تہران (ملت ٹائمز؍ سنی آن لائن) : ممتاز عالم دین شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی یاد میں منگل سترہ جنوری کو دارالعلوم زاہدان کے احاطے میں واقع جامع مسجد مکی میں ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد ہوگیا۔
اہل سنت ایران کی آفیشل ویب (sunnionline.us) کے نامہ نگاروں کے مطابق، دارالعلوم زاہدان کے طلبا و اساتذہ سمیت شہر کے بعض دیگر مدارس کے اساتذہ و طلبا بھی اس پروقار تقریب میں شریک ہوئے۔
دارالعلوم زاہدان ایران میں اہل سنت برادری کا سب سے بڑا دینی ادارہ ہے جس کے ساتھ جامع مسجد مکی واقع ہے جواہل سنت کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے متعدد تلامذہ اس جامعہ کے علاوہ ایران کے طول و عرض میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند رکهی ہیں۔
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے ایک وفد کی صدارت کرتے ہوئے تقریبا دس سال پہلے حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ نے بعض دیگر علمائے کرام کے ساتھ دارالعلوم زاہدان کا دورہ کیا جہاں قریب سے اس عظیم دینی ادارے کی خدمات سے واقفیت حاصل کی۔
مفتی قاسمی: مولانا سلیم اللہ خانؒ کی زندگی علمائے کرام کے لیے مثالی ہے
دارالعلوم زاہدان کے سینئر استاذ الحدیث و صدر دارالافتا مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی نے مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ کو 1974ءسے جانتاہوں اور ان کی شخصیت سے واقف ہوں۔ مولانا محمدرفیع عثمانی، مولانا مفتی محمدتقی عثمانی حفظہمااللہ اور مولانا شمس الحق رحمہ اللہ نے براہ راست ان سے پڑھا ہے۔ دارالعلوم کراچی میںمولانا سلیم اللہ خان ؒ کا ذکرخیر ہمیشہ زبانوں پر تھا۔
انہوں نے مزید کہا: مولانا سلیم اللہ خان نے ابتدائی تعلیم مولانا مسیح اللہ خان کے پاس حاصل کی جو مولانا اشرفعلی تھانوی رحمہم اللہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ سنن ترمذی کو مولانا حسین احمد مدنی کے پاس پڑھی اور ہمیشہ ان کی نسبت پر فخر کرتے تھے، خود کو ان کے ممنون سمجھتے تھے۔
ایڈیٹر مجلہ ’ندائے اسلام‘ نے مولانا حسین احمد مدنی کی بعض صفات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ مزاحمت، سخاوت، عزیمت، حمیت، بہادری، علم اور تقویٰ جیسی بہترین صفات کے حامل تھے جن کی وجہ سے دیگر علما سے ممتاز ہوچکے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے عزیمت اور حمیت کو مولانا مدنی کا طرہ امتیاز بیان فرمایا ہے۔
مفتی قاسمی نے مزید کہا: عزیمت و حمیت جن کا مطلب ہے دین کے اعلی درجے پر عمل کرنا اور معاشرے کے حالات کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس رکھنا، مولانا مدنی کے تلامذہ و متعلقین میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان کو بھی ان دو صفتوں نے ممتاز رکھی تھی۔
انہوں نے کہا: مولانا سلیم اللہ خان تمام گروہوں اور محافل کے لیے قابل احترام اور مقبول تھے۔مولانا کی میانہ روی، اخلاص، تزکیہ اور تواضع نے دوسروں کو مجبور کیا تھا انہیں مان لیں۔ اللہ تعالی نے انہیں بہت بڑی پختگی عطا کی تھی۔
’لوگوں سے ربط و تعلق‘ کو مولانا سلیم اللہ خان کی دیگر خصوصیت یاد کرتے ہوئے مولانا قاسمی نے کہا: مولانا سلیم اللہ خانؒ اپنے معاشرے کے تمام طبقوں اور لوگوں سے تعلق رکھتے تھے۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک دنیا میں ہو جہاں ان کا فیض شاگردوں کے ذریعے براہ راست یا بالواسطہ نہ پہنچا ہو۔ آپؒ کی زندگی دین کے لیے وقف تھی۔ آپ علما کو نصیحت فرماتے تھے کہ اپنے بچوں کو عالم بنائیں۔ مولانا سلیم اللہ خان کی پوری زندگی اہل علم و علما کے لیے ایک نمونہ ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید: مولانا سلیم اللہ خان کا سانحہ ارتحال، علما اور علمی مراکز کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے
مولانا سلیم اللہ خان ؒ کی یاد میں منعقدہ تقریب کے آخر میں صدر دارالعلوم زاہدان، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حاضرین سے خطاب کیا۔ اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین اور دینی و سماجی پیشوا نے مولانا سلیم اللہ خان کو ’ شیخ الفقہ و الحدیث‘، ’محقق‘ اور ’ممتاز علمی شخصیت‘ یاد کی جن کا سانحہ ارتحال علما اور علمی مراکز کے لیے ’ناقابل تلافی نقصان‘ ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مولانا سلیم اللہ خان ؒ کے علمی مقام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جس وقت ہم پاکستان میں تعلیم حاصل کررہے تھے، کراچی میں چار بڑی شخصیات دین کی خدمت میں مصروف تھیں؛ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ جن کی تفسیر معارف القرآن ان کے اونچے مقام کی گواہی کے لیے کافی ہے۔ علامہ محمدیوسف بنوری، مولانا رشید احمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان رحمہم اللہ اس فہرست کی دیگر شخصیات ہیں۔ پاکستان میں خاص کر کراچی کے عوام میں انہیں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔
انہوں نے مزید کہا: مولانا سلیم اللہ خان کا تقویٰ بہت زیادہ تھا اور آپ ایک سنجیدہ محقق تھے۔ ان کی ہمت بھی بڑی اور قابل تقلید تھی جو جسمانی ضعف کے باجود ویلچیئر پر بیٹھ کر وفاق المدارس کے ہزاروں مدارس کا دورہ کرتے اور ان کے حالات پر کنٹرول رکھتے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے علمائے دیوبند کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: دارالعلوم دیوبند کی تاسیس کے بعد دنیا میں ایک علمی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور اس علمی مرکز سے ہزاروں عابد و زاہد علما کی تربیت ہوئی جن کی مثال دنیا کے دیگر گوشوں میں بہت کم ملتی ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: علمائے دیوبند محض درس وتدریس اور مطالعہ و عبادتوں سے اس اعلی مقام پر فائز نہیں ہوئے، بلکہ انگریز سامراجیوں اور جابر قوتوں کے سامنے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنا اور مسائل اور ناگوار حالات کے سامنے استقامت دکھانے نے انہیں اس مقام پر پہنچایا۔ شریعت اسلام کو مٹانے کی انگریزی سازش کو علمائے دیوبند ہی نے ناکام بنادی۔
حضرت شیخ الاسلام نے کہا: جس ملک اور معاشرے میں ایسے حالات پیدا ہوں، اگر وہاں صبر کا مظاہرہ کیا جائے اور دین کے مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی جائے، اس معاشرے کے افراد اللہ تعالی تک پہنچیں گے۔ بندگی، سحرخیزی اور سنت پر عمل کرنا شرط ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کو حقانی علما کی حیات سے سبق لینا چاہیے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے ممتاز عالم دین مولانا عبدالحفیظ مکی کے سانحہ ارتحال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ذاکر، عابد اور متبع شریعت‘ عالم دین یاد کیا اور تمام مرحوم علمائے کرام کے لیے مغفرت اور علودرجات کی دعا کی۔