پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی
مشرق وسطی میں قتل وغارت گری اور دہشت گردی کا سلسلہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے،دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ،داعش کے وجود پذیر ہونے کے بعد پورا عالم اسلام نشانے پرآگیا ہے ،بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے ساتھ دہشت گردی کا فروغ مذہب اسلام کا جز بنادیاگیا ہے ۔2013 میں منظر عام پر آنے والی داعش کا دائرہ کا ربھی بڑھتاجارہاہے ،امریکہ کا دعوی ہے کہ چالیس ممالک کی فوجیں براہ راست داعش کے خلاف برسر پیکار ہے لیکن نتیجہ صفر ہے ،داعش کے وجود نے بہت سارے سوالات کو جنم دیاہے اور یہ بات بدرجہ اتم ثابت ہوچکی ہے کہ داعش کی باگ دوڑ کسی کے ہاتھوں میں ہے،کون اس کی قیادت کررہی ہے ،کہاں داعش کے جنگجوؤں کو تربیت دی گئی ہے ،داعش کے پاس جدید ترین ہتھیار ہے ،ان کے پاس جنگ کے تمام اسباب ہیں ،بیش قیمت اور نئی گاڑیاں ہیں ،لیکن ان سوالوں کا کوئی بھی تشفی بخش جواب نہیں دے رہاہے کہ ان پاس یہ ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں ،مشرق وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والوں کا مانناہے کہ داعش امریکہ کی پیداوارہے ،وہیں سے اس کی سرپرستی ہورہی ہے ،اسی کے زیر نگرانی داعش کو جنگی آلات فراہم کرائے جارہے ہیں اور مشرق وسطی پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے یہ سب کھیل کھیلا جارہاہے ،یہ بات سچ کی قریب معلوم ہوتی ہے کہ کیوں کہ داعش کا بظاہر دعوی ہے عراق وشام میں اسلامی ریاست کے قیام کا ،ابوبکر بغدادی کو خود کو خلیفہ کہتاہے کہ لیکن اس کا تمام کام اسلام مخالف اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے والا ہے ،داعش نے آج تک اسرائیل پرحملہ نہیں کیا ہے ،فلسطین کی حمایت کے تئیں داعش خاموش ہے ،حقیقت یہ ہے کہ داعش کی سرگری اسرائیل کو مزید تحفظ فراہم کررہی ہے اور چند عرب ممالک جہاں سے اسرائیل کو خطرات لاحق تھے وہ تمام اب ٹل گئے ہیں، ایک تجزیہ نگار کے مطابق اسرائیل کو اپنے تین ہمسایہ عرب ممالک سے خطرہ تھا،مشرق کی جانب عراق؍ مغرب کی جانب شام اور جنوب مغرب میں واقع مصرہے۔ آج عراق اور شام دونوں تباہ حال ہیں۔ مصر کی حالت بھی نیمے دروں نیمے بروں والی ہے یعنی کہ متذبذب ہے۔ پاکستان کی طرح مصر کی دال روٹی بھی آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہی ہے۔ پچھلے ماہ سکیورٹی کونسل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم ہونے کے خلاف ریزولیوشن کی تیاری ہو رہی تھی،اسپانسر کرنے والے ممالک میں مصر بھی شامل تھا اور پھر نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل سیسی کو فون کیا مصر پیچھے ہٹ گیا، ریزولیوشن کو اسپانسر کرنے والے چار ممالک میں سے ایک بھی عرب ملک نہیں تھا۔ عرب دنیا آج بہت کمزور ہے۔(روزنامہ دنیا کے کالم نگار جاوید حفیظ کے مضمون سے ماخوذ )
دوسری طرف تیونس ،لیبیا ،ترکی اور سعودی سمیت تمام مسلم ملکوں میں بھی داعش کے سرگرمی بڑھتی جارہی ہے ،چند ماہ قبل ہندوستان میں بھی داعش سے تعلق رکھنے کے الزا میں بہت سے سارے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیاتھا،حال ہی میں پاکستان کے ایک معروف عالم دین کو اسی الزام کے تحت گرفتار کرلیا گیاہے ۔جی 20 کے اجلاس میں روسی صدر پیوٹن نے کہاتھا میں جانتاہوں ان ممالک کوجو داعش کی سرپرستی کررہے ہیں ،اس سے تیل خرید رہے اور دولت وثروت کے حصول کے لئے داعش کا استعمال کررہے ہیں،گذشتہ دنوں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے بھی انقرہ میں پالیمنٹ سے خطاب کے دوران اس حقیقت کا انکشاف کیاتھاکہ داعش کی پشت پناہی امریکہ کررہاہے ،میرے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں ،ویڈیوز ہیں ۔
یہ سوال ہرجگہ زیر بحث ہے کہ داعش کو ہتھیار کہاں سے فراہم ہورہے ہیں،امریکی تجزیہ نگار وں کے مطابق داعش کے پس پردہ عرب ممالک اور ترکی ہے ،داعش کو ہتھیار عرب ممالک جیسے سعودی عرب ،قطر ،کویت ،متحدہ عرب امارات اور ترکی سے مل رہے ہیں،لیکن یہ تجزیہ سرے غلط ،بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے کیوں کہ ان ممالک کے پاس اگر اتنی طاقت اور قوت ہوتی،انہیں یہ اختیار ہوتاکہ اپنے ملک سے ہتھیار کسی دوسری جگہ منتقل کرسکے ،ہتھیاروں کے ذریعہ کسی کا تعاون کرسکے تو پہلی فرصت میں یہ ممالک فلسطین کی مددکرتے اور وہاں ہتھیار پہونچاتے کیوں کہ فلسطین پر قابض ہونے کے بعد وہاں کے کچھ بچے ہوئے علاقوں پر بھی یہودی آبادکاری کی کوششیں جاری ہیں ،فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اسرائیل نے جہنم بنارکھی ہے ،لیکن ان سب کے باوجود فلسطینی مسلمانوں کے حوصلے بیحد بلند ہیں اور بغیر ہتھار کے محض پتھروں کے ساتھ وہ گذشتہ ستر سالوں سے اسرائیل کا مقابلہ کرتے ہوئے آرہے ہیں ،انہیں کمی صرف ہتھیاروں کی ہے اگر آج بھی انہیں ہتھیار فراہم ہوجائے تووہ اسرائیل کو اس اوقات بتادیں گے ۔لیکن عرب ممالک کا المیہ یہ ہے کہ وہ مالی مد د تو خوب کرتے ہیں ،ضروریات زندگی ،اناج اور ادویہ وغیرہ ضرور پہونچاتے ہیں لیکن ہتھیار وں کے ذریعہ تعاون کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اور نہ وہ کسی کو اسلحہ دینے کی حیثیت رکھتے ہیں،دفاعی سطح پر وہ سب سے زیادہ ناکام ہیں، خود اپنی حفاظت کیلئے وہ دوسروں کے محتاج ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ امریکہ نے لیبا سے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے کیلئے نیٹو فوج کا استعمال کیاتھا،افغانستان کو نیٹو افواج کے ذریعہ تباہ وبرباد کیا تھا،عراق میں دس لاکھ بے گناہوں کا قتل کیاتھا،پاکستان میں بھی ڈرون حملوں کے ذریعہ بے گناہوں کو ماراگیا لیکن داعش کے خلاف امریکہ کیوں جارحانہ قدم نہیں اٹھارہاہے ،کیوں نیٹو کا استعمال کرکے داعش کا خاتمہ نہیں کررہاہے ،کس وجہ سے ابوبکر بغدادی اب تک زندہ ہے ،کیوں وہاں امریکی ڈرون حملے نہیں ہورے ہیں۔
امریکہ نے اب تک صرف مسائل پیدا کئے ہیں ،مسلمانوں کو آپس میں الجھانے کا کام کیاہے،مسلم ملکوں کمزور کرنے کی کوششیں کی ہیں،آج تک اس نے مسلمانوں کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا ہے اسلئے یہ ذمہ داری مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم حکمراں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پہلی فرصت میں داعش کا صفایاکریں اور داعش کے نام پر عراق وشام کو تباہ ہونے بچائیں ساتھ ہی اسے بیرونی تسلط بھی آزاد رکھیں ورنہ مشرق وسطی کے دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں آجائیں گے ۔حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف مسلم افواج کا جو اتحاد بنایاگیا ہے اسے اس مشن کو پورا کیا جاسکتاہے ،سعودی عرب کی قیادت میں متحدہ مسلم افواج کا کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف کو بنایاگیا ہے جوپاکستان کے ایک کامیاب ترین آرمی چیف گزر ے ہیں اورانہیں بلوچستان سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ضرب عضب آپریشن کے ذریعہ کم کرنے کا کریڈٹ دیا جاتاہے۔داعش سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسلمانوں کو نقصان پہونچنے کے علاوہ کوئی فائدہ ہوسکتاہے اس کے باجود یورپ کے مفکرین کے ساتھ کچھ مسلم دانشوران بھی یہ مانتے ہیں کہ داعش کے پس پردہ عرب ممالک ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اس تعلق سے ہمدردی پائی جاتی ہے،مغربی مفکرین اور بعض مسلم دانشواران کو یہ رائم قائم کرنے دینے کیلئے کسی حدتک ذمہ دار وہ علماء اور دانشواران بھی ہیں جنہوں نے شروع میں داعش کو مسلمانوں کی ہمدرد تنظیم قراردیا اور ابوبکر بغدادی کو امیر المومنین کے لقب سے نوازکر انہیں خط لکھنے کاعظیم فریضہ انجام دیا۔
stqasmi@gmail.com