دنیا کی بڑی معیشتوں پر مشتمل جی20 گروپ کے رکن ممالک نے افغانستان کو معاشی بدحالی سے بچانے کے لیے امداد کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔ جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ ملک کو ”افراتفری میں مبتلا ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
ایک ایسے وقت جب اقوام متحدہ نے افغانستان کو معاشی اور انسانی بحران سے بچانے کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کی اپیل کر رکھی ہے، دنیا کے ترقی یافتہ اور ابھرتی معیشتوں کے حامل ممالک کے گروپ جی 20 نے اپنی ایک ورچؤل میٹنگ میں افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔
لیکن ابھی تک یورپی یونین سمیت متعدد ممالک نے جس قدر امداد کا وعدہ کیا ہے وہ بلین ڈالر زکے بجائے ملین میں ہی ہے اور اس کا مقصد ہنگامی سطح پر غذائی اشیا اور ادویات فراہم کرنا ہے۔
عالمی رہنماؤں کا کیا کہنا تھا؟
امریکی صدر جو بائیڈن نے اس آن لائن میٹنگ میں شرکت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ امداد افغان عوام کو آزاد بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے فراہم کی جانی چاہیے اور براہ راست طالبان حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں دی جانی چاہیے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اس موقع پر افغانستان کی مدد کا اعلان کرتے ہوئے فوری طور پر60 کروڑ یورو دینے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”اگر افغانستان کا پورا مالیاتی نظام بکھر گیا، تو اس سے ہم میں سے کسی کو بھی کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔”
انگیلا میرکل کا مزید کہنا تھا، ”ہو سکتا ہے مزید انسانی امداد کی فراہمی نہ ہو۔ اس حوالے سے لکیر کھینچنا اور بات کرنا آسان کام نہیں ہے، لیکن وہاں بجلی کی فراہمی نہ ہونے یا مالیاتی نظام کے فقدان کے سبب چار کروڑ لوگوں کو افراتفری میں مبتلا ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر دیکھنا، یہ نہ تو بین الاقوامی برادری کا ہدف ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔”
جی 20 گروپ کی صدارت فی الوقت اٹلی کے پاس ہے اور چوٹی کانفرنس کی میزبانی کے اختتام پر اٹلی کے وزیر اعظم ماریو دراگی نے کہا کہ گروپ نے افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے کے لیے ایک ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”بنیادی طور پر انسانی بحران سے نمٹنے کی ضرورت کے حوالے سے سبھی کے خیالات ایک ہی جیسے ہیں۔” تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کی شمولیت کے بغیر افغانیوں کو امداد فراہم کرنا مشکل کام ہو گا۔
ان کا کہنا تھا، ”طالبان حکومت کی کسی قسم کی شمولیت کے بغیر یہ امداد فراہم کرنا مشکل کام ہو گا، اور یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم داخل نہ ہوں تو ہم نہیں داخل ہوں گے۔” اطالوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ روابط ضروری ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انہیں ان کے الفاظ پر نہیں بلکہ ان کے اعمال پرفیصلہ کیا جائے گا۔
اس میٹنگ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک ہوئے تاہم چین اور اور روس کے صدور نے خود شامل ہونے کے بجائے اپنے نمائندوں کو بھیجا۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی اس سمٹ میں حصہ لیا اور ان کا خطاب ترکی کے قومی ٹیلی ویژن پر بھی نشر کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ابھی تک، ”ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے جس کی ان سے توقع تھی۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”انسانی امداد، سلامتی اور افغانستان کی سرزمین دہشت گرد تنظیموں کا اڈہ بننے نیز انتہا پسندی کی روک تھام کے حوالے سے ان کی جانب سے جو ضروری شمولیت ہونی چاہیے تھی، وہ ہم نے اب تک نہیں دیکھی۔”
یورپی یونین کی امداد
جی ٹوئنٹی کی ورچوئل سمٹ کے دوران ہی یورپی یونین نے افغانستان میں پیدا سماجی اور اقتصادی بحرانی کیفیت کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک بلین یورو (1.2 بلین ڈالر) کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے لیے سماجی اور معاشی امداد کی فراہمی کا اعلان یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کیا۔
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی اُس امداد سے ہٹ کر ہے، جس کا تعلق یورپی یونین ڈیولپمنٹ فنڈ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ فنڈ افغانستان کے لیے کسی اگلے فیصلے تک منجمد رہے گا۔
یورپی کمیشن کی صدر نے امداد کے حوالے سے بتایا کہ افغانستان میں یہ امداد ان بین الاقوامی تنظیموں کے توسط سے تقسیم کی جائے گی، جو پہلے سے سماجی و معاشی بہبود کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ امداد دینے کا قطعی طور پر مقصد طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو)