کیف عظیم آبادی کی ۲۳ویں برسی پر خصوصی مضمون
کامران غنی صبا، پٹنہ
شعر کی تعریف کرتے ہوئے فروسٹ نے کہا تھا کہ جذبات کو تصور اور تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ مذکورہ بیان کی روشنی میں جب ہم کیف عظیم آبادی کے شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیف کی شاعری سیدھے، سچے اور حقیقی جذبات کی شاعری ہے۔ان کے تصورات اور جذبات اتنے فطری ہیں کہ اُن کے کلام میں کہیں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔میں نے کیف صاحب کو نہ کبھی مشاعرہ میں سنا اور نہ کبھی یوں ہی کوئی ملاقات ہوئی۔ ہوئی بھی ہوگی تو مجھے یاد نہیں لیکن جن لوگوں نے کیف صاحب کو قریب سے دیکھا ہے وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیف صاحب جتنے اچھے شاعر تھے اتنے ہی اچھے اور سچے انسان بھی تھے۔ اُن کی شخصیت میں آج کے شعراء کی طرح کوئی تضاد نہیں تھا۔ وہ جس سے ملتے خلوص سے ملتے۔ اپنا دکھ درد بیان کرتے اور دوسروں کے دکھ درد کو سمیٹنے کی کوشش کرتے۔ اُن کی شخصیت کا یہی پہلو ہمیں ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ آج کے شاعروں کی طرح ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سماج کے دبے کچلے اور ٹھکرائے ہوئے طبقے سے اظہار ہمدردی نہیں کرتے بلکہ وہ خود اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جسے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حاشیہ پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔کیفؔ کے کلام میں اس استحصال زدہ طبقے کا کرب اور نفسیات دونوں موجود ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں
راہ چلتے ہوئے شوکیس کو دیکھا نہ کرو
کرب ہی کرب لیے لوٹ کے گھر جاؤ گے
۔۔۔۔۔
تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نا کرو
تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔
رات ہوتی ہے میری پلکوں پر
کچھ دئیے آنسوؤں کے جلتے ہیں
۔۔۔۔۔
کس کرب سے لکھا ہے پردیس سے خط اُس نے
یہ مفت کا تحفہ ہے، بچوں کو دعا کہنا
۔۔۔۔۔
اس نوعیت کے بے شمار اشعار کیف کے ہاں بآسانی مل سکتے ہیں۔شاعر کبھی جگ بیتی کو آپ بیتی بنا کر پیش کرتا ہے اور کبھی آپ بیتی کو جگ بیتی۔ وہ چاہتا تو اپنے ضمیر کا سودا کر سکتا تھا۔جھوٹ کے بازار میں اپنے قلم اور فن کی حرمت کو بیچ کر ارباب اقتدار کی قربت حاصل کر سکتا تھا۔ لیکن اُس کی خود داری نے یہ گوارا نہ کیاکہ وہ دستِ طلب دراز کرے
ائے جذبۂ خود داری جھکنے نہ دیا تونے
لکھنے کے لیے ورنہ سونے کے قلم آتے
کہا جاتا ہے کہ شاعر سماج کا سب سے حساس فرد ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ شاعر کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ’وصل‘ کے بدلے ’ جدائی‘، سکون کے بدلے اضطراب، بادشاہی کے بدلے گدائی ، پیاس کے بدلے تشنگی اورشہرت و ناموری کے بدلے گمنامی کی زندگی کو ترجیح دینے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ شاعر کی یہی انا اس کے فن کو معراج عطا کرتی ہے۔ کیف عظیم آبادی کے فن کی عظمت کا راز ان کی یہی انا و خود داری ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ائے جذبۂ خود داری جھکنے نہ دیا تونے
لکھنے کے لیے ورنہ سونے کے قلم آتے
۔۔۔۔۔۔
میں سمندر سے پیاسا لوٹ آیا
جاگ اٹھی تھی مری انا مجھ میں
۔۔۔۔۔۔
کیف کی شاعری کا اختصاص ان کا سیدھا ساداا نداز ہے۔ کیف کی شاعری کو جس زمانہ میں عروج حاصل ہوا وہ جدیدیت کا دور تھا ۔ جدیدیت کے نام پر ’چائے کی کپ میں تنہائی ڈبونا‘،’درد کی زنجیر چبانا‘،’مرغے کی چونچ میں سورج کا ہونا‘جیسی تراکیب اور علامتوں کا استعمال شعرا کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔کیفؔ نے جدیدیت کے اثرات کو اسی حد تک قبول کیا کہ شاعری کی تفہیم کے لیے قارئین کو در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ ان کے ہاں جدید رنگ کے بھی اشعار ملتے ہیں لیکن ان اشعار کو انہوں نے چیستاں ہونے سے بچالیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ہر شاخ چیخ چیخ کے خاموش ہو گئی
موسم کی سیڑھیوں سے جو پتہ اتر گیا
۔۔۔۔۔۔
راہ چلتے ہوئے شو کیس کو دیکھا نہ کرو
کرب ہی کرب لیے لوٹ کے گھر جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کے دروازے پر کون یہ دستک دیتا ہے
چاند بھی چونکا، ہم بھی چونکے، چونک اٹھی تنہائی بھی
۔۔۔۔۔۔۔
کیف عظیم آبادی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں کسی خوب صورت دوشیزہ کی طرح اہل نظر کے ذوق جمالیات کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔مشاعروں میں کیف کی مقبولیت کی سب سے اہم وجہ ان کا یہی رنگ تغزل ہے۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
میرے ہونٹوں کو میسر ہے ترے ہونٹ کا لمس
میری سانسیں بھی مہکتی ہیں گلابوں کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرا خیال ہم کو جگائے گا آکے جب
زانوئے آرزو پہ سلا دگے گی چاندنی
۔۔۔۔۔۔
وہیں چوڑیوں کی تھیں کرچیاں، وہیں تھا گھروندا بنا ہوا
مرا نام تھا جہاں ریت پر تری انگلیوں سے لکھا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی پھول مجھ میں کھلا گیا ، ترا قرب یاد جو آ گیا
مرے گھر میں آج مہک اٹھے وہی پھر گلاب کے سلسلے
کیفؔ عظیم آبادی کو ان کی زندگی میں وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کی پوری زندگی تنگ دستی کے عالم میں گزری۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں انہوں نے کئی غیر ملکی اسفار کیے۔ کئی بڑے مشاعروں میں شرکت بھی کی لیکن ان کی وفات کے بعد انہیں پھر سے فراموش کر دیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں سے کیفؔ مرحوم کی لائق و فائق دختر ڈاکٹر زرنگار یاسمین اور کیف میموریل ٹرسٹ کے چیئرمین آصف نواز کی کوششوں سے اس عظیم شاعر کو یاد کرنے کی روایت شروع ہوئی ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکرٹیریٹ نے بھی کیف عظیم آبادی پر ہر سال سمینار کرانے کا اعلان کیا ہے۔خدا کرے کہ ان کاوشوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں اور بہار کے اس عظیم المرتبت شاعر کو پس مرگ ہی سہی اُس کا جائز حق حاصل ہو۔(ملت ٹائمز)