غزہ: کل جمعرات کو سیکڑوں یہودی انتہا پسندوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں گھس کرتلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کی ادائی اور ’خاموش‘ دعا کی سرگرمیوں کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
’یورپین فاؤنڈیشن برائے القدس‘ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے بدھ کے روز جاری کردہ وہ فیصلہ ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے جس میں یہودی انتہا پسندوں کو مسجد اقصیٰ میں ’خاموش دعا‘ کی مذہبی رسوم کی ادائی کی اجازت دی گئی ہے۔
تنظیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودی انتہا پسندوں کو اشتعال انگیز رسومات کی ادائی کی اجازت دینا مسلمانوں کے قبلہ اول کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی مجرمانہ سازشوں کا حصہ ہے۔
بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہودی انتہا پسندوں کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں گھس کرمذہبی رسومات ادا کرنا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی توہین مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی سوچی سمجھی کوشش اور فلسطینیوں کے بنیادی مذہبی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔
تنظیم کے چیئرمین محمد حنون کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی نام نہاد سپریم کورٹ کی طرف سے یہودی آباد کاروں کومسجد اقصیٰ میں متنازع مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت دینا قبلہ مسجد اقصیٰ کے تاریخی، سیاسی اور قانونی اسٹیس کوپامال کرنے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تشخص کوپامال کر رہا ہے۔
محمد حنون کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر مسجد اقصیٰ کے اسلامی تشخص کو باقاعدہ طورپر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے 18 اکتوبر 2018ء کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہونے والے ’یونیسکو‘ کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور دیوار براق سے یہودی مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ مقام صرف اور صرف مسلمانوں کے مقدس مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔