امریکا نے عندیہ دیا ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے مذاکرات کی میز پر واپس نہیں آتا ہے تو اس کے خلاف طاقت کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایران پر یورینیم افزودگی کے حوالے سے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
امریکا اور اسرائیل نے 13 اکتوبر بدھ کے روز ایران کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تہران تاریخی جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے مذاکرات میں نیک نیتی سے واپس نہیں آیا تو پھر وہ اس معاملے پر ایران سے نمٹنے کے لیے مزید ممکنہ طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے اپنے ہم منصبوں سے سہ رخی بات چیت کے بعد ایک بیان میں کہا کہ اگر ایران اس معاہدے میں امریکی شمولیت کے بعد بھی اس پر دوبارہ عمل کرنے کی پیشکش کو مسترد کرتا ہے تو میز پر، ”دوسرے متبادل بھی موجود ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم ایران کی طرف سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہر متبادل پر غور کریں گے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسے معاملات کے لیے سفارت کاری سب سے موثر طریقہ کار ہے۔ تاہم ہم اب تک ایسا کچھ نہیں دیکھ رہے جس سے یہ محسوس ہو کہ ایران ایسا کرنے کے لیے آمادہ ہے۔”
اسرائیل کی جانب سے کارروائی کی دھمکی
اطلاعات کے مطابق ممکنہ غیر سفارتی اقدامات میں فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں یا پھر خفیہ فوجی کارروائی جیسے متبادل بھی موجود ہیں۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لیپید نے ایران کو کھل کر عسکری کارروائی کی دھمکی دی۔ ان کا کہنا تھا، ”ایسے مواقع ہوتے ہیں جب ممالک کے لیے دنیا کو برائی سے بچانے کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی دہشت گرد حکومت ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے جا رہا ہے تو ہمیں اس کے خلا ف ضرور کارروائی کرنی چاہیے۔”
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتے ہوئے کہا، ”اسرائیل کسی بھی وقت کسی بھی طرح سے کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یہ صرف ہمارا حق ہی نہیں بلکہ یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔”
جوہری معاہدہ کیا ہے؟
ایران، امریکا اور جرمنی سمیت بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں ایک جوہری معاہدے طے پا یا تھا۔ یہ معاہدہ ایک مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ہے، جس میں جوہری پروگرام کو محدود رکھنے کے بدلے میں ایران کو اقتصادی مراعات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ امریکا، روس، چین، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ایران اس معاہدے کے فریقین تھے۔
اس کی شرائط کے تحت، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے بعض ان سرگرمیوں کو بند کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس کے متعلق مغربی ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ ان کی مدد سے جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں۔
ایران نے اس معاہدے کے تحت جوہری توانائی کے عالمی نگران ادارے کے حکام کو اپنی جوہری تنصیبات تک معائنے کے لیے رسائی کی بھی اجازت دی تھی اور اس کے بدلے میں امریکا نے ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم امریکا میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی یہ معاہدہ خطرے میں پڑ گیا۔
صدر ٹرمپ نے سن 2018 میں یکطرفہ طور پر امریکا کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں نافذ کر دیں۔ رد عمل میں ایران نے بھی اس معاہدے پر عمل ترک کر دیا اور اس کی خلاف ورزی شروع کر دی۔
اسرائیل اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جو سابق صدر اوباما کی انتظامیہ نے مذاکرات کے ذریعے طے کیا تھا۔ اسرائیل اس کی مخالفت بھی کرتا رہا ہے۔ ایران نے اس معاہدے میں واپسی کی بات کہی ہے اور اس کے لیے بات چیت شروع کرنے کا بھی اشارہ دیا تاہم ابھی تک کوئی وقت مقرر نہیں ہوا ہے۔
ایران کا ابتدا سے یہی موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں کوئی
دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے مطابق وہ جوہری توانائی حاصل کرنے کے مقصد سے اس پر کام کر رہا ہے۔