عشرت معین سیما
گزشتہ جمعہ سے پورے جرمنی میں سردی کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ ہفتہ اتوار تو گھر میں بند گزار لیے مگر آج صبح کام پہ جانا تھا ۔ریڈیو اور ٹی وی پہ مستقل برفباری کے نتیجے میں ہونے والے حادثات کی خبریں دیکھ اور سن کر برف باری کا مزا کر کرا ہورہا تھا، آج درجہ حرارت ذرا کم ہوا تو شہر بھر کی سڑکوں پہ گویا پھسلن پارٹی شروع ہوگئی ۔ ریڈیو سے متعدد حادثات اور ہسپتالوں میں پھسلنے کی وجہ سے آنے والے مریضوں کی بڑھتی تعداد کی خبریں گاڑی اسٹارٹ کرتے ہی سننے کو ملیں میں اپنی بیٹی کو اسکول پہنچانے کے بعد نہایت احتیاط سے گاڑی اسٹارٹ کرنے کو تھی کہ ایک بزرگوار کو اپنی چھڑی سمیت سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ سڑک پار کرنے کی کوشش کرتے دیکھا۔ میں نے ازراہ ہمدردی گاڑی ان کے قریب لا کر روکی اور بلند آواز میں پوچھا کہ کیا میں ان کے کسی کام آسکتی ہوں یا کچھ دور تک میں ان کو ان کی فی الوقت کی منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہوں ۔ اس پر پہلے تو وہ بزرگ محتاط انداز میں گاڑی کی اندرونی جانب جائزہ لینے لگے پھر میرے دوبارہ پوچھنے پر خود آگے بڑھ کر کچھ کہے بغیر گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئے ۔ کچھ لمحوں بعد گلا کھنکھنار کر بولے مجھے اگلی گلی میں ڈاکٹر کے پاس جانا ہے اور ساتھ ہی گاڑی کی سیٹ بیلٹ لگا کر سامنے نگاہ جما دیں ۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور آہستہ آہستہ ان کی بتائی ہوئی اگلی سڑک پہ موڑ دی ۔ وہ محترم ہر مکان کے سامنے گاڑی رکواتے اور پھر کہتے ” نہیں نہیں یہ ہاؤس نہیں ہے۔ ” میں نے ان سے مکان نمبر اور سڑک کا نام دریافت کیا تو جوابا” انہوں نے کہا کہ مکان کے سامنے ایک بڑا چیڑ کا درخت ہے اور پیلے رنگ کی بینچ گھر کے سامنے پڑی ہے ۔ بس یہی نشانی ہے مکان نمبر اور سڑک کا نام ان کے ذہن سے نکل گیا ہے ۔ میں ان محترم بزرگ کو لیے پندرہ بیس منٹ اسکول کے ارد گرد کی گلیوں میں گھومتی رہی مگر وہ صاحب اپنا مطلوبہ مکان تلاش نہیں کر پائے ۔ موسم خراب تر ہو رہا تھا سڑک پہ گاڑی چلانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بنا ہوا تھا اور دوسرے مجھے کام پہ پہنچنے میں بھی دیر ہورہی تھی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹر کا نام معلوم ہوتو موبائل پہ نیٹ میں سے پتہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ میں نے بزرگوار سے ڈاکٹر کا نام پوچھ کر صرف تین منٹ میں انہیں ڈاکٹر کے مکان کے سامنے پہنچا دیا اورپہلے خود گاڑی سے اتر کر مکان کی بیل بجائی ۔ کچھ دیر میں بزرگوار خود ہی گاڑی سے جلدی نکل آئے، میں نے ان کو سہارا دیکر ان کی منزل مقصود تک پہنچایا تو جوابا” انہوں نے کہا ” اگر تم جیسے جرمن زبان بولنے والے ، گاڑی چلانے والے اور انٹرنیٹ کا استعمال جاننے والے غیر ملکی پناہ گزین جرمنی میں کچھ روز رہنا چاہتے ہیں تو ہم جرمنوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے ”
میں ان کی اس تعصبانہ ستائش پہ حیران ہوکر سوچ رہی ہوں کہ جرمنی میں ابھی ہٹلر کی کچھ باقیات در پردہ موجود ہیں ۔
مصنفہ جرمنی میں مقیم پاکستانی نژاد شہری اور افسانہ نگار ہیں