محترم والدین سے ایک دردمندانہ اپیل

کیپٹن محمد تقی سیڑم

(سماجی کارکن، آسٹریلیا (پرتھ)

اردو کئی صدیوں سے ہماری مذھبی، تہذیبی اور تاریخی زبان رہی ہے. ہمارے مذھبی اور علمی سرمایے کا بڑا حصہ اسی زبان میں تحریر کیا گیا ہے، افسوس کہ بات ہے کہ ہماری نئی نسل اردو سے ناواقف ہوتی جارہی ہے، اردو نہ جاننے کی وجہ سے یہ نسل اپنے مذھبی اور تاریخی سرمایے سے بھی محروم ہے. اگر کوئی قوم اپنی مذھب، اقدار، تہذیب اور زبان سے ناواقف ہوجائے تو اسے جلد یا بدیر مٹنے یا دوسری تہذیبوں میں ضم ہونے میں دیر نہیں لگتی.
اردو کے تعلق سے ہماری سرد مہری اور بے توجہی افسوس ناک ہے جس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا. اس لیے میں تمام والدین سے درخواست کروں گا کہ اپنے بچوں کو اردو زبان ضرور پڑھائیں، اسکولوں میں اردو مضامین داخل کروانے کی کوشش کریں، ان اسکولوں کو ترجیح دیں جہاں اردو کی بھی تعلیم کا نظم ہو، گھروں پر ہم جس طرح قرآن مجید اور دینیات کے ٹیوشن کا نظم کرتے ہیں اسی طرح اردو بھی پڑھائیں، اردو کتابیں اخبارات وسائل کے خریدار بنیں، ان کی سرپرستی کریں، اپنے گھروں میں اردو بول چال کو رواج دیں۔
اردو زبان کے تعلق سے ہماری تھوڑی سی فکر مندی ان شاء اللہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہوگی اور اس کے ذریعہ ہم اپنی اقدار، روایات، تہذیب اور مذہب کا بڑی حد تک تحفظ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
اللہ ہمیں اس اہم مسئلے کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق دے. آمین

محترم والدین آپ کے بچوں کے ٹیچر استاد آپ خود ہیں
اپنے بچوں کو آنے والے دور کے لیے تیار کریں …

جسمانی طور پر بھی ذہنی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی …

ان کو اردو انگریزی اور عربی لازمی طور پر سکھائیں، اسلامی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں مکمل آگاہ کریں …

اپنے بچوں کو لازماً ہنر سکھائیں، کوئی نہ کوئی ہاتھ کا کام جو ان کو مصروف بھی رکھے اور جس سے آنے والے وقت میں یہ کارامد ہو سکیں۔
سلطان عبدالحمید کارپینٹر تھے، لکڑی سے بنایا ہوا ان کا فرنیچر آج بھی محفوظ ہے۔
سلطان سلیمان زیورات بناتے تھے …
اورنگزیب بادشاہ قرآن کریم لکھتے تھے …

اپنے بچوں کی جسمانی اور ذہنی طور پر لازماً ایسی تربیت کریں کہ مشکل اور نامساعد حالات میں وہ برداشت کرنے کے قابل ہوں، جس طرح بواۓ سکاوٹ یا کیڈٹ کی تربیت ہوتی ہے، جنگل میں خیمہ لگانا، آگ جلانا، کھانے پکانا، شکار کرنا اور ہتھیار چلانا۔
آج کل ہمارے بچے بہت آرام طلب اور نازک ہو چکے ہیں، ماضی میں ہمارا تمام تر تعلیمی نظام بچوں کو دین اور ادب کے ساتھ ہنر بھی سکھاتا تھا، تمام مسلمان اپنے ہاتھوں میں مخصوص ہنر رکھتے تھے اور ہاتھ سے کام کرتے تھے…
کوئی لوہے کا کام جانتا تو کوئی لکڑی کا، کوئی کپڑا بناتا تو کوئی چمڑے کا، کوئی مرغبانی کرتا تو کوئی گلہ بانی یا کاشتکاری…

آگے آنے والا دور مشکلات اور جنگوں کا دور ہے، اپنے بچوں کو اس کے لئے تیار کریں۔

اب ڈگریاں ہاتھ میں لے کر کالج سے نکل کر نوکریاں تلاش کرنے کا دور ختم ہوگیا …

بہت سے لوگ ابھی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا دوبارہ پرانی ڈگر پر واپس چلی جائے گی، آپ ہوش میں آ جائیں دنیا بدل گئی ہے، اب دنیا دوبارہ اس ڈگر پہ کبھی نہیں لوٹے گی …

اب ہم دجالی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں، ایک کرونا نے ہی کیسا گھما دیا ہے۔

آگے کے فتنے اس سے بھی مزید سخت ہونگے، اور یہ کوئی فرضی بات نہیں، ایک تو سب حالات آنکھوں کے سامنے ہیں، اور مزید ان سب حالات کی خبر افضل الرسل سرکار دو عالم نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی ہوئی ہے کہ یہ سب ہو کر رہے گا، اب بچے گا وہی جو چوکنا ہو گا، دانشمندی اور ایمان و عمل کو اختیار کرے گا.

اس لیے ایمانی، جسمانی، روحانی، اعصابی مضبوطی بہت ضروری ہے، اگر زندہ رہنا ہے اور ان تمام فتنوں سے بچنا ہے تو اب ذرا جاگ جائیں..!!!

لڑکا پڑھاؤ لڑکی بچاؤ
کبھی اپنے نوجوانوں کی حالت پر غور کریں، رات رات بھر الّووں کی طرح جاگ کر ان کی آنکھیں چہرے کے سیاہ حلقوں میں دھنس گئی ہوتی ہیں، پان تمباکو اور گٹکھوں کی عادت نے ان کے دانت سڑا دیے ہوتے ہیں اور گال اس حد تک پچکا دیے ہوتے ہیں کہ جبڑے چہرے کے اوپر سے دکھائی دیتے ہیں، تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ دسویں تک پہنچتے پہنچتے چوں بول جاتے ہیں، نہ ان کو بات کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے نا اٹھنے بیٹھے کی تمییز، نہ ان کے پاس گت کی جاب ہوتی ہے نہ کاروباری ذہن. نہ تعلیم، نہ صحت، نہ علم، نہ اخلاق، نہ شعور نہ تمییز
آپ بتائیے ایک پڑھی لکھی، ڈیسنٹ لڑکی جس نے بچپن سے ہی ٹی وی اور فلموں سے سیکولرازم کا درس لیا ہو کیا محض اس وجہ سے ان لڑکوں سے شادی کرلے گی کہ یہ مسلمان ہیں؟
نہیں، وہ زمانہ لد گیا جب اچھی خاصی سرکاری اسکول کی ٹیچر رکشا ڈرائیور سے بھی چپ چاپ شادی کرلیا کرتی تھی.
اب نیا دور ہے، آپ لڑکوں کو نہیں پڑھائیں تو یہ لڑکیاں دین سے ناطہ توڑ کر کافروں سے پلّو باندھ لیں گی۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻟﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﮨﻮ۔۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻠﮏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ۔
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ۔
ﮐﻢ ﻣﺪﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﻠﮏ ﺟﺮﻣﻨﯽ ۔
ﺟﺮﻣﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﻠﮏ ﺗﺮﮐﯽ۔
ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺭﻣﯽ ﭼﯿﻒ۔ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮯ ﮐﺮ ﭼﯿﻒ ﺟﺴﭩﺲ ﺗﮏ ﺳﺎﺭﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﺗﺮﮎ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ہے۔
ﭼﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﯾﺎ ﻧﺠﯽ ﻋﮩﺪﮦ ﺩﺍﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺍﻧﮉﯾﺎ ﺟﯿﺴﺎ ﻗﺪﺍﻣﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﻣﻠﮏ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻨﺪﯼ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﮨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺩﯾﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﻧﻮﺑﻞ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﻣﺰﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﺎﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ؟؟
ﻋﺠﯿﺐ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻟﮧ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮬﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺍﺩﺏ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔
ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ۔

ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺮﮔﺌﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﻋﻤﺮ ﮔﻨﻮﺍﺩﯼ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ
ﺯﺑﺎﻥ ﺳﯿﮑﮭﺘﮯ ﺳﯿﮑﮭﺘﮯ اب نہ ہمیں صحیح اردو آتی ہے نہ انگریزی ۔

ہندوستانی مسلمان کیا کر رہا ہے۔ ذرا غور کریں آر ایس ایس، بی جے پی کو کوسنے سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو مولانا کو کوسنے سے کچھ فائدہ نہیں ہے .
اب وقت آ گیا ہے تمام مسلمان کو سوچنا چاہیے ۔
یہی کہہ کر خاموش بہنا نہیں ہے یہ ہر مسلمان کا ہر گھر کا فرض بنتا ہے ۔
یہی کہہ کر خاموش پٹنہ ہر اس کا مسئلہ نہیں ہے ۔
ہم سیاسی جماعتوں کو تنقید کرنے کے بجائے ہم اپنا ایک پلیٹ فارم بنائیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں بہت اچھا رہے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی اپنا احتساب کریں۔ یہ صرف سعودی عرب کا کوئی ایک قصہ نہیں ہے، پورے مشرق وسطیٰ میں روزگار کے نئے چیالنجس سے نمٹنے کی پالیسیاں اور پروگرام بنائے جارہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے نکلنے والے انگریزی اخبار خلیج ٹائمز نے 5؍ ستمبر 2021ء کو دوبئی سے خبر دی ہے کہ ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی امارات کے وزیر برائے غیر ملکی تجارت ہیں۔ انہوں نے اطلاع دی کہ ملک میں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے اب 15 برس کے بچوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
یہ اجازت ان بچوں کو ہوگی جو ابھی طالب علم ہیں۔ یہ بچے اس اجازت سے نہ صرف کام کرنا سیکھ جائیں گے بلکہ امارات کی معیشت کے لیے بھی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اماراتی وزیر کے مطابق وہاں پر ابھی تک 18 سال سے کم عمر بچوں کو ہی والدین اسپانسر کرسکتے تھے لیکن اب گرین ویزہ رکھنے والے لوگ اپنے بچوں کو 25 برس کی عمر تک اسپانسر کرسکیں گے۔
ہندوستانی مسلمان کیا کر رہا ہے۔ ذرا غور کریں آر ایس ایس، بی جے پی کو کوسنے سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ مسلمانوں کو آج سب سے بڑی شکایت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور انصاف کے لیے قائم ادارں سے ہے۔ کتنے ادارے ہیں جو مسلمانوں کی پولیس اور نیم فوجی دستوں میں شمولیت کے لیے تربیت دے کر ٹھوس کام کر رہے ہیں۔
کتنے مسلم اقلیتی ادارے ہیں جہاں پر مسلمانوں کو وکیل بننے اور وکالت کی تعلیم کے لیے ترغیب اور اسکالر شپس دی جارہی ہیں۔ضرورت آج اس بات کی ہے مسلمان خود دین اسلام کی صحیح تعلیمات سے آراستہ ہوں اور وقت کی نزاکت کو اور امت مسلمہ کو درپیش چیالنجس کو مد نظر رکھتے ہوئے خدمت خلق کے راستے کو اختیار کریں تاکہ برادران وطن کی غلط فہمیاں دور ہوں۔
ورنہ میڈیا تو دیگر برادران وطن کے ذہنوں میں ہر صبح و شام فرقہ واریت، تعصب اور نفرت کا زہر پھیلاتا جارہا ہے۔ دینی جماعتیں تو اپنا کام کر رہی ہیں۔ اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے کہ وہ بڑے ڈپلومیٹک انداز میں خدمت خلق کے سہارے برادرانِ وطن کے دلوں کو موم کریں۔
اسلام کی سچی تصویر اور نبی کریم ﷺ کا پیغامِ محبت عام کریں۔ ساتھ ہی محنت کے راستے کامیابی کی منزلیں طئے کرنے والوں کی ہمت افزائی ہو۔ تاکہ معاشی مشکلات سے باہر نکلنے کے لیے مسلم نوجوان محنت سے جی نہ چرائیں او ر جرائم کے راستے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی مدد آپ کریں اور نیکی اور بھلائی کا کام شروع کرنے کے لیے ارادہ کریں۔ صرف وسائل کا انتظار نہ کریں۔

کلام اقبال

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

آج کے حالات کی روشنی میں

ایک سبق آموز کہانی لڑکیوں کے لئے عورتوں کے لئے شادی شدہ عورتوں کے لیے . نئی نسل کے لیے بہت ضروری ہے ۔

میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں
میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا
لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی
مجھے عمر سے بدبو آتی تھی
ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا
خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ
یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح
وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی
عمر مجھے پیار سے سمجھاتا
کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا
میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے
امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا
بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے
باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو
لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی
میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے
امی ابو نے عمر کو بلوا لیا
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا
امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے
عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا
انکل جی جو کما کر لاتا ہوں سب اخراجات نکال کر جو بچتا یے شہزادی ہاتھ پہ رکھ دیتا ہوں
میرے چاچا تایا سب موجود تھے وہاں
میں بولی مجھے 30 ہزار روپے ہر مہینے چاہئے بس
اس شرط پہ ہی جاوں گی میں عمر کے ساتھ
عمر خاموش ہو گیا
سر جھکائے بیٹھا تھا
چاچا بولے ہاں عمر دے سکتے ہو خرچہ 30 ہزار
کچھ لمحے خاموش رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا
لمبی سانس کی بولا ٹھیک ہے میں شہزادی کو 30 ہزار روپے دوں گا الگ سے ہر مہینے
میں نے دل کی گالی دی کمینے دیکھنا جینا حرام کر دوں گی تمہارا
میں عمر کے ساتھ چلی گئی
ہم بجلی پانی گیس کا بل راشن کھانا سب اخراجات بھی تھے
عمر سے جب بھی پوچھا کیا کام کرتے ہو تو کہتا گورنمنٹ آفس میں کام کرتا ہوں
اس کے علاوہ نہ میں کبھی پوچھا نہ انھوں نے بتایا
خیر عمر مجھے ہر مہینے 30 ہزار روپے دیتا
ایک دن میں نے کہا مجھے آئی فون لیکر دو
میں بس تنگ کرنا چاہتی تھی کے عمر مجھے طلاق دے دے
عمر مسکرانے لگا
میرے پاوں پکڑے اور بولا شہزادی لے دوں گا پریشان نہ ہو
تم بس مجھے چھوڑ کر جانے کی بات نہ کیا کرو
جو کہو گی کروں گا
میں کبھی کھانے میں مرچ ڈال دیتی تو کبھی زیا دہ نمک
وہ تھکا ہارا کام سے آتا کھانا کھا کر بے ہوشی کی طرح سو جاتا
نہ جانے کون سا کام کرتا تھا کے اتبا تھک جاتا ہے
میں جتنی نفرت کرتی تھی اس جاہل سے وہ اتنی محبت کرتا تھا
میں ایک دن اپنی دوست کے ساتھ کار میں شاپنگ کرنے جا رہے تھے شہر کے سب مہنگے اور بڑے مال میں
جب ہم ایک بس اڈے کے پاس سے گزرے تو
میری زندگی نے جو لمحہ دیکھا
میں بے جان ہو گئی
وہ عمر جسے میں بہت نفرت کرتی تھی
جس کو میں جاہل ان پڑھ کہتی تھی
جس کو کبھی میں نے پیار سے کھانا تک نہ دیا تھا
جس کا کبھی حال نہ پوچھا تھا
جسے میں انسان ہی نہیں سمجھتی تھی
جسے میں قبول ہی نہیں کرنا چاہتی تھی
وہ عمر سر پہ بوجھ اٹھائے کسی کا سامان بس پہ چڑھا رہا تھا
ٹانگیں کانپ رہی تھی
پرانے سے کپڑے پہنے
پسینے سے شرابور
پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی پہنی تھی
فارس میں مر کیوں نہ گئی تھی
وہ میرے لیئے کیا کچھ کر رہا تھا
اتنے میں ایک شخص بولا اوئے چل یہ سامان اٹھا اور دوسری بس کئ چھت پہ لوڈ کر
عمر کو شاید بھوک لگی تھی
ہاتھ میں روٹی پکڑی رول کیا ہوا
ساتھ روٹی کھا رہا تھا ساتھ سامان اٹھا رہا تھا
میں قربان جاوں
میرا عمر میرے لیئے کس درد سے گزر رہا تھا
میں آنسو لیئے دیکھتی رہی
کام ختم ہوا
وہاں سائیڈ پہ ایک دکان کے سامنے زمین پہ بیٹھ گیا
کتنی بے بسی تھکن تھی عمر میں
سارا دن وہاں درد سہنا رات کو میری باتیں
فارس سر وہ حادثہ تھا یا اللہ کی مرضی بس میرا دل بدل گیا
میں بن بتائے کچھ خریدے گھر واپس لوٹ گئی
بہت روئی تھی بہت زیادہ
عمر کو پلاو پسند تھا میں نے پلاو بنایا
عمر گھر آیا
میں اسے کھانا نہیں دیتی تھی خود گرم کر کے کھاتا تھا
گھر آیا
مجھ سے سلام کیا کچن میں گیا
پلاو دیکھ کر بولا شہزادی آج تو آپ نے کمال کر دیا
ایک سال بعد پلاو کھانے لگا ہوں
فارس سر کھانا پلیٹ میں ڈال کر میرے پاس بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے میں عمر کی طرف دیکھے جا رہی تھی
عمر کتنا درد سہتا ہے اور بتاتا بھی نہیں
میں کتنی اذیت دیتی ہوں کوئی شکوہ نہیں
عمر پہ آج مجھے بہت پیار آ رہا تھا
دل چاہ رہا تھا سینے سے لپٹ جاوں
عمر نے کھانا کھایا
پھر جیب سے پیسے نکالے کہنے لگا یہ لو شہزادی 30 ہزار
میں چیخ چیخ کر رونے لگی عمر کے پاوں چوم لیئے
عمر مجھے کچھ بھی نہیں چاہئے
مجھے یہ پیسے نہیں چاہئے
عمر حیران تھا مجھے کیا ہو گیا ہے
عمر نے میرا ہاتھ تھاما بولے
اگر یہ پیسے کم ہیں تو اور لا دوں گا مجھے چھوڑ کر نہ جانا
کہنے لگے شہزادی بہت بھولی ہو تم
پاگل تم بچھڑنے کے بعد کہاں بھٹکو گی خدا جانے
بہت پیار کرتا ہوں نا تم سے اسلیئے تم کو خود سے دور نہیں کر سکتا
میں عمر کے سینے سے لگ گئی آج مجھے
نہ کوئی آئی فون چاہئے تھا نہ کوئی بڑا گھر گاڑی
مجھے اب دنیا کی کوئی خبر نہ تھی میری دنیا عمر بن چکا تھا
ہم عورتیں کیسے منہ پھاڑ کر کہہ دیتی ہیں جب کھلا نہیں سکتے تھے تو شادی کیوں کی
بات بات پہ جھگڑا اور طعنے شروع کر دیتی ہیں
کبھی اہنے شوہر کا وہ چہرہ دیکھنا جس میں نے عمر کا دیکھا تھا
خدا کی قسم ہم ایک سانس نہ لے سکیں اس ماحول میں یہاں مرد اپنی فیملی کے لیئے خود کو قربان کر دیتا ہے
جتنے شوہر کماتا ہے اس پہ خوش رہو
پیسہ بھی سب کچھ نہیں ہوتا
خدا کی قسم مجھے بڑی گاڑیوں اور اے سی والے محل میں وہ سکون نہیں ملا جس سکون عمر کی بانہوں میں آتا ہے
جو سکون عمر کا سر دبانے میں آتا ہے ۔جو سکون
عمر کی پسند کے کھانے بنانے میں آتا ہے
ہمسفر کی بے بسی کو سمجھو تو سہی
دیکھ تو سہی
آپ کبھی جھگڑا نہیں کریں گی
عمر اب میری زندگی ہے
اور میں عمر کی شہزادی
شاید کوئی لڑکی سنبھل جائے یہ پڑھ کر۔

شیئر کریں آپ کے دوست احباب میں

کچھ ماں باپ اپنی بیٹی کی اس کے بچوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

صرف اپنی شان و شوکت کے لیے اپنے نام کیلئے اپنے نام کو روشن کرنے کے لیے خاندان اور لوگوں میں اپنا نام روشن کرنے کے لیے اپنے بچوں کی زندگیاں مت برباد کریں۔
*خود کی بیٹی کی زندگی برباد کر رہے ہیں لیکن اس کے معصوم بچوں کی زندگیاں مت برباد کریں ۔
یہ کہانی نہیں ہیں ایک اچھا سبق آموز واقع ہے ۔
ماں باپ اپنی اولاد کو اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دے شوہر کیسا بھی ہو اس کی اور اس کے بچوں کا باپ اس کی دنیا ہے . اور یہی حقیقت ہے ۔
داماد ایک بیٹے جیسا ہوتا ہے اس کو گلے لگا لو ۔
یہی حقیقت ہے اپنی بیٹی کی زندگی بچانا ہے اس کے بچوں کی زندگی بچانا ہے تو داماد کو اپنے گلے لگا لو ۔
مائی پن کا گھر خالی ہوتا ہے ۔
غور کریں معاشرے کے لئے بہت ضروری ہے یہ باتیں ۔
آج کے حالات کے حساب سے میں تمام بیٹیوں سے بہنوں سے ماؤں سے ایک اپیل کرتا ہوں کہ یہی حقیقت ہے اپنے آپ کو سوچ کر دیکھیں ؛
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے .آمین ثم آمین

کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا

اس تعارفی تحریر کو اپنے علمی حلقوں میں ضرور شیر فرمائیں ۔
اس تحریر پر غور کریں متحد ہوجائیں اتحاد میں آجائے ۔
آپ کا ہمدرد آپ کی دعاؤں کا طلبگار ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں