برلن(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سربراہ فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ جرمنی میں پناہ دینے کا حق ملکی آئین کا حصہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے تناظر میں بنایا گیا تھا، جو موجودہ حالات میں موزوں نہیں رہا۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمنی کی قدامت پسند اور مہاجرت مخالفت سیاسی پارٹی ’متبادل برائے جرمنی‘ (اے ایف ڈی) کی خاتون رہنما فراؤکے پیٹری کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’پناہ دیے جانے کے حق‘ سے متعلق قانون کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ جب یہ قانون بنایا گیا تھا، اس وقت کی صورتحال مختلف تھی، جو اب یکسر بدل چکی ہے۔ جرمنی کا بنیادی آئین سن 1949 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس آئین کے آرٹیکل سولہ میں واضح طور پر درج ہے کہ ایسے افراد جنہیں اپنے ممالک میں سیاسی بنیادوں پر ظلم و ستم کا سامنا ہو، انہیں جرمنی میں پناہ دی جائے گی۔
فراؤکے پیٹری نے روزنامہ ’ دی سائٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آرٹیکل سولہ اے کی حمایت کرتی ہیں تاہم پناہ دیے جانے کے عمل میں ریاستی سطح پر فیصلہ سازی کی جانا چاہیے نہ کہ سبھی کو پناہ دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کی مدد کی جانا چاہیے لیکن ایسے بہت سے افراد بھی اپنے مہاجر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو دراصل مہاجر ہوتے ہی نہیں۔
فراؤکے پیٹری نے کہا کہ جرمن آئین کو بنانے والے مہاجرین کی بہت کم تعداد کو پناہ دینے کی بات کر رہے تھے، جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد احساس ذمہ داری کے تحت پناہ دینے کا قانون بنایا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی پر لازم نہیں کہ وہ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں اپنے ہاں زیادہ تارکین وطن یا مہاجرین کو پناہ دے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق شامی مہاجرین پر نہیں کیا جا سکتا۔
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
سن دو ہزار پندرہ کے آغاز سے اب تک ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے ہے، جن میں شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی اور حالیہ عرصے کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد نہ صرف جرمن سیاسی پارٹیاں بلکہ کچھ عوامی حلقے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اے ایف ڈی جیسی عوامیت پسند پارٹیاں اس معاملے کو اٹھا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا اپنا قدامت پسند حکومتی اتحاد بھی جرمنی آنے والے نئے مہاجرین کی تعداد کی ایک سالانہ حد کے تعین کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی میں رواں برس موسم خزاں میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات انگیلا میرکل کی پارٹی کے لیے انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ میرکل کا کہنا ہے کہ جرمن آئین میں آرٹیکل سولہ اے ایک ایسی شق ہے، جس سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔