افغانستان میں خانہ جنگی کے بڑھتے آثار

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ملت ٹائمز
افغانستان پندرہ سالوں سے مسلسل میدان کارزار بناہواہے ، نائن الیون کے بعد قتل و غارت گری کے سلسلہ کو بارہا رکوانے کی کوشش کے باوجود یہ سلسلہ بند نہیں ہورہاہے ،حالیہ دنوں میں قیام امن کی کچھ ایسی ہی کوششیں وہاں کی جاری ہے ، دسمبر 2015کے اوائل میں منعقدہ ہارٹ آف ایشا کانفرنس کے بعداس جانب خاصی پہل دیکھی جارہی ہے ،ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر ایک چار فریقی رابطہ کمیٹی تشکیل بھی دی گئی تھی جس کے اراکین میں پاکستان،افغانستان ،چین اور امریکہ شامل ہیں۔اس کمیٹی کا مقصد افغانستان میں جنگ بندی،امن پسندی اورمصالحت کے عمل کو فروغ دینے کیلئے طالبان اور افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت کے درمیان بات چیت اور مذاکرات کے عمل کو بحال کرانا ہے۔اب تک اس کمیٹی کے بالترتیب دواجلاس اسلام آباد اور کابل میں ہوچکے ہیں، تیسر ااجلاس 6فروری کو اسلام آباد میں متوقع ہے،اس کے علاوہ گذشتہ 24 جنوری کو قطر میں طالبان اور افغان کے درمیان دورزہ مذاکرات کا انعقاد کیا گیا تھا لیکن ان تمام مذاکرات اور اجلاس میں حتمی بات چیت کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوپارہی ہے ۔طالبان کا مطالبہ ہے کہ پہلی فرصت میں بین الاقوامی بلیک لسٹ سے ان کا نام ہٹایا جائے ، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دوجہ قطر میں منعقد ہونے والی دورزہ کانفرنس میں دوٹوک انداز میں اپنامطالبہ رکھتے ہوئے کہاکہ کسی بھی باضابطہ مذاکرات سے قبل ہم اپنے مجاہدین کے ناموں کو اقوام متحدہ اور امریکی بلیک لسٹ سے خارج اور ان کے سروں پر لگی ہوئی قیمتوں کو منسوخ کروانا چاہتے ہیں،ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ہمارے سفر پر عائد پابندی ختم کی جائے ، اس کے علاوہ ہم دوحہ میں اپنے سیاسی دفتر کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔طالبان نے جون 2013ء میں قطر میں اپنا سیاسی دفترقائم کیاتھا تاکہ کسی ممکنہ امن معاہدے کی راہ ہموار ہوسکے۔ مگر اس عمارت کو صرف ایک ماہ بعد ہی اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے بند کردیا تھا۔مذاکرات کے اختتام پر طالبان ترجمان محمد نعیم نے اپنے ایک پریس اعلامیہ میں یہ بھی کہاتھا کہ مذاکرات مثبت رہے ہیں ، کئی نکات پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے غیر ملکی افواج کی افغانستان سے واپسی پر اتفاق ہوا ہے جس کے طریقہ کار پر بحث ابھی باقی ہے، علاوہ ازیں سبھی نے ایک علاحدہ اسلامی حکومت کے قیام اور امارت اسلامی (افغانستان) کے باقاعدہ نام کو اپنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔طالبان سے مذاکرات کی ذمہ دار حکومتی باڈی اعلیٰ مذاکراتی کونسل مسلح گروپ پر زور دے رہی ہے کہ وہ شرائط کو منوائے بغیر ہی مذاکرات کو شروع کردے،دوسری طرف طالبان کا دو ٹوک کہنا ہے کہ جب تک ہمارے شرائط کو منظوری نہیں دی جائے گی اس وقت تک مذاکرات کا سفر آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔
اپنی شرائط پر اٹل رہنے اور باضابطہ مذاکرات نہ کرنے کی ایک وجہ تجزیہ نگار یہ بتارہے ہیں کہ افغانستان میں گذشتہ 14برسوں سے جاری خانہ جنگی میں طالبان کا پلڑہ دن بدن بھاری ہوتا جارہا ہے۔اْنہوں نے نہ صرف افغانستان کے طول و عرض میں اپنی موجودگی اور اثر و نفوذ میں اضافہ کر لیا ہے بلکہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس پر پے در پے حملے کر کے اْنہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے،امریکہ اور نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی نے افغان نیشنل آرمی اور پولیس کو طالبان کے مقابلے میں اور بھی کمزور کر دیا ہے،ماضی کی طرح امریکہ کی فضائی فوجی امداد بھی اب افغان کو حاصل نہیں ہے ،ایسے میں طالبان کے لئے اب بڑے بڑے حملے کرنا ممکن ہوگیا ہے،پہلے وہ دوچار یا درجنوں کی تعداد میں اپنے مدِمقابل نیٹو اور افغان فوج پر حملہ کرتے تھے،اب وہ ہزاروں کی تعداد میں منظم ہوکر حملہ آور ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے افغان نیشنل آرمی کے جانی نقصان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق صرف سال 2015 میں 2014 کی بہ نسبت جانی نقصان میں26 فی صد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔علاقائی برتری اور کنٹرول میں بھی طالبان مسلسل کامیابی سے ہم کنارہورہے ہیں ،ملک کے 34 صوبوں میں سے 17 میں طالبان کے تسلط والے اضلاع قائم ہیں ،جن میں فراہ، بادغیس، پنجشیر، بدخشاں، بغلان، ہلمند، قندوز، نورستان، سر پُل، پکتیکا، تخار، لوگر، جوزجان، فاریاب، قندھار اور غزنی وغیرہ کانام قابل ذکر ہے ، ستمبر میں شمالی افغان میں واقع شہر قندوز پر ملنے والی فتح کو طالبان اپنی اہم کامیابی مان رہے ہیں ،طالبان 2015 کو اپنے لئے بہت اہم مان رہے ہیں ،ایک بیان کے مطابق گذشتہ 14 برسوں میں سے سال 2015 کو کامیاب ترین اور ولولہ انگیز جہادی سال قرار دیا گیاہے ،کیوں کہ اس دوران لڑائی میں طالبان نے افغانستان کے تقریبا 400 میں سے 34 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے ۔
افغان اور طالبان کے حالات پر نگاہ رکھنے والوں کا یہ بھی کہناہے کہ رواں یعنی سال2016ء افغانستان کی خانہ جنگی کا سب سے زیادہ خونریز سال ثابت ہوگا۔پے در پے کامیابیوں سے افغان طالبان کے حوصلے بلند ہیں اور اْن کے مقابلے میں افغان نیشنل آرمی کی لڑنے کی صلاحیت دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے۔طالبان سرد موسم کے اختتام اور موسمِ بہار کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں جس میں تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر جنگی کارروائیاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،اور 2016 کو وہ 2015 سے زیادہ کامیاب بنانے کی حکمت علمی پر غورو فکر کرہے ہیں ۔
طالبان کی جانب سے عدم دلچسپی کی دوسری وجہ سابق رہنما ملاعمر کی وفات کے بعد پید ا شدہ شدید اختلاف ہے ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ملاعمر کی وفات کے بعد افغانستان طالبان کا دو گروہوں میں تقسیم ہونا اور ملا اختر منصور کا افغانستان کے طالبان کا نیا رہنما مقرر ہونا طالبان کے ساتھ کابل حکومت کے ہر طرح کے مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔طالبان کے بعض بڑے رہنما ملا اختر منصور کو اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملا محمد رسول کی قیادت میں دوسرا گروہ وجود میں آچکا ہے اور ناراض طالبان ملا اختر منصور کے گروہ سے جدا ہوچکے ہیں، ملا محمد رسول کی قیاد ت میں طالبان گروپ مذاکرات بالکل آمادہ نہیں ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ مانی جارہی ہے ۔
موجودہ صورت حال سے افغان کی اشرف غنی حکومت انتہائی پریشان ہے ، اشرف غنی بارہا یہ بیان دے رہے ہیں کہ طالبان ہمارے سیاسی حریف ہیں ،افغان کے ساتھ چین ،امریکہ بھی تشویش سے دوچارہے،افغان حکومت کی کوشش ہے کہ موسم سرما کے اختتام سے قبل طالبان کو مذاکرات کی میز پرآمادہ کرلیاجائے تاکہ موسم گرما میں ان کے حملے کی نوبت نہ آئے۔دوسری طرف امریکہ اور چین بھی افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ چاہتے ہیں،امریکہ کوخوف ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز نہ ہوا تو افغانستان میں خانہ جنگی خونریز رْخ اختیار کر لے گی جس کا نقصان امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو اٹھاناہوگااور افغانستان میں عالمی برادری کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے بلکہ پورے علاقہ کا امن اور استحکام خطرے کی نذر ہوجائے گا،افغانستان میں خانہ جنگی کے جاری رہنے سے چین کے بھی قومی سلامتی کے مفادات کو خطرہ لاحق ہے ساتھ ہی چین کے پاکستان کے ساتھ اکنامک کوریڈور کی تعمیر اور افغانستان،ایران اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کے راستے میں بھی یہ رکاوٹ ہے۔اس لئے افغانستان،امریکہ اور چین تینوں مل کر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں؛لیکن طالبان کی سخت شرائط کے پیش نظر مذاکرات کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے اور یہ آثار دکھ رہے ہیں کہ 2016 خانہ جنگی کے حوالے سے سب سے زیادہ خوں ریز سال ثابت ہوگا۔
( مضمون نگار ملت ٹائمزکے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com