نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
حکومت کی تشکیل ، ملک کی تعمیر اور جمہوریت کے قیام کا بنیادی مقصد ہوتا ہے عوام کو حقوق دینا ، سماج میں مساوات پیدا کرنا ، ہر ایک کو انصاف فراہم کرنا ،شہریوں کی آزادی کو یقینی بنانا۔ اس بنیادی ایجنڈا کو پایہ تکمیل تک پہونچا نے کیلئے ملک میں متعدد شعبے قائم کئے جاتے ہیں ایک کو دوسرے سے جدا رکھا جاتاہے ، ہر ایک کو آزاد بنایا جاتا ہے ، جامع اور لچکدار آئین وضع کئے جاتے ہیں جس میں ہر ایک پہلو کا خیال رکھاجاتاہے ، تمام نزاکتوں کا لحاظ کیا جاتا ہے ، غریب ، مظلوم ، کمزور ، اقلیت سبھی کو یکساں حقوق دینے کی بات ہوتی ہے ۔ آئین میں یہ واضح کیا جاتاہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہوگا ، ہر کوئی قانون کے دائرے میں ہوگا ، کسی کو قانون میں استثنا ءحاصل نہیں ہوگا پھر اس آئین میں تمام انسانوں او رشہریوں کو مساوات کا حقدار ٹھہرایا جاتاہے، کسی کو کسی پر کسی بھی بنیاد پر ترجیح حاصل نہیں ہوتی ہے ، سبھی برابر حقوق کے حقدار ہوتے ہیں ، آزادی ، انصاف مساوات اور بھائی چارہ کو آئین میں بنیادی درجہ دیا جاتا ہے ۔ بھارت کے آئین کو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں آئین کے مقدمات میں انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ شامل ہے ۔ آزادی کے اول دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ آئین پر عمل کرتے ہوئے دلتوں ، آدی واسیوں، کمزوروں ، مظلوموں ، اقلیتوں سبھی کو انصا ف ملے ، ہر ایک کو آزادی شہری کا درجہ حاصل رہے ۔ مساوات اور برابری کی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے ۔ آئین میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ملک کے مختلف ادارے آزاد اور خود مختار رہیں گے ، ایک کا دوسرے پر دباؤ نہیں ہوگا ۔ حکومت اور عدلیہ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ حکومت اپنی ذمہ داری نبھائے گی ۔ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائے گا ۔ پولس محکمہ ایمانداری سے اپنا کام انجام دے گا ۔ اسی طرح عدلیہ مکمل طور پر آزادی اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف قائم کرے گی۔ عدالت میں حاکم اور رعایا ، امیر اور غریب ، ہندو او رمسلمان ، برہمن اور دلت ہونے کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، حکومت کے وزیر اور ایک عام شہری میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا ۔ جس کا بھی جرم ثابت ہوگا اسے سزا کا مکلف ٹھہرایا جائے گا۔ عدلیہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ سنائے گی ۔ جرم کو جرم گردانے گی اور بے قصوروں کی رہائی کا پروانہ جاری کرے گی ۔ یہی کسی عدالت کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے ۔ اسی کا نام انصاف ہے ۔ تاریخ میں ایسے دسیوں واقعات موجود ہیں جہاں در بار عدالت میں ایک عام شخص کے مقابلے میں بادشاہ وقت کو مجرم قرار دیاگیا ہے اور قاضی نے کسی خوف کے بغیر ایسا فیصلہ سنایا ہے ۔ اسلامی تاریخ میں ایسے کئی اہم واقعات ہیں جن میں سے ایک کا ذکر یہاں مناسب ہوگا اور یہ واقعہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کا ہے جن کے خلاف ایک یہودی کے مقابلے میں قاضی شریح نے قانون کی بالادستی کے لئے فیصلہ سنایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زرہ گم ہو گئی اور کچھ دنوں بعد آپ نے وہی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی، آپ نے اس یہودی سے فرمایا کہ یہ زرہ تو میری ہے، فلاں دن فلاں جگہ پر گم ہو گئی تھی، یہودی نے جواب دیا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ زرہ میری ہے اور اس وقت میرے قبضے میں ہے، اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہمارے درمیان آپ کا مسلمان قاضی فیصلہ سنائے گا۔
ابو امیہ شریح بن حارث بن قیس بن جہم الکندی ابتدائی اسلام کے نامور فقیہ قاضیوں میں سے ایک ہیں، آپ کا تعلق یمن سے تھا، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانہ خلافت میں قاضی القضاہ کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ نے طویل عمر پائی اور 108 سال کی عمر میں 87 ہجری کو کوفہ میں داغ مفارقت دے گئے۔اس وقت کے خلیفہ، امیرالمو ¿منین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یہودی قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے، قاضی شریح امیرالمؤمنین کو دیکھ کر اپنی نشست یا محفل سے اٹھ کھڑے ہوئے مگر امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ آپ بیٹھے رہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت علی نے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میری زرہ گم ہو گئی تھی اور آج میں نے یہی زرہ اس (یہودی) کے پاس دیکھی ہے۔قاضی شریح نے یہودی سے پوچھا کہ تمہیں کچھ کہنا ہے؟ یہودی نے کہا کہ یہ زرہ میری ہے اور میرے قبضے میں ہے۔ قاضی شریح نے زرہ دیکھی اور فرمانے لگے، “واللہ، اے امیرالمؤمنین ! یہ زرہ واقعی ہے آپ کی ہی اور آپ سچے ہیں مگر قانون کے مطابق آپ کو گواہ پیش کرنے ہوں گے“
امیرالمؤمنین نے گواہ کے طور پر اپنے غلام قنبر کو پیش کیا، غلام نے آپ امیرالمؤمنین کے حق میں گواہی دی۔ پھر آپ نے اپنے صاحبزادوں حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو پیش کیا، ان دونوں نے بھی امیرالمؤمنین کے حق میں گواہی دی۔ قاضی شریح نے فرمایا !
“اے امیرالمؤمنین آپ کے غلام کی گواہی قبول کرتا ہوں مگر آپ مزید ایک گواہ کا بندوبست کریں. آپ کے دونوں صاحبزادوں کی گواہی قبول نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ آپ کے بیٹے ہیں“۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ”اللہ کی قسم! میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”حسن اور حسین نوجوانانِ اہل جنت کے سردار ہیں“۔
قاضی شریح کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے۔ مگر قانون کے مطابق آپ کے بیٹوں کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ یہ کہتے ہوئے قاضی شریح نے یہودی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور زرہ یہودی کے حوالے کر دی۔مسلمانوں کے قاضی کا مسلمانوں کے خلیفہ کے خلاف فیصلہ سن کر اور خلیفہ کا اپنے خلاف فیصلہ سن کر فیصلے کو بغیر کسی چوں و چراں کے تسلیم کرنا دیکھتے ہوئے یہودی حیران رہ گیا۔ یہودی نے امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اپنی نظر اٹھائی اور کہا امیرالمؤمنین آپ کا دعویٰ سچا ہے، یہ زرہ یقیناً آپ ہی کی ہے۔ فلاں دن یہ زرہ آپ سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھا لی تھی۔ اپنی ملکیت واپس لیں اور اس کے بعد اسلام میں قانون کی برتری اور انصاف کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہودی نے اسلام قبول کرلیا ۔
معاشرہ کی ترقی ، سماج کی بھلائی ، ملک کے استحکام اور امن وسلامتی کے فروغ کیلئے قانون کی بالادستی ضروری ہے اور اس کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ قانون کا یکساں نفاذ کرے ، جرم ثابت ہوجانے کے بعد شخصیت دیکھ کرسزا دینے سے گریز نہ کرے ، کمرہ عدالت میں شہری اور وزیر ہونے کی بنیاد پر کوئی فرق نہ کرے ، اگر ایسا کسی ملک میں ہوتاہے ، کسی ملک کی عدلیہ شخصیت دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے ، قانون کی بالادستی کو ضروری نہیں سمجھتی ہے تو پھر ایسا ملک دھیر ے دھیرے جنگل راج میں تبدیل ہوجاتاہے ، انارکی پھیل جاتی ہے اور معاشرہ میں تباہی پھیلنا شروع ہوجاتاہے ۔ حالیہ دنوں میں ہمارے ملک کی عدلیہ کی جانب سے بھی کچھ ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جس میں قانون کی بالادستی کو نظر انداز کیا گیا ہے، مرکزی وزیر کے جرم کو بے اثر کرنے اور انہیں بے قصور ٹھہرانے کیلئے جرم کی یہ تشریح کی گئی کہ ہنستے ہوئے وزیر موصوف نے زہر انگیز تقریر کی تھی لہذا اس کی بنیاد پر انہیں مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتاہے ۔
ایک اور معاملہ میں مجرموں کو رہاکرنے کی وجہ بتائی گئی کہ ان دونوں سے پہلی مرتبہ جرم صادر ہواہے لہذا اسے رہا کیا جانا چاہیئے ، اگر آئند کسی جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو کاروائی کی جائے گی ، فی الحال عورتوں کی نیلامی اور مسلم خواتین کو سرعام بیجنے کا جرم پہلی مرتبہ سرزد ہواہے لہذا یہ معمولی ہے اور نظر انداز کیا جانا چاہییے ۔
فاضل ججوں کی جرم کو ہلکاکرنے کی یہ کوشش اور مجرم کا بیک گراؤنڈ دیکھ کر فیصلہ سنانے کی یہ روایت یقینی طور پر عدلیہ کے اصولوں کے خلاف ، انصاف کی پامالی اور آئین کی توہین ہے ۔ قانون کی بالادستی کے سامنے ہر کوئی برابر ہے ، کوئی بھی قانون سے اوپر نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایک جمہوری ملک میں کسی واضح جرم کی کی تشریح کرکے اس کے مرتکب کو مجرم کی فہرست سے خارج کرکے بے گناہ قرار دے دیا جائے تو پھر وہ ملک یقینی طور پر جنگل راج میں تبدیل ہوجائے گا اور عدلیہ کی اس روش کا خمیازہ پوری عوام اور آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا کیوں کہ بادشاہ وقت مسکرا کر حکم نامہ جاری کرے یا سنجیدگی کے ساتھ اس کا حکم قابل تعمیل سمجھا جاتاہے ، اس پر عمل ضروری ہوتاہے جس طرح فاضل ججز مسکرا کر فیصلہ سنائیں یا مکمل سنجیدگی کے ساتھ بہر صورت اس فیصلہ کو حتمی سمجھاجائے گا، ایسا کوئی اصول نہیں ہے کہ اگر جج صاحب فیصلہ سناتے ہوئے مسکراتے نظر آجائیں تو اس فیصلہ کو مذاق پر محمول کیاجائے گا اسے حتمی فیصلہ نہیں سمجھائے گا۔ بات واضح ہے کہ جو حکمران ہوتے ہیں ، جن کے ہاتھوں میں طاقت ہوتی ہے ،جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہ اپنا فرمان سنجیدگی کے ساتھ نہیں بلکہ مسکرا کرہی جاری کرتے ہیں ، ان کی مسکراہٹ میں نفرت ، حقارت اور تعصب پنہاں ہوتی ہے ۔ اس مسکراہٹ میں ایک پیغام چھپا ہوتاہے ۔ ایک مسیج دیا جاتا ہے کہ کس طرح بادشاہ وقت اور وزیر موصوف کے بیان کو آگے بڑھانا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ہے ۔ یہ معاملہ واقعی بیحد پیچیدہ اور قابل غور ہے ۔ ملک کے کمزور ، مظلوم اور اقلیتوں کی آخری اور واحد امید یہاں کی عدلیہ ہے ۔ عدالتوں سے انصاف کی توقع اور ظلم کے خاتمہ کی امید ہوتی ہے لیکن اگر عدالتوں سے بھی ظلم کی حمایت میں فیصلہ صادر ہونے لگیں گے ، ظالموں کو بچانے کے طریقے اختیار کئے جائیں گے تو پھر یقینی طور پر ملک میں انارکی پھیل جائے گی ۔ شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اورقانون کی دھجیاں اڑائی جائیں گی ۔ آئین ، دستور ، عدالت اور قانون کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔ اس لئے عدالتوں کو چاہیے کہ انصاف کی بالادستی کو قائم کرے ، عدلیہ کے وقار کو مجروح ہونے سے بچالے ۔ انصاف کی پامالی کا سلسلہ روک دیا جائے کیوں کہ عدلیہ ہی عوام کی آخری امید ہوتی ہے او رانصاف قائم کرنے کے بعد ہی ملک میں خوشحالی آتی ہے ، ہمہ جہت ترقی ہوتی اور معاشرہ میں امن و سکون اور سلامتی برقرار رہتی ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)