فاسق و فاجر یزید اور خاک میں مکالمہ

انجینئر شاہ عظمت اللہ ابوسعید
یزید: میں بادشاہ ہوں، شام کا ملک میرا، ایران کا ملک میرا، اور حجاز کا ملک بھی میرا۔ میرا نام یزید ہے۔ میں معاویہ بن ابو سفیان کا بیٹا ہوں۔ دمشق میرا پایہ تخت ہے ،جو شام کا مشہور اور خوبصورت شہر ہے۔ بنی ہاشم میرے دشمن ہیں۔ بنی امیہ میں ہوں، اس لئے میں اور میرا خاندان بنی ہاشم کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ جب میں تخت پر بیٹھا تو مجھے سب سے زیادہ حسینؓ ابن علی ؓ ابن ابی طالب کا اندیشہ تھا کہ وہ میرے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا۔ کیونکہ حسین کے بڑے بھائی حسنؓ بن علی ؓ سے میرے باپ معاویہ نے سلطنت اس شرط پر حاصل کی تھی کہ معاویہ کے بعدمسلمان جسے چاہیں گے اپنا بادشاہ بنا لیں گے، معاویہ کو یہ حق نہ ہوگا کہ اپنی اولاد کو جانشین بنائے مگر میرے باپ معاویہ نے مجھ کو اپنا ولی عہد محض مسلمانوں کی بھلائی کے لئے مقرر کر دیا۔ مگر حسینؓ ابن علیؓ نے اس مصلحت کو نہ سمجھااور اس نے میرے خلاف بغاوت کی، اس لئے میں نے محض انتظام سلطنت کے لئے اس کو اور اس کی اولاد اور اس کے ساتھیوں کو تہہ تیغ کرڈالا۔
جس دن حسینؓ ابن علیؓ ان کی اولاد اور اس کے ساتھیوں کے کٹے ہوئے سر میرے سامنے لائے گئے اور جس دن حسینؓ ابن علی ؓ کے اہل بیت رسیوں سے بندھے ہوئے قیدیوں کی شکل میں میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے مصلحت وقت کے خیا ل سے یہ کہا کہ میں نے حسینؓ ابن علی ؓ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دی تھا۔ابن زیاد نے میری اجازت کے بغیر ناحق حسین ؓ کو مارڈالا مگر میرا دل مسرور تھا اور میں خوش ہو رہا تھا کہ میری سلطنت کا سب سے بڑا حریف مرگیا اور سب سے بڑا کانٹا نکل گیا۔ ہر سلطنت کے لئے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ میں انتظام مملکت کے لئے اس سے بڑھ کر سفّاکی کوجائز سمجھتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں نے ابن رسول اللہﷺ کو بے گناہ مار ڈالا۔ لیکن میں ان الزام لگانے والوں سے کہوں گا کہ تمہارے ابن رسول اللہﷺ نے بھی تو میرے خلاف خواہ مخواہ بغاوت کی تھی، حالانکہ نہ ان کے پاس فوج تھی، نہ ان کے پاس روپیہ تھا، بہ ان کے پاس ملک تھا۔ مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں شراب پیتا ہوں اور میں شریعت اسلام کے خلاف کام کرتا ہوںاور حسینؓ ابن علی ؓ نے میری بیعت اس واسطے قبول نہ کی کہ وہ مجھ کو فاسق و گنہگار سمجھتا تھا، لیکن میں فاسق نہیں ہوں نہ میں گنہگار ہوںبلکہ میں احکام اسلام میں کچھ تبدیلیاں کرتاہوں وہ میرا اجتہاد ہے اور چونکہ میں مسلمانوں کا خلیفہ ¿ اعظم ہوں اس لئے مجھے اس اجتہاد کو حق حاصل ہے۔ میں بادشاہ ہوں اور بادشاہوں کو دل و دماغ کی تفریح کے لئے کھانا پینا ضروری ہے۔ میں رات دن دل و دماغ سے کام لیتا ہوں اس واسطے مجھ کو خوبصورت عورتوں سے دل بہلانے اور تفریح کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ میں صحیح دماغ کے ساتھ انصاف کرسکوں۔
خاک : ٹھہر!ٹھہر، یزید! زیادہ نہ بول، زیادہ نہ بک، تو مرگیا ، تو قبر میں دب گیا، تیری قبر پر روزانہ پیشاب کیا جاتا ہے اور پتھر مارے جاتے ہیں تیری قبر دمشق میں آج تک ٹھکرائی جاتی ہے۔ اور صبح سے شام تک اتنے پتھر اس کو مارے جاتے ہیں کہ حکومت، شام کے وقت کئی مزدر لگاکر ان کو صاف کراتی ہے۔ تو نے حسینؓ ابن علیؓ کو بے گناہ مار ڈالا، تو قیامت تک لعین کہلائے گا۔ تجھ کو لوگ مردود کہہ کر پکاریں گے۔ انتظام سلطنت کو بدنام نہ کر، تونے مسلمانوں کے لئے حسین ؓ کو نہیں مارا بلکہ اپنے نفس کی خواہش کے لئے اس غریب کو نہایت بے دردی سے ذبح کر ڈالا، حسینؓ نے بغاوت نہیں کی، خلافت حسینؓ کا حق تھا اور ورثہ تھالیکن تونے اس ورثہ کو دبا لیا اور اس حق کو چھین لیا۔اور جو لوگ حق و صداقت کے حامی ہوتے ہیں وہ فوجوں کے بغیر اور روپئے کے بغیر اور ملکوں کے بغیر ہی لڑا کرتے ہیں۔ چنانچہ حسین ؓ نے بھی ایسا ہی کیااور بحالت بے سروسامانی تیری فوجوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور حق و صداقت کے لئے جان دے دی۔تو اپنی عیاشی کے لئے سند پیش کرتا ہے تو شراب خوری کی بھی دلیل لاتا ہے مگر تیری دونوں دلیلیں اور تیرے سب بیانات اسلامی تعلیم کے سراسر خلاف ہیں۔ جب میں ”خاک“ یہ خیال کرتی ہوں کہ مجھ سے ہی تجھ یزید کا پتلا تیار ہوا تو میں کانپ جاتی ہوں۔ لرز جاتی ہوں کہ تونے بڑی ہی سفّاکی رسول اللہ ﷺ کے خاندان کے ساتھ کی، اور تو قیامت تک کروڑوں آدمیوں کی لعن طعن سنتا رہے گامگر تو کہاں سنے گا، تو تو مرگیا اور مٹ گیا۔ اس کو تو میں سنوں گی کہ میں ہی تیر ے وجود کے اندر تھی۔ اور یہ شرم مجھ کو ہمیشہ تکلیف دیتی رہے گی۔ تیرے اشارے اور حکم کے سبب تیرے گورنر ابن زیاد اور تیرے کمانڈر عمرو ابن اسعد اور تیرے جرنل شمر اور خولی بن یزید نے ایسی ایسی سفّاکیاں کی اور ایسی ایسی بے رحمی اور بیدردی سے بنی فاطمہ ؓ کو بھوکا پیاسا رکھا اور ان کے گلے پر خنجر چلائے اور ان کے بدن تلواروں، تیروں اور برچھیوں سے چھلنی کئے کہ آج تک روئے زمین پر کسی نے ایسی بے رحمی اور بے دردی کا کام نہ کیا ہوگا۔ یزید! مجھے تیری کمانڈر عمرو بن سعد کے کام سے شرم آتی ہے۔یزید مجھے تیرے جرنلوں شمر ابن ذی الجوشن اور خولی بن یزید کے کاموں سے شرم آتی ہے، کاش تم سب لوگ آگ سے بنادئے جاتے اور تم سب شیطان مشہور ہوتے اور یا کاش تم سب یہ سفّاکی، یہ بے رحمی، یہ بیدردی نے کرتے جو تم نے کربلا کے میدان میں کی۔
آج میں ’خاک‘ اے یزید! جب تیرا قصہ بیان کرتی ہوں رنج و غم کے سبب شق ہوئی جاتی ہوں اور جو فلسفہ میرے پیش نظر ہے وہ سب ہجوم و الم کے سبب میرے ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے۔ یزید! تو مٹ گیا ابن زیاد تو فنا ہو گیا، عمروبن سعد تیرا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہا، شمر! تو بھی غارت ہوگیا، خولی! تو بھی فنا ہوگیا۔ مگر تم سب نے مجھ خاک کی عزت برباد کردی۔ تم سب مجھ خاک سے بنے تھے مگر تم نے حسینؓ کو شہید کرکے میری آبرو پر پانی پھیر دیا۔
قتل حسین ؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
٭٭٭
ڈائرکٹر: سیو انوارنمنٹ آف انڈیا
رابطہ نمبر: 07762976777

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں