بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا ”سخت مخالف” ہے۔ صدر ٹرمپ مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر کی کھل کر حمایت کیا کرتے تھے اور اس لحاظ سے یہ اقدام ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔
مشرق وسطی سے متعلق امریکا کی سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے 26 اکتوبر منگل کے روز اپنے ایک اہم بیان میں کہا کہ اسے مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں، ”شدید فکر لاحق ہے۔”
صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ اسرائیل کو اس سے قبل بھی متعدد بار خبردار کر چکی تھی کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی سرزمین پر اپنی بستیوں کی تعمیر کو روکے۔ اسے ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی سے ہٹ کر ایک بنیادی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو نئی بستیوں کی تعمیر کی کھل کر حمایت کرتی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”ہم بستیوں کی توسیع کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، جو کہ کشیدگی کو کم کرنے اور امن کو یقینی بنانے کی کوششوں سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتا، اور اس سے دو ریاستی حل کے امکانات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔”
امریکا نے اسرائیلی بستیوں پر تبصرہ کیوں کیا؟
صحافیوں سے بات چیت میں نیڈ پرائس نے کہا، ”ہمیں اسرائیلی حکومت کی ہزاروں بستیوں کی یونٹس کو آگے بڑھانے کے منصوبے پر گہری تشویش لاحق ہے۔” گزشتہ اتوار کو ہی اسرائیل فلسطین کے مقبوضہ علاقے غرب اردن میں تقریبا ًساڑھے تیرہ سو مزید مکانات کی تعمیر کو منظوری دی تھی جس کے بعد امریکا نے یہ سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تعمیرات کے وزیر زیو الکن کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودیوں کی آبادی بڑھانے کے مقصد اور، ”صیہونی وژن کے لیے یہ تعمیرات ضروری ہیں۔ میں یہودیہ اور سامریہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر برقرار رکھوں گا۔”
پونے پانچ لاکھ سے بھی زیادہ اسرائیلی یہودی ان مقبوضہ زمینوں پر بسائی گئی بستیوں میں پہلے سے ہی آباد ہیں۔ ان فلسطینی علاقوں پر اسرائیل جنگ کے بعد سے ہی قابض ہے، جبکہ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے ان کی مستقبل کی ریاست کا حصہ ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی ان بستیوں کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
فلسطین کے وزیر اعظم محمود شطّیح نے اپنے ایک بیان میں واشنگٹن سے بستیوں کی توسیع کے معاملے میں اسرائیل پر لگام کسنے کی بات کہی تھی۔
مقبوضہ علاقے میں بستیوں کی تعمیر اہم سیاسی مسئلہ
امریکا کی سابق ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے تئیں امریکی خارجہ پالیسی کے رجحان سے انحراف کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر آبادکاری کو فروغ دینے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ ٹرمپ نے تو اپنے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو ان غیر قانونی بستیوں میں سے ایک کا دورہ کرنے کے لیے بھی بھیجا تھا۔
لیکن اب صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے بیشتر ارکان اسرائیل کے تئیں وائٹ ہاؤس کی روایتی بلا شرط حمایت کی پالیسی سے نالاں ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ جون میں ڈیموکریٹک پارٹی کے متعدد قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایسی تمام کارروائیوں کی مذمت کریں جو خطے میں امن قائم کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
لیکن موجودہ اسرائیلی انتظامیہ کے پاس بھی اپنے مسائل ہیں جن سے اسے نمٹنا بھی ہے۔ خود اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کا تعلق انتہائی قسم کی دائیں بازو کی جماعت سے ہے، جو ان علاقوں میں تعمیرات کی لابی گروپ کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔
وزیر اعظم نیفتالی بینٹ فلسطینی ریاست کے قیام کے بھی سخت مخالف ہیں۔ وہ اپنے عہدے کی مدت کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ با ضابطہ امن مذاکرات کو بھی مسترد کر چکے ہیں۔
لیکن ان کی مخلوط حکومت میں شامل وزیر خارجہ یائر لپید کی جماعت اعتدال پسند نظریات کی حامی ہے اور وہ اس معاملے میں اپنے امریکی حامیوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی ہے۔
دہائیوں سے جاری پالیسی
سن 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل ان تمام علاقوں پر مکمل انتظامی کنٹرول استعمال کرتا رہا ہے جہاں تقریبا ًبیس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سے ہر اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر اور مشرقی یروشلم کے الحاق کی کوششیں کرتی رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دور میں ان تعمیرات میں تیزی آئی۔ ان بستیوں میں پہلے سے ہی تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو)