میمورنڈم کے مذمتی لیٹروں سے باہر نکل آئیے اور ’’کلیم باغ‘‘ تیار کیجئے! جلد ہی متحد ہوجائیے ورنہ اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے

سید فاروق احمد سید علی

اورنگ آباد (دکن)) 

عمر گوتم، مفتی جہانگیر قاسمی کے بعد اب داعیٔ اسلام حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب وہ نویں شخص ہیں جنھیں یوپی پولس نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت میرٹھ میں ایک پروگرام سے اپنے وطن پھلت جاتےہوئے چار دیگر علمائے کرام کے ساتھ گرفتار کیاگیاہےبعد میں یوگی کی پولس نے بے بنیاد الزام لگاکر پوچھ گچھ کے لئے نہایت ہی بزدلانہ طریقے سے انہیں نامعلوم مقام پر لے گئے اور پھر عدالت نے انہیں ۱۴ دنوں کے لئے پولس تحویل میں دے دیا ہے۔جس کے بعد یہ خبر آئی کہ وہ ۱۰ دن کی پولس کسٹڈی میں بھی رہیں گے۔ مگر نہ جانے کتنے ہی، بلکہ ان گنت مذہبی اور ملی قائدین اس وقت مرکز میں برسر اقتدار نریندر مودی کے ماتحت کام کرنے والے تفتیشی اداروں اور مسلمانوں کے خون پر سیاست کی فصل اگانے والے وزیر اعلیٰ اتر پردیش کے نشانے پر ہیں ، جس کی فہرست مرتب کی جاچکی ہے اور ناپاک منصوبہ بندی کو عملی شکل دینے کی جانب قدم بھی بڑھایا جاچکا ہے۔
دوستو میں آپ کو بتادوں کہ مولانا کلیم صدیقی عالمی شہرت یافتہ بھارتی مبلغ ہیں۔ 68 سالہ کلیم صدیقی گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ امام ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر بھی ہیں۔ وہ بنیادی طورپر سائنس کے طالب علم رہے ہیں۔ انہوں نے بھارت میں میڈیکل کالجوں کے لیے داخلہ جاتی امتحان میں 75واں رینک حاصل کیا تھا لیکن طب میں اپنا کیریئر بنانے کے بجائے دعوت و تبلیغ کو اپنا میدان کار بنایا۔ بھارت اور بیرون ملک میں ان کے لاکھوں عقیدت مند ہیں۔
قارئین مولاناکلیم صدیقی پر الزام عائد کرتے ہوئے اترپردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس (امن و قانون) پرشانت کمار نے دعویٰ کیا کہ مولانا کلیم صدیقی کا بھارت کے سب سے بڑے ”غیر قانونی” تبدیلی مذہب کے ریکٹ سے براہ راست تعلق ہے۔ مولانا کلیم صدیقی تعلیمی اور سماجی تنظیموں کی آڑ میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کی سرگرمیو ں میں ملوث تھے اور انہیں بیرونی ملکوں سے مالی امدادبھی مل رہی تھی۔اور مزید یہ کہا کہ مولانا صدیقی اتحاد انسانیت کا پیغام دینے کی آڑ میں جنت اور جہنم کا ذکر کر کے لوگو ں کے ذہنوں میں خوف اور لالچ پیدا کرتے تھے اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کرتے تھے اور جو لوگ مسلمان ہوجاتے تھے انہیں دیگر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے پر زوربھی دیتے تھے۔ “اے ٹی ایس نے مزید کہا کہ مولانا کلیم صدیقی اپنی کتابوں کے ذریعہ، جو آن لائن اور آف لائن دستیاب ہیں، لوگوں کو مذہب اسلام کی طرف مائل کرتے تھے اور لوگوں کوبتاتے تھے کہ، ”اگر دنیا میں شریعت کے مطابق نظام قائم ہوجائے تو ہر ایک کو انصاف مل جائے گا۔ان پر سنگین الزام یہ بھی لگا ہے کہ وہ ہندوؤں کو ڈرا دھمکاکر تبدیلی مذہب کرواکر پھر ان سے دعوتی کام کراتے تھے۔ بہر کیف پولس اگر کسی کو پھنسانے پر آتی ہے تو بے بنیاد الزامات کی جھڑی لگادیتی ہے ۔
خیر مولانا کو گرفتار کرلیا گیا ہے پولس ریمانڈ میں بھی بھیج دیاگیا ہے جس سے مسلمانوں میں بے چینی کا ماحول پایا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اور ملک کے مختلف جگہوں پر لوگوں نے میمورنڈم کے ذریعے مذمتی لیٹر دے کر اپنا پلہ  توجھاڑ لیا ہے۔ اور مولانا کو رہا کرانے کے لئے اپنی اپنی جانب سے لیٹر بازی کرکے اخبارات کی زینت بنے ہیں جس سے ہمیں کوئی بیر نہیں ہے۔
میرے عزیزو یہ بات آپ کو اچھی طریقے سے معلوم ہے کہ بی جے پی بغیر ہندو مسلم کارڈ کھیلےکوئی الیکشن جیت نہیں سکتی ہے اور ایسے میں اب جبکہ الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں اور مغربی اترپردیش میں جہاں کسان تحریک کی بدولت بی جے پی کا کمل انتہائی لاغر ہو کر مرجھا گیاہے اب اسے سہارا دینے کے لئے مولانا کو گرفتار کرنا یہ گرتی ہوئی بی جے پی کی سیاسی ساکھ کو سنبھالنے کی ایک مذموم ‘گھٹیا اور ناکام کوشش ہے اور اس کے علاوہ ان کا مقصدآر ایس ایس کے اکھاڑا پریشد کے سربراہ مہنت نریندرگری کی خود کشی یا مرڈر اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بدنامی کی جانب سے لوگوں کی توجہ ہٹانا بھی ہوسکتا ہے۔ اپنے وعدوں میں ناکام اور کسانوں ،مزدوروں ، دیہی باشندوں ، روز کمانے اور روز کھانے والے  مزدوروں اور لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرکے انہیں پکوڑے تلنے کا مشورہ دینے والی بی جے حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مذہبی پولرائزیشن کررہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یوپی جو کہ غنڈہ راج کا گڑھ اور شرپسندوں کی لیباریٹری بن چکا ہے وہاں پراس طرح کے ہندوراشٹر کے مختلف کارڈ کھیل کر ہندو ووٹروں کو رجھانے کا کام کیا جارہا ہے۔
عزیزو یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ عمر گوتم، مفتی جہانگیر قاسمی ، مولانا کلیم صدیقی صاحب سمیت جتنے بھی مبلغین کو اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف کسی بھی شخص نے جبراً تبدیلی مذہب کا الزام نہیں لگایا ہے۔ حالانکہ بعض معاملات میں مذہب تبدیل کرنے والے شخص کے رشتہ داروں نے شکایت ضرور کی ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق ان کی شکایتیں عدالتوں میں قابل قبول نہیں مانی گئی ہیں۔ کیونکہ عدالت تبدیل مذہب کرنے والے شخص کے بیان کو ہی اہمیت دیتی ہے نہ کہ رشتہ داروں کے اور پھر اس کے علاوہ  ہندوراشٹروالے آر ایس ایس کے غنڈدوں کے حساب سے دیکھا جائے تو بھارتی وزارت داخلہ نے آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہندوازم کو کسی طرح کابھی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ مونیش جبل پوری نامی شخص نے وزارت داخلہ سے ثبوتوں کے ساتھ یہ جاننا چاہا تھا کہ آیا ”ملک میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے “۔ وزارت داخلہ نے اس کے جواب میں بتایا کہ اس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ بھارت میں ہندو دھرم کو کوئی خطرہ لاحق ہے ۔۔۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوگی کے راج میں یوپی میں ہورہی سرکاری دہشت گردی کے تحت مبلغین کو گرفتار کیا جانا کون سی عقلمندی ہے او رکہاں کا قانون ہے۔
عزیزوجہاں تک مولانا کلیم صدیقی صاحب پر بیرونی ممالک سے فنڈ کا معاملہ ہے تو بہت سے غیر مسلم ادارے اور ہندو تنظیمیں بھی کثیر بیرونی فنڈ وصول کرتی ہیںان کے بارے میں کبھی کوئی سرخی اخباروں کی زینت نہیں بنتی ہے لیکن صرف مسلم اداروں کے خلاف کاروائی کرکے انہیں میڈیا میں بدنام کیا جاتا ہے۔ بہت سارے معاملات میں اے ٹی ایس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے اور عدالتیں انہیں بری کردیتی ہیں لیکن گرفتار شدگان کا قیمتی وقت سلاخوں کے پیچھے گزر جاتا ہے اور زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ دہلی پولیس جو مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرتی ہے، ابھی تک تبلیغی مرکز کے خلاف کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے۔اس کے بعد نو مسلم عالم دین محمد عمر گوتم اور ان کے ساتھیوں کو تبدیلیٔ مذہب کے نام پر گرفتار کیا گیالیکن اب تک کوئی بھی ثبوت پیش کیا نہیں جاسکا ہے اور اب مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔جن کے خلاف بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کئے  جاسکیں گے انشاء اللہ ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب اسی منصوبہ بندی کاایک خطرناک حصہ ہے جس کے نویں شکار مولانا کلیم صدیقی بنے ہیں اوراگر ہم اب بھی نہ جاگے تو انتظار کیجئے دسواں، گیارہواں، بارہواں اور اسی طرح کتنی مذہبی و ملی شخصیات فاشسٹ ایجنسیوں کی زد پر آنے والی ہیں۔
سنگھ کے اشارے پر چل رہی حکومت کی یکے بعد دیگرے مسلم رہنماؤں کے خلاف کارروائی ہوتی جارہی ہے جوکہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ اور اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم بھارتی مسلمان بے حس ہوچکے ہیں ۔ ہماری روحیں کاہل ، جاہل اور سست ہونے کے ساتھ ساتھ بے غیرت بھی ہوچکی ہیں ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ نہ جانے کونسی دنیا میں ہم مگن ہے کہ ہمیں کسی کی بھی خبر نہیں۔ ایک کے بعد ایک ہماری آزادی پر قدغن لگائے جارہے ہیں۔ مگر ہم پھر بھی ہوش کے ناخن لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مولانا کلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سارے کے سارے علمائے کرام بلا لحاظ مذہب وملت سڑکوں پر اتر جاتے اور ایک زوردار احتجاج کرتے مگر بھار ت کے کچھ علاقوں میں چیدہ چیدہ علمائے کرام کے ساتھ زیادہ تر سیاسی افراد شامل تھے جنھوں نے احتجاج کیا میمورنڈم پیش کیا او رگھروں کو چلتے بنے۔
اور ایک بات یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس مسئلہ پر سیکولر جماعتیں کیوں خاموش ہیں کیا وہ خاموش رہ کر بی جے پی کو مضبوط کررہی ہے کیا وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو یوپی میں جتانے کے لئے اس طرح سے مدد کررہی ہے۔ اگر یہ بات ہے کہ میری علمائے کرام سے ادباً گذارش ہے کہ وہ میدان میں آجائیں کیونکہ اب بہت ہوچکا۔آپ کو  لگتا ہے کہ کوئی بھی قائد آج کے وقت میں قابل اعتبار نہیں رہا جس کی ماتحتی میں دھرنے اور احتجاج کئے جائیں تو میری ان سے گذارش ہے کہ چھوڑئیے ان سب پارٹی اور قائدین کو اور نکل آئیے بلا لحاظ مذہب ومسلک میدانوں میں اور لگائیے ایک زور دارآواز اور پھر دیکھئے کون آپ کی آواز پر لبیک نہیں کہتا ہے۔ آپ علمائے کرام امت کے امام ہیں رہبر ہیں آپ ہی کے بتائے ہوئے راستوں پر امت چلے گی اور لبیک کہے گی۔
مولانا کلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ مجلس کے قومی صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کے دہلی والے گھر پر توڑپھوڑ کا پیش آیا۔لیکن سوائے مجلسی اراکین کے کسی نے بھی اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔ کہاں ہیں وہ مسلم سیکولر لیڈران جو دن رات اپنے آقاؤں کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں ۔شاید وہ اسی وقت جاگیں گے جب ان کے گھروں پر سنگھی حملے کریں گے اور ادھم مچائیں گے۔ بے حس حکومت اور انتظامیہ کو مذمتی لیٹر اور میمورنڈم دینا بند کیجئے ، جنہیں دینا ہے انہیں دینے دیجئے آپ بس متحد ہوجائیے اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے احتجاج بلند کیجئے اور مولانا کلیم صاحب سمیت تمام مبلغین کو آزاد کرانے کے لئے ’’ کلیم باغ ‘‘ قائم کیجئے۔
عزیزو! وقت اور حالات کا تقاضہ ہے اور اب بھی وقت ہے کہ امت متحد ہوکر ایک پرچم تلے آجائیں کم از کم ہم پر ہورہے حملوں کے دفاع میں تو ایک ہوجائیں ورنہ اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔
رابطہ: 9823913213
sfahmed.syed@gmail.com