فیس بک نے الزام عائد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جس گروپ کی طرف سے افغان صارفین کو ٹارگٹ بنایا گیا، سائبر سکیورٹی انڈسٹری میں اُسے ”سائیڈ کاپی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بیان کے مطابق اس گروپ نے ویب سائٹ ہوسٹنگ میل ویئر پر ایسے لنکس شیئر کیے، جو لوگوں کے آلات کی نگرانی کر سکتے تھے۔
فیس بک کے مطابق اس طرح ان لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو افغان حکومت، فوج اور کابل میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک تھے۔ فیس بک انتظامیہ نے کہا ہے کہ انہوں نے اگست میں ہی ”سائیڈ کاپی” کو فیس بک سے ختم کر دیا تھا۔
اس سوشل میڈیا کمپنی کے مطابق اس گروپ نے نوجوان خواتین کے فرضی اکاؤنٹس بنا رکھے تھے۔ اعتماد پیدا کرنے اور اہداف کو لنکس پر کلک کرنے پر مجبور کرنےکے لیے ”رومانوی لالچ” دیا جاتا تھا۔ اس طرح اہداف کو مشکوک ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کہا گیا۔ بیان کے مطابق ”سائیڈ کاپی” نے کئی اصلی ویب سائٹس کا روپ دھار کر بھی صارفین سے ان کی ذاتی معلومات طلب کیں۔
فیس بک کمپنی میں سائبر جاسوسی کے تحقیقاتی شعبے کے سربراہ مائیک ڈویلیانسکی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”آخر کار ہمارے لیے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والے کا حتمی مقصد کیا ہوتا ہے؟” انہوں نے مزید بتایا، ”ہم حتمی طور پر یہ بالکل نہیں جانتے کہ کس کس کا اکاؤنٹ ہیک ہوا اور اس کا حتمی نتیجہ کیا تھا۔”
بڑے آن لائن پلیٹ فارمز اور ای میل فراہم کرنے والے ادارے بشمول فیس بک، ٹویٹر، گوگل اور مائیکروسافٹ کارپوریشن کے لنکڈ ان نے کہا ہے کہ انہوں نے فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے دوران ہی اکاؤنٹس لاک ڈاؤن کرنا شروع کر دیے تھے۔
فیس بک کے مطابق اس سے قبل بھی اپریل سے اگست کے درمیان ایک ہیکنگ کمپین شروع ہوئی تھی لیکن اُس وقت یہ معلومات شیئر نہیں کی گئیں تھیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ فیس بک انتظامیہ مزید تحقیقات کرنا چاہتی تھی اور ملک میں موجود اپنے ملازمین کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہتی تھی۔ تاہم تب یہ معلومات فیس بک نے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ شیئر کی تھیں۔
دریں اثناء فیس بک انتظامیہ نے شامی ایئرفورس انٹیلی جنس کے دو گروپوں کے اکاؤنٹس بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فیس بک کے ایک ترجمان کے مطابق کمپنی نے اس حوالے سے افغانستان اور شام میں تقریباﹰ 2000 متاثرہ صارفین کو مطلع کر دیا ہے اور ان میں سے اکثریت افغان صارفین کی ہے۔