نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
دنیا تغیر پذیر ہے ، ہر آئے دن حالات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے ، ماضی کے مقابلے میں حال کی تصویر مختلف ہوتی ہے ، مستقبل کا تصور اور زیادہ جداگانہ انداز پر مبنی ہوتا ہے ، پچھلے ایک صدی میں کچھ بدل دیا گیا ہے ، گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران تیزی حالات بد ل رہے ہیں ، عالمی منظر نامہ ایک نئی دنیا کی تصویر پیش کررہاہے ماضی سے جس کا تعلق اور رشتہ باکل ختم دیکھائی دے رہا ہے ، تغیر پذیر اور بدلتے ہوئے حالات نے انسانوں کو مشکلات کا شکار بنادیا ہے ، مسلمانوں کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، عالم اسلام کے پاس طاقت کا فقدا ن ہے ، ظلم و جبر کا شکار ہونا پڑرہاہے ، بے چینی ، پریشانی اور اضطراب نے احاطہ کر رکھا ہے ایسے عہد اور تیزی سے بدلتے حالات میں مسائل کا حل صبر اور استقلال ہے۔
صبر کے دو پہلو ہیں ، ایک مثبت اور دوسرا منفی : مثبت پہلو یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ صبر واستقلال کی ہدایت کی ، حوصلہ اور ہمت سے کام لینے کی تلقین کی ، مشکلوں میں گھبرانے ، خوف زدہ ہونے اور پریشان ہونے کی بجائے ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے کام لینے کا حکم دیا اور قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ” ان اللہ مع الصابرین “ اللہ تعالی صابروں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو مصائب میں گھبرانے کے بجائے ہمت سے کام لیتے ہیں ، خوف زدہ ہونے کے بجائے صبر کرتے ہیں، عزم اور حوصلہ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہیں ، انسانوں کا احترام کرتے ہیں ، مخلوقات کا اکرام کرتے ہیں۔ یہ صبر کا مثبت پہلو ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سوچ کے طریقہ کار میں تبدیلی ہوگی ، افہام و تفہیم کا انداز تبدیل ہوگا ، اصل مسائل پر نظر رہے گی۔ صبر کا منفی پہلو یہ ہے کہ انسان میں شیطانی صفت کا غلبہ ہوجائے گا ، شیطانی فطرت مسلمانوں کو صبر کے مثبت اوصاف پر عمل کرنے سے روکے گی ، انسانوں کو حسن اخلاق سے دور رکھا جائے گا ، علم کو چند لوگوں تک محدود کردیا جائے گا ، دولت کو چند لوگوں کیلئے خاص کردیا جائے گا ،عوام کو چند سرمایہ داروں کا محتاج بنادیا جائے گا اور یوں انسانوں کو چند لوگوں کا غلام بنا دیا جائے گا۔ یہ شیطانی فطرت ہے ، خلاف انسانیت ہے اور بدترین ظلم ہے۔ اس طرح سے ظلم وستم بڑھ جاتا ہے ، کمزوروں کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا ہے ، انسانوں کو خود ساختہ نظام کی بنیاد پر کچھ مخصوص لوگ انسانوں کا استحصال شروع کردیتے ہیں ، بدترین غلامی کی زندگی جینے پر مجبور کرتے ہیں ، انصاف ، مساوات اور آزادی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ امور اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اسلام کاسب سے زیادہ زور مساوات، آزادی اور انصاف پر ہے۔ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ تمام انسان برابر ہیں ، کسی کو کسی پر نسل ، ذات ، علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کوئی فوقیت اور ترجیح نہیں ہے ، تمام انسان انصاف کے حقدار ہیں ، مال دو لت، عہدہ اور شہرت کی بنیاد پر انصاف کو خریدا نہیں جاسکتا ہے اور نہ ان بنیادوں پر ظالموں کو انصاف دیا جاسکتا ہے ، اسی طرح ہر کوئی آزادی کا حقدار ہے ، ہر بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوتا ہے اس لئے اس کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ ان امور کے تعلق سے اسلام کا موقف سب سے واضح ہے ، اسلام کی اسی تعلیمات نے دنیا بھر پر اثر کیا ہے اور کڑوروں لوگوں نے جہالت کا راستہ چھوڑ کر ہدایت کا راستہ اختیار کیا ، اسلام قبول کرکے روحانی سکون حاصل کیا۔ اسلام نے عزت و آبرو کی حفاظت پر زور دیا ہے ، اسے ضرروی بتایا ہے ، خواتین کا استحصال بھی بہت زیادہ ہونے لگا ہے ، لگاتار خواتین کو ظلم کا شکار بنایا جارہا ہے ، کمزور طبقات کو ظلم کے شکنجے میں کسا جارہا ہے ،ہر چہار جانب سے ظلم ڈھایا جاتا ہے ،ایسے موقع پر ضرروی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے ، اسلام کے پیغام سے دنیا کو واقف کرایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اسلام دنیا میں انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کا علمبردار ہے ، اکرام انسانیت اور احترام انسانیت ضروری ہے ، سبھی یکساں سلوک کے حقدار ہیں ، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنا ماتحت اور غلام بنالے اور جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں اسے ایکسپوز کیا جائے ، ان کے ناپاک عزائم کا پردہ فاش کیا جائے ، انسانوں کو ان کے فریب میں آنے سے بچایا جائے اور ایسے تمام مشنز کو ناکام بنانے کی پوری جدوجہد جاری رکھی جائے۔
انسانوں کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کا خطاب دیاہے ، قرآن کریم میں ایک جگہ خیر امت سے پکارا ہے ، ہمدردی ، غمگساری ، رحم دلی اور بھائی چارگی کا حکم دیا گیا ہے ، انسانوں کو یہی خصوصیات بھی ہے کہ وہ ہمدردی اور غمگساری کا مظاہرہ کرے لیکن یہ سب کیسے ممکن ہے ؟ اس کیلئے ضروری ہے کہ مسلمان انسا او رتکبر کو پہلی فرصت میں اپنے یہاں سے نکال پھینک دیں، یہ تسلیم کریں کہ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں ، حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان ہیں جسے روئے زمین پر آباد تمام انسانوں کا رشتہ قائم ہوتاہے ، سارے کے سارے ان کی ہی اولاد ہیں اور جب رشتہ و تعلق ان سے جڑتاہے تو پھر قبیلہ ، نسل ، ذات اور علاقہ کی بنیاد پر فخر ، شرف اور غرور کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ پاتی ہے۔ سچ وہی ہے جو قرآن میں کہاگیاہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سبھی اشرف المخلوقات میں شامل ہیں جن کی ترقی ، بھلائی اور بہتری ضروری ہے۔
آئین ہند میں بھی قرآن کریم میں بتائے گئے اصول کو شامل کیا گیا ہے اور تمہید میں انصاف ، مساوات ، آزادی او ربھائی چارہ کو بنیاد بنایا گیا ہے ، انسانی وقار، تکریم انسانیت اور عظمت انسانیت کو بحال کرنے کیلئے ان امور کو بحال کرنا ، معاشرہ اور سماج میں اسے بنیاد بنانا ضرروی ہے تبھی انسانوں کی عظمت بحال ہوسکتی ہے ، انسانوں کا اکرام ہوسکتا ہے ، قرآن کریم میں واضح طور پر اکرام انسانیت کو بتایا گیا ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے ولقد کرمنا بنی آدم ، ہم نے بنی آدم کو مکرم اور لائق تکریم بنایا ہے ۔
انسانوں کی ترقی اور بہتری کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ، بہترین تعلیم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بچوں کی تعلیم کا بندو بست کیا جائے ، صرف کوالیٹی ایجوکیشن پر فوکس کرنے کے بجائے کوانٹیٹی پر توجہ مبذول کی جائے۔ جو لوگ ایجوکیشن کے میدان میں کام کررہے ہیں وہ آگے آئیں ، فعال اور متحرک ہوکر مزید کام کو آگے بڑھائیں ، عوام اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں ، جو والدین اپنے بچوں کو اسکول میں نہیں بھیج رہے ہیں ہم انہیں بھی اسکول میں بھیجنے کا نظام بنائیں ، شرح تعلیم کو سو فیصد یقینی بنائیں۔ اس طرح معاشرہ ترقی یافتہ ہوگا ، نظام بہتر ہوگا ، انسانوں کو آزادی ملے گی ، انصاف ، مساوات اور بھائی چارہ عام ہوگا۔ انسانوں کو غلام بنانے والی ذہنیت اور مشن ناکامی کا سامنا کرے گی اور یوں ملک، سماج ، معاشرہ اور انسانیت کی ہمہ جہت ترقی ہوگی۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)