کے تئیں بڑے ہی مخلص تھے۔ آپ کوئی فیصلہ عجلت میں نہیں لیتے تھے؛ بلکہ سوچ سمجھ کر، سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ لیتے تھے۔ آپ اصول وضابطے کی پوری رعایت کرتے اور منصفانہ طور پر کوئی فیصلے لیتے۔ شاید آپ کی انھیں خوبیوں کی وجہہ سے، دار العلوم میں، تدریسی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ، آپ کو مختلف انتظامی ذمے داریاں بھی سپرد کی گئیں۔ آپ سن 1986ء میں”کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوّت” کے ناظم منتخب کیے گئے۔ آپ سن 1415ھ سے 1418ھ تک دار الاقامہ کے ناظم اعلی رہے۔ آپ سن 1997ء سے 2008ء تک دار العلوم کے نائب مھتمم رہے۔ صفر 1442=اکتوبر 2020 میں، آپ کو دار العلوم کا معاون مہتمم منتخب کیا گیا۔ آپ کو جو بھی ذمے داری دی گئی، آپ نے جواب دہی کا پورا خیال کرتے ہوئے اسے انجام دیا۔
تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
مجلس تحفظ ختم نبوّت کی نظامت:
قادیانیت کے مضر اثرات کو محسوس کرتے ہوئے،دار العلوم دیوبند کی انتظامیہ نے “تحفّظ ختم نبوّت” کے حوالے سے ایک سہ روزہ عالمی کانفرنس 29-31 اکتوبر1986کو منعقد کیا۔ قاری صاحبؒ اس کانفرنس کے کنوینر تھے۔ ہندوستان کے علاوہ دوسرے عرب اور اسلامی ممالک مثلا: سعودی عرب، بنگلادیش، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے متعدد اسلامی اسکالرز کو موضوع سے متعلق مقالات لکھنے اور کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ہند وبیرون ہند سے بہت سے علما نے پروگرام میں شرکت کی۔ کانفرنس کا افتتاح عالم اسلام کی عبقری شخصیت مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ (1914-1999) کی افتتاحی تقریر سے ہوا۔ اختتامی تقریر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری، جناب ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف صاحب نے کی۔
اسی عالمی کانفرنس کے موقع سے “کل ہند مجلس تحفّظ ختم نبوّت” کا قیام عمل میں آیا۔ کانفرنس کے کنوینر قاری صاحبؒ اس کے ناظم منتخب کیے گئے۔ قادیانیوں کے عقائد باطلہ اور ختم نبوت پر ان کی نقب زنی کے خلاف مجلس کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ مجلس نے متعدد تربیتی کیمپ منعقد کیے؛ تاکہ ختم نبوت کے حوالے سے علما کو تربیت دی جائے کہ وہ قادیانیوں کے مکرو فریب کا مقابلہ کرسکیں۔ ملک کے متعدد مقامات پر پروگرام کیے گئے؛ تاکہ عوام کو قادیانیوں کے دھوکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ مجلس نے درجنوں ایسی کتابیں شائع کی جن میں قادیانیوں کی طرف سے اسلامی افکار کی غلط تشریحات وتوضیحات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ملک کے مختلف صوبوں میں مجلس کی شاخیں قائم کی گئیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہوکر، قاری صاحبؒ اس طرح کے پروگراموں میں بغیر کسی غذر کے خود شریک ہوتے اور اس طرح کے پروگراموں کی خود نگرانی فرماتے۔ آپ تا دم واپسیں، مجلس کی نظامت کرتے رہے۔
تقریباً تین دہائی قبل، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کی خدمات کو بیان کرتے ہوئے قاری صاحبؒ رقم طراز ہیں: “(1) رجال کار کی تیاری کے لیے دو تربیتی کیمپ سن 1409 و سن 1410 ھ میں دار العلوم میں لگائے جاچکے ہیں۔ (2) ان کے علاوہ گوہاٹی، مدراس، میل پالیم (تمل ناڈ)، الواک (کیرالا) اور بھاگلپور، بنگلور وغیرہ میں بڑے بڑے تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں۔ (3) خامنی (متھرا) اور روہتا (آگرہ) میں چیلنج کے باوجود قادیانی پنڈٹ اسلام کے مبلغین اور علماء کے سامنے آنے کی ہمت نہیں کرسکے؛ اس طرح میدان مناظرہ علمائے حق نے جیت لیا۔ (4) ہمارے مبلغین ورفقاء بہت سے ان مقامات پر پہنچ چکے ہیں، جہاں قادیانی گروہ خفیہ طور پر اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتا ہے اور بعض جگہ بالمشافہ قادیانی پنڈتوں سے گفتگو کی نوبت آچکی ہے، جس میں قادیانی پنڈتوں کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی ہے اور ان کے فریب سے مسلمان محفوظ ہوگئے۔ (5) دفتر کی طرف سے ردّ قادیانیت کے موضوع پر تقریبا پچاس کتب شائع ہوچکی ہیں۔ (6) ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر تقریبا پورے ملک میں پھیلایا جاچکا ہے۔” (محاضرۂ علمیہ بر موضوع ردّ قادیانیت 2/33-32)
جمعیت علما ہند کی صدارت:
قاری صاحبؒ بہت پہلے سے جمعیت کے رکن تھے۔ پھر آپ کو مجلس عاملہ کر رکن بنایا گیا۔ جمعیت کے سینئر رکن کی حیثیت سے سن 1979 میں، آپ نے “ملک وملت بچاؤ تحریک” کے ایک گروپ کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار ہوئے اورکئی دنوں تک دہلی کے تہاڑ جیل میں رہے۔ 15/اپریل 2008 کو آپ کو جمعیت کا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ کو “امارت شرعیہ ہند” کے تحت، سن 2010 میں، چوتھا “امیر الہند” منتخب کیا گیا۔ آپ تا دم واپسیں جمعیت کے صدر اور امیر الہند رہے۔ آپ کی مدت صدارت تیرہ سال سے کچھ زاید ہے۔ اس مدت میں، جمعیت کے پلیٹ فارم سے بہت سےقابل ذکر کام انجام پائے، مثلا: “جمعیت یوتھ کلب” ، “جمعیت اوپن اسکول” وغیرہ کا قیام۔
قاری صاحبؒ کے علمی محاضرات:
دار العلوم دیوبند کے وہ طلبہ جو دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعد، کسی دوسرے شعبے مثلا: شعبہ تخصص في الحدیث، شعبہ تکمیل ادب وغیرہ میں داخل ہوتے ہیں، ان کو مختلف موضوعات پر محاضرات علمیہ پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ محاضرات مختلف موضوعات پر ہیں۔ محاضرہ عموما جمعرات کو، ظہر بعد کے گھنٹے میں پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت قاری صاحبؒ کے محاضرہ کا عنوان: “محاضر علمیّہ بر موضوع ردّ قادیانیت” تھا۔ یہ محاضرہ پانچ اجزاء پر مشتمل ہیں، جو طبع شدہ ہیں۔ پہلے محاضرہ میں موضوع کا تعارف، مرزا غلام احمد قادیانی کا سوانحی خاکہ، انگریز سرکار کے ساتھ مرزا کے خاندان کی خیرخواہی، مرزا کا کیرکٹر، مرزاقادیانی اور دیگر قادیانی زعما کی تصانیف کا تعارف، مرزا قادیانی کی جماعت کے سربراہوں کا تعارف، مرزائی گروہ کی دو بڑی پارٹیوں اور دیگر فرقے کے تعارف پیش کیے گئے ہیں۔ دوسرے جز میں مرزا قادیانی کے عقائد باطلہ کی فہرست، قادیانیت کا سیاسی چہرہ، یہودی ریاست کے قیام میں قادیانیوں کی دلچسپیاں، قادیانی کے تعاقب کے سلسلے میں اکابر دار العلوم کے تاریخی کارنامے وغیرہ جیسے اہم مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ تیسرے جز میں نبوت ورسالت اور اس کی ضرورت، آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ سے ختم نبوت کا ثبوت، قادیانی گروہ کے خیال میں ختم نبوت کا مطلب، ختم نبوت سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں قادیانیوں کے ملحدانہ شبہات ومغالطے اور ان کے جوابات، آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں تحریفات مرزائی وغیرہ جیسے اہم موضوعات پیش کیے گئے ہیں۔ چوتھے جز میں حضرت عیسی –علیہ السلام– کے بارے یہود ونصاری کے عقائد باطلہ، اسلامی عقیدہ، قادیانی عقائد، رفع سماوی کے بعد عیسی علیہ السلام کا بقید حیات ہونا، قیامت سے پہلے اس کی ایک بڑی نشانی کے طور پر آپ علیہ السلام کا آسمان سے زمین پر اترنا وغیرہ کو پیش کیا گيا ہے۔ اس جز میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اور ان کے رفع ونزول کے عقیدہ کے حوالے سے تفصیلی کلام کیا گيا ہے۔ پانچوے جز میں مرزا کے دعاوی مثلا: ملہم ومحدث من اللہ ہونا، مسیح بن مریم اور مہدی ہونا، بالآخر صاحبِ شریعت مستقل نبی ورسول ہونا جیسے دعوے کا رد، اس کی غلط پیشنگوئیوں کی نشان دہی، ضروریات دین کی وضاحت، کفر کی اقسام اور قادیانیوں سے کسی قسم کا تعلق رکھنےکا حکم بتایا گیا ہے۔ یہ محاضرات مستند کتابوں کے حوالے سے تیار کیے گئے ہیں۔ مرزا قادیانی کی اسلام پر نقب زنی کو سمجھنے کے لیے یہ محاضرات بہت اہم ہیں۔
حضرت قاری صاحبؒ کی وفات اور پس ماندگان:
قاری صاحبؒ کی طبیعت وسط رمضان 1442ھ میں خراب ہوئی۔ پھر جانچ کے بعد، کووڈ-19 کی تشخیص ہوئی۔ بعد ازیں، آکسیجن کی کمی ہونے لگی۔ آکسیجن کا انتظام کیا گیا۔ ڈاکٹر کی نگرانی میں، گھر پر ہی علاج چلتا رہا۔ دوبارہ ٹیسٹ ہواتو کووڈ-19 کی نگیٹیو رپورٹ آئی۔ بہرحال، طبیعت بگڑتی گئی اور کمزوری دن بدن بڑھتی گئی۔ پھر آپ کو 18/مئی کو میدانتا اسپتال، گڑگاؤں، ہریانہ میں داخل کرایا گیا۔ علاج کے دوران بروز: جمعہ، 21/مئی 2021 = 8/شوال 1442ھ کو اسپتال میں ہی آپ نے داعی اجل کو لبّیک کہا۔ آپ کی نماز جنازہ اوّلا جمعیت کے مرکزی دفتر دہلی میں ادا کی گئی۔ پھر دوسری نماز جنازہ، دار العلوم، دیوبند کے احاطۂ مولسری میں، حضرت مولانا سید ارشد مدنی – دامت برکاتہم –، صدر المدرسین: دار العلوم نے پڑھائی۔ آپ کی تدفین “مزار قاسمی” میں ہوئی۔ اللہ پاک حضرت ؒ کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے! آمین!
قاری صاحبؒ کے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی اور دو قابل فخر بیٹے ہیں۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری – حفظہ اللہ – ہیں۔ وہ جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کے مفتی، محدث اور اس کے ماہ نامہ اردو ترجمان: “ندائے شاہی” کے مدیر ہیں۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ اندرون اور بیرون ممالک میں، وہ ایک اہل علم اسکالر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کے دوسرے صاحبزادے مفتی سید محمد عفان صاحب منصورپوری – حفظہ اللہ – ہیں۔ وہ جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں صدر المدرسین اور استاذ حدیث ہیں۔ وہ بھی ایک صالح عالم دین، مشہور خطیب اور پختہ اہل قلم ہیں۔ قاری صاحبؒ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت مشہور تھے۔ بڑوں کا کہنا ہےکہ آپ کی اولاد آپ کی تربیت کا ثمرہ ہیں۔ اللہ تعالی ان حضرات کو صحت وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے! آمین! ⦁⦁⦁⦁