ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ طالبان نے کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں مدد کی درخواست کی ہے اور ترک صدر کے بقول، وہ کہتے ہیں، سکیورٹی ہم یقینی بنائیں گے۔ آپ انتظام دیکھیں۔
لیکن بوسنیا ہرزے گووینا اور مانٹی نیگرو روانہ ہونے سے قبل استنبول میں ایک اخباری کانفرنس میں ترک صدر نے کہا کہ ابھی انہوں نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، کیونکہ وہاں ہر وقت موت کا خطرہ موجود ہے۔
مسٹر ایردوان نے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ افغانستان میں انتظامیہ واضح ہونے کے بعد کریں گے۔
طیب اردوان نے مزید کہا کہ صحت مند تعلقات کے قیام اور باہمی توقعات کے تبادلے کے لئے کابل میں ترک سفارت خانے کے سینئر نمائندوں اور طالبان کی طویل میٹنگز ہوئی ہیں۔
ترک عہدیداروں کے مطابق، ترک فورسز کی عدم موجودگی میں ترکی، کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں مدد کی حامی نہیں بھرے گا۔
دو ترک عہدیداروں نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے باہر دھماکوں کے بعد پیدا ہونے والی سکیورٹی کی صورتِ حال نے غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد کابل ایئرپورٹ کے انتطام کی اہمیت اور اس میں درپیش خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔
طالبان نے ترکی سے کہا تھا کہ آئندہ منگل کو غیر ملکی فورسز کے انخلاء کی ڈیڈ لائن کے بعد ترکی کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں تکنیکی مدد فراہم کرے جب کہ انخلاء کے الٹی میٹم کا اطلاق ترکی پر بھی یکساں طور پر ہوگا۔
نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے ترکی گزشتہ چھ برس سے کابل ائیرپورٹ کا انتظام سنبھال رہا تھا۔
غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد ایئر پورٹ کا کھلا رہنا نہ صرف افغانستان کے دنیا سے رابطے کے لئے اہم ہے بلکہ امدادی سامان کی فراہمی اور امدادی کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔
جمعرات کے دہشت گرد حملوں کے بعد جن میں سو سے زیادہ افغان شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے اور امریکی فورسز کے 13 اہلکار ہلاک اور 18 زخمی ہوئے، ایک سینئر ترک عہدیدار نے کہا ہے کہ اب ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ آیا طالبان یہ اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ ایئرپورٹ یا ترک عملے کو محفوظ رکھ سکیں۔
سینئر ترک عہدیدار نے جس نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز سے بات کی، مزید کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت پر، ایئر پورٹ پر اس دہشت گرد حملے سے بہت منفی اثر پڑا ہے۔ اور خطرہ ہے کہ مستقبل میں کابل کے لئے بین الاقوامی پروازیں روک دی جائیں۔
اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ترکی کے 350 فوجی اور 1400 دیگر افراد کو افغانستان سے نکالا گیا ہے۔
ترکی انہیں اعتدال پسند کہتے ہوئے طالبان کے بیانات کی تعریف کر چکا ہے۔ تاہم، اس کا کہنا ہے کہ طالبان کے عملی اقدامات دیکھنے کے بعد انقرہ اپنا مؤقف قائم کرے گا۔