اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ اتوار کو متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچ رہے ہیں۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا اس ملک کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے، جب عالمی سطح پر علاقائی کشیدگی کے حوالے سے عالمی طاقتوں کا جی سیون اجلاس جاری ہے۔ دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون نے روس چین اور ایران کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو بھی مایوسی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے ان خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے طے کرنے کی کوشش کی ہے، جنہیں اسرائیل کی طرح ایران کی جوہری سرگرمیوں پر تشویش ہے۔ لیکن متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ بات چیت کے راستے کھلے رکھے ہیں۔ اس عرب ریاست نے گزشتہ پیر کو ایک اعلیٰ عہدیدار کو تہران بھیجا تھا۔ نیفتالی بینیٹ نے اپنی کابینہ کو آج بتایا، ”میں آج متحدہ عرب امارات جاؤں گا، یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا وہاں کا پہلا دورہ ہوگا۔‘‘ وہ ولی عہد محمد بن زیاد النہیان سے ملاقات کریں گے۔ امریکا نے ”ابراہیمی معاہدے‘‘ کے ذریعے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرائے تھے۔ حضرت ابراہیم ایک ایسی مذہبی شخصیت ہیں، جنہیں مسلمان، مسیحی اور یہودی انتہائی مقدس اور معتبر مانتے ہیں۔ اتوار کو بینیٹ کا یہ دورہ کسی بھی اسرائیلی وزیراعظم کا ان عرب ممالک میں سے کسی ایک ملک میں پہلا دورہ ہو گا۔ اسرائیلی کے سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، جنہوں نے ”ابراہیمی معاہدے‘‘ پر دستخط کیے تھے، ان کے ان ممالک میں دورے کورونا وبا کی وجہ سے منسوخ ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بینیٹ اور شیخ محمد دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات پر گفتگو کریں گے۔ اسرائیل اور اس عرب ریاست کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد خلیجی تیل کو بحر احمر تک پہنچانے کی ڈیل طے پائی تھی۔ اس معاہدے کو ماحولیاتی ماہرین نے اسرائیل کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اور بینیٹ کے وزیر توانائی بھی اس ڈیل کے خلاف ہیں۔ بینیٹ کی حکومت اس ڈیل کے مستقبل کے حوالے سے اسی ہفتے فیصلہ کرے گی۔