ظلم کو روکنے کیلئے مزاحمت ضروری! شاہین باغ نے ایک مرتبہ پھر راستہ دکھایا ہے

شمس تبریز قاسمی

شاہین باغ نے ایک مرتبہ پھر پورے ملک کو ، مسلمانوں کو اور مظلوم طقبات کو حوصلہ دیا ہے ، ہمت دی ہے ، مزاحمت کا راستہ دکھایا ہے اور بتایا ہے کہ ہندوستان میں ظلم کے بڑھتے سلسلہ کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے احتجاج ۔ جہانگیر پوری کی طرح شاہین باغ میں بھی ایم سی ڈی کا بلڈوز نو مئی کو پہونچ گیا تھا ، ایم سی ڈی کے تمام اعلی افسران موجود تھے ، بڑی تعداد میں پولس اور فوج تعینات تھی لیکن عوام اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئی ، بلڈوز کے سامنے کھڑے ہوگئے ، خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دوسال قبل خواتین نے جس طرح مورچہ سنبھال لیا تھا اس مرتبہ بھی ایسے منظر کا لوگوں نے مشاہدہ کیااور اس طرح شاہین باغ کی عوام کے سامنے ایم سی ڈی کو جھکنا پڑا ، بلڈوزر کو واپس جانا پڑا عوام کی بیداری اور مزاحمت نے بی جے پی کے منصوبہ کو ناکام بنادیا لیکن یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسی نہیں ہے، مسلمانوں کے گھر وں پر چلنے والے بلڈوز ر کو روکنے کیلئے کانگریس کے راہل گاندھی ، عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال، سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو ، بی ایس پی کی مایاوتی، راشٹریہ جنتال کے تیجسوی یادو یا دوسرے رہنما آنے والے نہیں ہیں ، نہ ہی صف اول کے مسلم سیاسی رہنما اور ملی قائدین ایسے موقع پر آپ کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے خواہ وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی ہوں، یو ڈی ایف کے صدر مولانا بدر الدین اجمل ہوں، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ہوں ، یا مولانا محمود مدنی ہوں، یا آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامدہوں بلکہ آپ کو خود ظلم کو روکنا ہوگا ، آپ کو خود اپنا دفاع کرنا پڑے گا کوئی اور آپ کا بچاؤ کرنے ، آپ کا ساتھ دینے اور آپ کی لڑائی لڑنے سڑکوں پر نہیں آئے گا ۔ ہاں اس موقع پر علاقائی لیڈروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتاہے جس میں سے کئی ایک کے کردار کو سراہا جارہاہے ۔ نوجوان خاتون صحافی عصمت آرا نے ٹویٹ کیا کہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان اور کانگریس رہنما پرویز عالم نے مضبوط اپوزیشن کا کردار نبھایا اس کے علاوہ ایک اور کانگریس لیڈر ہدایت اللہ جینٹل ، عارفہ خانم ، ایمن رضوی اوردوسرے سماجی کارکنان بھی بلاخوف بلڈوز کے خلاف پرزور اور موثر احتجاج کرتے نظر آئے ۔ ایم آئی ایم دہلی کے صدر کلیم الحفیظ ، کانگریس اقلیتی امور کے چیرمین عمران پرتاب گڑھی اور دوسری پارٹی کے علاقائی رہنما بھی موجود تھے ۔ گذشتہ دنوں جب جہانگیر پوری میں بلڈوز کی کاروائی شروع ہوئی تھی تو میں نے ایک تحریر لکھی تھی اس کا کچھ حصہ یہاں پیش ہے۔

کشمیر سے شروع ہونے والا بلڈوز اتر پردیش ،آسام ، مدھیہ پردیش ، گجرات اور ہریانہ کے بعد آج بھارت کی راجدھانی دہلی میں بھی چلا ۔ مذکورہ ریاستوں کے ساتھ دہلی میں مسلمانوں کی دکانوں کو منہدم کردیا گیا ، مسجد کے دروازے کو توڑ دیا گیا ، املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔ خبر یہ نہیں ہے کہ دہلی کے جہانگیرپوری میں ایم سی ڈی نے غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر بلڈوز ر چلایا بلکہ خبر یہ ہے کہ اس خبر کی سبھی کو خبر تھی ۔ پوری رات ٹویٹر ، فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایم سی ڈی کا آڈر نامہ گردش کرتا رہا۔ ٹویٹر پر مستقل نمبر ون ٹرینڈ چل رہاتھاکہ مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا بند کرو ۔ جہانگیر پوری کے بے بس عوام کو امید تھی کہ جب ایم سی ڈی کا بلڈوزر یہاں آئے گا تواس سے پہلے کانگریس رہنما راہل گاندھی یہاں پہونچ جائیں گے ، پرینکا گاندھی یہیں موجود رہیں گی ، سماجو ادی ، آر جے ڈی اور دوسری سیکولر پارٹیوں کے اہم رہنما بلڈوز ر کے آگے آکر کھڑے ہوجائیں گے ۔ شب وروز مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرنے والے برادران وطن یہاں آکر غریب مسلمانوں کی حفاظت کریں گے اور حکومت کے ظلم وستم سے نجات دلائیں گے ۔ ملی اور مذہبی رہنما اس ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں گے ، دلت لیڈر اور اوبی سی لیڈر بھی یہاں آکھڑے ہوں گے اور دلت مسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ ہوگا ۔ کم ازکم دہلی کے چیف منسٹر او ران کی پارٹی کے ممبران اسمبلی اس ظلم کور وکنے کیلئے گراؤنڈ پر ضرروی تشریف لائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ صبح سویرے پورا علاقہ فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا ، 1600 اہلکار کو تعینات کردیاگیا ، 9 بجے کے قریب بلڈوز ر پہونچ گیا ، دوکانوں کو توڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن کوئی وہاں نہیں پہونچا ۔کسی نے بلڈوزر روکنے کی اپیل نہیں کی ۔ برادران وطن کی ہمدر دی ، ہندو مسلم یکجہتی ، اپوزیشن پارٹیوں کی حمایت اور ملی رہنماؤں کی حمیت وغیرت وہاں نظر نہیں آئی ۔ کچھ تنظیموں ، سیاسی پارٹیوں اور وکیلوں کی انفرادی کوششوں کی وجہ سے سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کاروائی پر اسٹے لگادیا لیکن اس کے باوجود انہدام کا سلسلہ جاری رہا تب جاکر سی پی ایم لیڈر براندا کرات نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے روکنے پر مجبورکیا اور بلڈوزر کی کاروائی رک گئی لیکن اتنی دیر میں مقصد پورا ہوچکا تھا ۔ بلڈوزر کے مشن تکمیل بھی ہوچکی تھی ، میسج جا چکا تھا کہ اکثریتی طبقہ کے ہر ظلم کو برداشت کرنا ہے ، مکمل طور پر تختہ مشق بن جانا ہے ، ان کے ٹانڈو اور غنڈی گردی کے درمیان حائل نہیں ہونا ہے ، اگر آپ کی ایک گال پر طمانچہ مارا جاتا ہے تو دوسرا بھی پیش کردینا ہے ورنہ آپ کا گھر منہدم کردیا جائے گا، آپ کی املاک ضبط کرلی جائے گی خواہ آسام کا معاملہ ہو یا پھر راجدھانی دہلی کا ۔ کہیں بھی مسلمانوں کو آنکھ اٹھاکر جینے کی اجازت نہیں ہے ۔

ملت ٹائمز سمیت تقریبا سبھی ایماندار میڈیا ہاؤسز کی رپورٹ اور فیکٹ فائنڈینگ میں یہی بات سامنے آئی ہے کہ 16 اپریل کو جہانگیرپوری میں دو مرتبہ ہنومان جینتی کا جلوس گزر چکا تھا ، تیسری مرتبہ جب گزررہاتھا تو وقت شام کے چھ بجے کا تھا یعنی افطار کا وقت تھا ۔جلوس میں شامل افراد نے مسجد کے پاس اشتعال انگیز نعرے لگائے ، مسجد کے دروازہ پر بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی جس سے مسلمانوں نے روکا لیکن اس نے مانا نہیں ،باربار مسجد پر جھنڈا لگانے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے کامیاب نہیں ہونے دیا اس کے بعد جلوس نے مسجد پر پتھراؤ کردیا جس کے بعد مسلمانوں نے بھی اپنا دفاع کیا ۔ لیکن مین اسٹریم میڈیا نے جلوس کی غنڈہ گردی کو چھپاکر مسلمانوں پرہی پتھراؤ کرنے کا الزام عائد کردیا ، پولس نے فوری طور پر گرفتار شروع کردی ، پہلے چودہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا ،بعد میں یہ سلسلہ جاری رہا ہے ۔ دوسری طرف پولس نے اکثریتی طبقہ کے کسی بھی ایک فرد کو گرفتار نہیں کیا ۔ نیوز ایجنسی اے این آئی نے گرفتاری کی خبر جاری کی لیکن کچھ ہی دیر بعد غلط اطلاع قرار دیکر اسے ڈیلیٹ کردیا گیا ۔ بغیر اجازت کے جلوس نکالنے پرصرف ایف آئی آر درج ہوئی ۔ مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ مسلمانوں کے گھرو ں پر حکومت نے بلڈوز چلانے کا فیصلہ کیا ۔ ایم سی ڈی غیر قانونی قبضہ خالی کرانے کے نام پر مسلمانوں کی دکانو ں اور مکانوں کو منہدم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ،پولس محکمہ کو خط لکھ کر 19 اپریل کو 400 پولس کی تعینانی کا مطالبہ کیا ۔ انہدام کی کاروائی سے چند گھنٹہ پہلے یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ تقریباً رات کے بارہ بجے کے بعد ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا کہ مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا بند کرو لیکن کوئی بھی جہانگیر پوری میں نہیں پہونچا اور ایم سی ڈی کے بلڈوز نے 100 سے زیادہ دکانوں اور گھروں کو زمیں بوس کردیا ، مسجد کے چبوترہ کو بھی توڑدیاگیا ، مسجد کی دکانوں پر بھی بلڈوز چلا دیا گیا جبکہ کچھ ہی دوری کے فاصلہ پر مندر کے تجاوزات پر بلڈوز نہیں چلایا گیا ، ایم سی ڈی کے افسران نے وضاحت دی کہ جب بلڈوز مندر کی طرف جارہاتھا تب ہی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مطلع کرنے سی پی ایم رہنما براندا کرات آگئیں حالا ں کہ مسجد پر بھی بلڈوز سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد چلایا گیا تھا، وہاں موجود صحافیوں، سماجی کارکنا ن اور دوسرے لوگوں نے باربار کہاکہ فیصلہ آچکا ہے اب آپ بلڈوز نہیں چلا سکتے ہیں لیکن ایم سی ڈی کے افسران کوئی توجہ نہیں دی اور جتنا توڑنا تھا انہوں نے توڑ دیا ، ٹوئٹر پر شدید ہنگامہ کے بعد ایم سی ڈی نے شام کو مندر انتظامیہ سے کہاکہ آپ اپنے تجاوزات کو خود ہٹالیں ۔

ہم بات کررہے تھے شاہین باغ کی۔ جس طرح شاہین باغ میں عوام نے احتجاج کیا اور مزاحمت کا راستہ اپنایا اگر وہی راستہ جہانگیر پوری میں بھی اختیا ر کیا جاتا تو شاید ایم سی ڈی کا بلڈوز غریبوں کی دکانوں پر نہیں چلتا ۔

دہلی میں تقریباً 90 فیصد غیر قانونی قبضہ ہے ، وی آئی پی کالونی ہو یا جگی جھونپڑی کا علاقہ ہر جگہ تجاوزات موجود ہیں ۔ عام لوگوں کے ساتھ بڑے بڑے سیاسی رہنما ، سرکاری افسران اور حکومت کے میں شریک لوگوں نے بھی سڑکوں کو اپنے استعمال میں لے رکھا ہے ۔اگر ایم سی ڈی کا تجاوزات کو ہٹانا ہے تو تمام علاقوں کی نشاندہی ہونی چاہیے ، ہر جگہ اور ہر علاقہ میں بلڈوز چلنا چاہیے لیکن ایم سی ڈی نے پہلے جہانگیر پوری میں بلڈوز چلایا اور اس کے بعد شاہین باغ کا انتخاب کیا ۔جس سے ایم سی ڈی کا ایجنڈا بھی سامنے آگیا کہ ایم سی ڈی بی جے پی لیڈروں اور دوسرے مسلم مخالف نظریہ رکھنے والے گروپ کے دباﺅ میں صرف مسلم محلوں اور علاقوں میں بلڈوز چلاکر خوف وہر اس کا ماحول پیدا کررہی ہے ، مسلمانوں نفسیاتی طور پر خوف کا شکار بنایا جارہا ہے ، مسلمانوں کو ذہنی طور پرالجھن کا شکار بنایا جارہا ہے ۔ ایم سی ڈی نے اب الزامات سے بچنے کیلئے کچھ غیر مسلم علاقوں کو بھی نشان زدکیا ہے اور وہاں تجازات ہٹانے کا اعلان کیاہے تاکہ یہ داغ کسی طرح صاف ہوجائے کہ بلڈوز کا مقصد مذہبی تفریق کے بغیر تجاوزات کو ہٹانا تھا مسلمانو ں کوخوف زدہ کرنا ، ڈرانا اور پریشان کرنا نہیں تھا۔

(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com