امریکہ سے کوئی تنازع نہیں، تمام ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں: طالبان

کابل: (ایجنسیاں) افغانستان میں اگست کے وسط میں اقتدار میں آنے والے طالبان کے مقرر کردہ عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران اصولی طور پر لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت کے حامی ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دورِ اقتدار سے سبق سیکھ لیا ہے۔
امیر خان متقی نے خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ طالبان دنیا کے تمام ممالک سے مدد کی اپیل کرتے ہیں تا کہ وہ پریشان حال لاکھوں افغان عوام کی مدد کریں۔ یہ بات کسی کے مفاد میں نہیں ہو گی کہ افغانستان کی حکومت کمزور ہو۔
انھوں نے یہ بات تسلیم کی کہ دنیا اس بات پر مایوس ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کو کام کرنے کے حوالے سے رکاوٹیں درپیش ہیں۔ اس ضمن میں طالبان صورتِ حال کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان نے جب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، کئی علاقوں میں ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے۔ جب کہ سرکاری ملازمت کرنے والی کئی خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ گھر ہی پر رہیں اور دفاتر کا رخ نہ کریں۔
طالبان کے اہم رہنماؤں میں شمار ہونے والے امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق خواتین کے لیے تعلیم اور ملازمت کے لیے علیحدہ مقامات اور ماحول کا بندوبست کرنا ہوگا جس کے لیے انھیں وقت درکار ہے۔

’امریکہ سے بھی کوئی تنازع نہیں ہے‘
طالبان کی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت خواہاں ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہوں۔ امریکہ کے ساتھ بھی کوئی تنازع نہیں ہے۔
انھوں نے امریکہ اور دیگر ممالک پر زور دیا کہ 15 اگست کے بعد منجمد کیے گئے افغانستان کے لگ بھگ 10 ارب ڈالرز جاری کیے جائیں۔
امریکہ نے یہ اقدام اُس وقت کیا جب امریکہ کی حمایت یافتہ صدر اشرف غنی خفیہ طور پر ملک سے فرار ہوئے تھے اور طالبان نے افغانستان کے نئے حکمرانوں کے طور پر کنٹرول سنبھالا تھا۔

’افغانستان پر پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘
دارالحکومت کابل کے مرکزی علاقے میں واقع وزارتِ خارجہ کی عمارت میں ’اے پی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ​پشتو زبان میں بات کرتے ہوئے امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ افغانستان پر پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے ایک بار پھر واضح کیا کہ افغانستان کو غیر مستحکم کرنے یا افغان حکومت کو کمزور کرنے کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
امیر خان متقی طالبان کی گزشتہ حکومت میں بھی مختلف ذمہ داریوں پر فائض تھے۔ 1996 سے 2001 تک جب طالبان پہلی بار افغانستان میں برسرِ اقتدار آئے تھے۔ اس وقت بھی طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر پابندی لگائی تھی۔ ساتھ ہی ان کی تفریح گاہوں میں آمد اور کھیلوں پر بندش لگا دی گئی تھی۔
طالبان نے پہلی حکومت میں کھیلوں کے میدانوں میں آئے دن بڑے اجتماعات کی موجودگی میں پھانسیاں دینے کا عمل جاری رکھا تھا۔ البتہ اب امیر خان متقی دعویٰ کر رہے ہیں کہ طالبان نے گزشتہ دور سے سبق سیکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انتظامی امور، سیاسی معاملات اور دیگر ممالک سے تعلقات میں سفارت کاری اور روابط استوار کرنے کے اعتبار سے طالبان نے پیش رفت کی ہے۔
انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی نئی حکومت میں 34 صوبوں میں سے 10 میں بارہویں جماعت تک کی لڑکیاں اسکول جا رہی ہیں جب کہ نجی اسکول اور جامعتا کسی رکاوٹ کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے واضح کا کہ شعبۂ صحت میں 100 فی صد خواتین، جو پہلے بھی کام کیا کرتی تھیں، اب بھی کام پر جاتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصولی طور پر طالبان خواتین کی شرکت کے حامی ہیں۔

’حکومت میں آنے کے بعد طالبان نے اپنے مخالفین کو ہدف نہیں بنایا‘

امیر خان متقی نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اپنے مخالفین کو ہدف نہیں بنایا۔ اس کے برعکس طالبان نے اقتدار میں آتے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور مخالفین سمیت سب کو تحفظ کا یقین دلایا۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت سے تعلق رکھنے والے رہنما کابل میں بغیر کسی خوف کے رہتے ہیں جب کہ بیشتر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ طالبان نے چار مختلف صوبوں میں کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور خفیہ اداروں کے سابق اہلکاروں کو نشانہ بنا کر قتل کیا ہےیا وہ اہلکار لاپتا کر دیے گئے ہیں۔ البتہ انتقامی کارروائیوں کی بڑے پیمانے پر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
طالبان کے مقرر کردہ عبوری وزیرِ خارجہ ​امیر خان متقی نے الزام لگایا کہ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں اتحاد نے طالبان کی حکومت کو ہٹا کر بڑے پیمانے پر طالبان کے خلاف مبینہ طور پر انتقامی کارروائیاں کی تھیں۔ اس وقت سیکڑوں لوگ لاپتا کیے گئے تھے یا ان کو قتل کر دیا گیا تھا۔
امریکہ میں 2001 میں متعدد جہازوں کو ہائی جیک کرکے دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی تھیں جس میں امریکہ کے محکمۂ دفاع کی عمارت پر ہائی جیک جہاز سے حملہ کیا گیا تھا جب کہ دو جہاز نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے گئے تھے۔ ان حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور اس تنظیم کی قیادت کو پناہ دینے کی پاداش میں 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا گیا تھا۔
بہتر زندگی کے خواب نے افغان شہریوں کو کابل ایئرپورٹ بھاگنے پر مجبور کیا
امیر خان متقی نے زور دے کر کہا کہ رواں برس اگست کے وسط میں خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ غربت سے نکلنے کی خواہش اور بہتر زندگی کے خواب نے ہزاروں افغان شہریوں کو کابل کے ہوائی اڈے کی جانب بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اولین مہینوں میں کچھ غلطیاں کیں۔ ہم ایسی اصلاحات پر کام جاری رکھیں گے جس سے قوم کا فائدہ ہو۔

طالبان کے وزیرِ خارجہ نے غلطیوں یا ممکنہ اصلاحات کی تفصیل نہیں بتائی۔

امیر خان متقی نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوج کے چوٹی کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کی جانب سے گزشتہ ہفتے ظاہر کئے گئے ان خدشات کو مسترد کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ القاعدہ افغانستان میں مضبوط ہو رہی ہے۔
امریکہ اور طالبان میں فروری 2020 میں قطر میں معاہدہ ہوا تھا غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق اس سمجھوتے میں طالبان نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے اور دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہ کرنے سے متعلق یقین دہانی کرائی تھی۔
طالبان رہنما امیر خان مقتی کا کہنا تھا کہ اماراتِ اسلامی افغانستان کے خلاف ہمیشہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ مگر ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com