امریکا کا داعش کے خلاف طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک مِلی نے کہا کہ افغانستان میں داعش اور دیگر جنگجوؤں کے خلاف دہشت گردی مخالف کاررائیوں میں امریکا طالبان کے ساتھ مل کر کام کر سکتا ہے۔

افغانستان میں دو عشروں تک طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مصروف امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد بدھ کے روز امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک مِلی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر امریکی وزیر دفاع جنرل لائیڈ آسٹن بھی موجود تھے۔
جنرل مارک ملِی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مستقبل میں اس بات کا امکان ہے کہ امریکا اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ داعش (خراسان) کے خلاف کارروائیوں میں طالبان کی مدد لے گا۔ حالانکہ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صورت اور نوعیت کیا ہوگی۔ ان کے بیان سے یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان کے ساتھ کام کرنے کا کوئی منصوبہ فوری طورپر زیر غور ہے۔
داعش (خراسان) نے ہی گزشتہ ہفتے کابل ہوائی اڈے کے باہر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت کم ازکم 170افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ داعش (خراسان) افغانستان میں سرگرم سب سے زیادہ انتہاپسند اور پرتشدد جنگجو گروپ ہے۔ وہ طالبان پر جہاد کو ترک کر دینے کا الزام لگاتا رہا ہے اور دونوں میں اختلاف کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔
امریکی وزیر دفاع جنرل لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ طالبان سے مستقبل میں تعاون لینے کے حوالے سے ”فی الحال وہ کوئی پیشن گوئی نہیں کر سکتے۔” انہوں نے تاہم کہا کہ امریکی عہدیدار”ہر وہ کام کریں گے جس سے ہمیں داعش(خراسان) پر نگاہ رکھنے اور ان کے نیٹ ورک کو سمجھنے میں مدد مل سکے اور انہوں نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے قصوروارٹھہرانے کے حوالے سے مستقبل میں ہم اپنے حساب سے وقت کا انتخاب کرسکیں۔“

امریکی اور طالبان کمانڈروں میں رابطے

سقوط کابل کے بعد سے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران امریکی فوجی کمانڈروں اور طالبان کمانڈروں کے درمیان مسلسل رابطہ رہا ہے جس سے ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد افراد کا افغانستان سے انخلاء ممکن ہوسکا۔ تاہم یہ رابطہ فریقین کے درمیان باہمی سہولت کے لیے تھا اور ضروری نہیں کہ مستقبل میں بھی اسی طرح کے تعلقات برقرار رہ سکیں۔
وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ محدود سطح پر رابطہ ہے اور مستقبل کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کا لائحہ عمل آنے والے دنوں میں تیار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فوجی آپریشن میں بہتری کی گنجائش بہر حال رہتی ہے اور امریکی فوج نے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا مشن پورا کیا۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان کی جنگ ختم ہوگئی ہے اور اب سفارتی مشن پر کام ہو رہا ہے۔ امریکی سفارتی مشن کو دوحہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا نے سن 2001 میں فوجی حملہ کرکے طالبان کو افغانستان میں اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔ جس کے بعد سے دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ حالانکہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان سے کہ طالبان افغانستان میں داعش کی کٹر دشمن ہے، اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ امریکا طالبان سے روابط استوار کرنا چاہتا ہے۔
اسی حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جنرل مارک مِلی نے کہا،”ہم طالبان کے ساتھ بہت محدود امور پر کام کررہے ہیں اور اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو افغانستان سے نکالا جا سکے۔”  جنرل مِلی نے مزید کہا،”جنگ میں ضروری نہیں وہی ہو جو آپ چاہتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ مشن اور فورس کولاحق خطرات کو کم سے کم کیا جائے۔“

’پتہ نہیں، بے رحم طالبان میں تبدیلی آئے گی یا نہیں‘

جب امریکی فوج کے سربراہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں طالبان کے رویے میں کسی تبدیلی کی امید ہے تو ان کا کہنا تھا،”یہ ماضی میں ایک بے رحم گروہ تھا اور آیا اب اس میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔”
جنرل مِلی نے بتایا کہ وہ کابل ہوائی اڈے کے باہر دھماکے میں ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجیوں کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 20 سالہ جنگ کے بارے میں وہ غصہ اور درد محسوس کرتے ہیں اور یہ احساسات ان خاندانوں کی طرح ہیں جو سوگ میں ہیں۔
جنرل مِلی نے کہا”یہ انتہائی مشکل کام ہے، جنگ مشکل ہوتی ہے۔ یہ انتہائی وحشت ناک، ظالمانہ اور بے رحم ہوتی ہے۔ اور ہاں ہم سب میں غصہ اور درد موجود ہے۔”
(ڈی ڈبلیو)