نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
بھارت میں نفرت ، تشدد اور فرقہ پرستی کے واقعات لگا تار بڑھتے جارہے ہیں ، سیاسی رہنما اور کچھ مخصوص پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے زہر افشانی کی انتہاء کرچکے ہیں ، کئی لوگ اہم عہدوں پر بیٹھ کر زہر افشانی کررہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں ، اقلیتوں ، دلتوں اور کمزوروں کے خلاف سبھی حدود پار کرجاتے ہیں ، ایسے نیتاؤں اور زہر افشانی کرنے والوں میں اوپر سے لیکر نیچے تک کی شخصیات شامل ہیں، تازہ بیان آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں کی گھر واپسی کرانے کی مہم چلائی ہے ، ایک پروگرام کے دوران انہوں نے سنگھ کے لوگوں کو حلف دلایا ہے کہ وہ مسلمانوں کی گھر واپسی کرانے کیلئے زمینی سطح پر کام کریں ۔ اس سے قبل انہوں نے تاریخ کے خلاف سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں تلوار اور حملہ آوروں کے ذریعہ اسلام آیا ، کبھی کہتے ہیں کہ بھارت کے سبھی شہری ہندو ہیں ، ان کے ایسے دسیوں بیانات ہیں جس سے تشدد کو بڑھاوا ملتا ہے ، اقلیتوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ، آئین میں دیئے گئے مساوات ، انصاف اور آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔
وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے والے بھی بارہا اسی طرح کے بیانات دیتے ہیں اور اپنے منصب کا بھی خیال نہیں کرتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں وارنسی دورہ کے دوران مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے تعلق سے نازیبا کلمات کا استعمال کیا ، تاریخی سچائی بیان کرنے کے بجائے ایک سفید جھوٹ بولا گیا، تقریر کا انداز بھڑکاؤ اور دیش کی گنگا جمنی تہذیب کے خلاف تھا ، سالار مسعود غازی کے خلاف بھی تاریخی حقائق کے خلاف ایک جھوٹ کا سہارا لیا گیا ۔ ایک عظیم منصب پر فائز شخصیت کا یہ خطاب یقینی طور پر ملک کی یکجہتی ، امن وسلامتی ، اور باہمی اتحاد کو نقصان پہونچانے والا ہے ۔ وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھے ہوئے ایک ذمہ دارشخص کی زبان سے اس طرح کی باتیں یقینی طور پر بھارت کی شرمندگی کا سبب بنے گی ، عوام کے درمیان نفرت کو بڑھاوا ملے گا ، ان کے چاہنے والے اور ماننے والے تشدد اور فرقہ پرستی کی راہ اختیار کریں گے ۔ دنیا بھر میں ہندوستان کے تعلق سے منفی پیغام جائے گا ۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی لگاتار زہر افشانی کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ اکھلیش سرکار میں صرف ابا جی والوں کو راشن ملتاتھا ، مسلمانوں کو پاکستانی کہنا ، محمد علی جناح سے جوڑنا اور حب الوطنی پر سوال اٹھانا ان کا بہترین مشغلہ ہے ۔ نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ بھی لگاتار زہر افشانی کررہے ہیں ، مسلمانوں کے خلاف دن رات بولنے میں لگے ہوئے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ اجودھیا میں شاندار رام مندر بن چکی ہے ، متھرا میں شاندار مندر بنانے کی تیاری جاری ہے ، کاشی ابھی باقی ہے ۔ کبھی کہاجاتاہے کہ جس طرح ہم نے اجودھیا میں بابری مسجد مسمار کرکے مندر بنایا ہے اسی طرح متھرا اور کاشی میں بھی مسجدوں کو توڑ کر عظیم الشان مندر بنائیں گے ۔
وی ایچ پی کے رہنما مسٹرسنگھ نے جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق کا موازنہ ’کینسر‘ کو ہٹانے کی سرجری سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تو ہم نے مسلمانوں کے لیے الگ زمین دی تھی۔ یہ سمجھئے کے ہم اپنے دیش سے کینسر کو نکلنا چاہتے تھے (یہ ہمارے ملک سے اس کینسر کو ختم کرنے کے مترادف تھا) ۔ لیکن، بدقسمتی سے، یہ کامیاب نہیں ہوا۔ کچھ مسلمان بھائی ہندوستان میں رہ گئے۔ ہم نے انہیں ‘’واسدھائیو کٹمبکم‘ (پوری دنیا خاندان ہے) اور ‘’اتتھی دیو بھا‘ (مہمان خدا ہے) کی ہندو روایت کے مطابق بڑے احترام کے ساتھ قبول کیا۔ ‘ لیکن ہم بھول گئے کہ کینسر دھیرے دھیرے بڑھتا ہے۔ آج 70 سال میں وہ چوتھے اسٹیج میں آ کر ہمارے پورے جسم میں پھیل چکا ہے۔ اس کینسر کو ہٹانے کے لیے اب ہمارے پاس بہت زیادہ متبادل نہیں ہیں ، اسے ہٹانے کے لیے کیموتھراپی کا انتظام کرنا ہے۔ ایسا علاج کرنا ہے کہ جسم بھی بچا رہے اور بیماری بھی ختم ہو، لیکن ہم بھول گئے کہ یہ کینسر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہندوستان میں مسلمانوں کو کینسر کے طور پر بیان کر رہے ہیں، سنگھ نے کہا، ’میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ تو میں آپ کو صرف ایک مثال دے رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے انہیں کینسر کہا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ” مسلمانوں کے پاس امت کا تصور ہے، ان کے پاس قوم کا تصور نہیں ہے اور اس لیے ان کے پاس قوم پرستی کا تصور نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پوری دنیا کو ایک مذہب ہونا چاہیے۔
یہ بیان یقینی طور پر فرقہ پرستی پر مبنی ہے ، نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دینے والا ہے ، وشو ہندو پریشد کے کارگزار صدر نے تبلیغی جماعت کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر حکومت سے پابندی لگانے کی مانگ کردی ہے ، پچھلے دنوں بھی وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور دوسری تنظیموں کے ذمہ داران مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرچکے ہیں ، دن رات فرقہ پرستی پر مبنی بیان دیاہے ، دوسری اور تیسری لائن کے لیڈرس تو دن رات یہی بیان دیتے ہیں ، سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں بہار کے ایک بی جے پی ایم ایل اے کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے ، مسلمانوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ ایسے بیانات کی لمبی فہرست ہے ۔
ماب لنچنگ کے واقعات لگاتار بڑھتے جارہے ہیں ، روزانہ ملک میں کہیں نہ کہیں مسلمان ، دلت ، عیسائی اور دوسرے کمزوروں کی ماب لنچنگ ہورہی ہے ، چن چن کر کے نشانہ بنایا جارہا ہے ، پولس اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہی ہے ۔ ماب لنچنگ میں ملوث شرپسندوں کے خلاف کاروائی نہیں کررہی ہے ، حکومت میں بیٹھے افراد ایسے شرپسندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے گذشتہ سال ماب لنچنگ کے خلاف قانون بنانے کیلئے سرکار کو ہدایت دی تھی لیکن ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ ماب لنچنگ کے خلاف قانون بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہ سرکار ایسے واقعات کو روکنے کے تئیں ذرہ برابر سنجیدہ ہے ۔
سوال یہ ہے کہ عدلیہ ایسے نفرت انگیز بیانات کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لے رہی ہے ؟ زہر افشانی کرنے والوں پر لگام کیوں نہیں لگایا جارہا ہے ؟ نفرت کی سیاست کرنے والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جارہی ہے ؟ ملک کا ماحول بگاڑنے والوں کو کھلی چھوٹ کیوں ہے ؟ پولس اپنی ذمہ داری کیوں نہیں نبھارہی ہے ؟ سیاست داں اور سیاسی رہنما بے لگام کیوں ہوچکے ہیں ؟ ایسے شرپسندوں لیڈروں کی پشت پناہی کون کررہا ہے ؟ حکومت سپریم کو رٹ کی ہدایات کو کس بنیاد پر نظر انداز کررہی ہے ؟ ماب لنچنگ کے خلاف کیوں حکومت قانون بنانے سے گریز کررہی ہے؟ کیا اتر پردیش الیکشن کا ایجنڈا نفرت اور سیاست ہوگا؟ ۔ کیا پورے ملک کو انتخاب جیتنے کیلئے نفرت کی آندھی میں جھونک دیا جائے گا۔ کیا عوام کو ہندومسلمان کے درمیان اسی طرح بانٹا جائے گا ۔ کیا فرقہ پرستی کی سیاست اسی طرح جاری رہے گی ۔ ملک میں یہ جو کچھ بھی ہورہاہے واضح طور پر فرقہ پرستی ، نفرت اور ملک کی روایت کے خلاف ہے ۔ ایسے واقعات کو روکنا ، شرپسندوں کو لگام لگانا ، سیاسی رہنماؤں کی زہر افشانی کے خلاف نوٹس لینا وقت کی ضرورت ہے ورنہ ملک انارکی کا شکار ہوجائے گا ،ہجومی تشدد کے واقعات بڑھنے لگیں گے ، اتحاد ویکجہتی کو نقصان پہونچے گا ۔ عین چناؤ سے قبل اس طرح کے واقعات میں اضافہ کا مقصد یہ بھی ہے کہ عوام ان سے خوف زدہ ہوجائیں ، صاف شفاف الیکشن نہ ہو پائے ، ووٹ ڈالتے وقت عوام کے دلوں میں خوف و ہراس قائم رہے ۔
بہر حال عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ کی نزاکت اور حساسیت کو سمجھے ، ایسے معاملات پر از خود نوٹس لے اور ملک میں شر انگیزی اور نفرت کے بڑھتے ہوئے واقعات پر روک لگانے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھائے ۔ انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کو فروغ دے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)