قاسم سید
کسی زمانہ میں مسلمانوں کی اکلوتی وفاقی تنظیم سمجھی جانے والی مسلم مجلس مشاورت کیا شدیدبحران سے دوچار ہے؟کیا مشاورت کی موجودہ معزز قیادت کے پاس حالیہ تنازعات حل کرنے کی صلاحیت نہیں یا وہ حل کرنا نہیں چاہتی؟کیا مشاورت کے بانیوں میں سے ایک جماعت ا سلامی ہندکو اس سے الگ کرنے کی زمین تیار کی جارہی ہے؟مشاورت کی حالیہ مجلس عام کی میٹنگ میں صدارتی تقریر کے لب و لہجے اور اور ایک معززرکن کی جانب سے جماعت اسلامی کے “رویے”کے خلاف قرار داد مذمت لانے کی تجویز سے خدانخواستہ یہی تاثر ملتا ہے کہ مشاورت کی موجودہ قابل قیادت دو دو ہاتھ کے لیے تیار ہے ؟
مجلس عام کی میٹنگ کےبعد مشاورت کی طرف سے جو پریس نوٹ اخبارات کو (بذریعہ ای میل ) جاری کیا گیا اس میں دستوری ترمیمات کے نتائج کے علاوہ کوئی اور قابل ذکربات نہیں تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم مجلس مشاورت ملت کو کوئی پیغام یا ایجنڈا دینے میں ناکام رہی یااس کے پاس کوئی ایجنڈا تھا ہی نہیں ، اس سے کمیونٹی میں مایوسی پیدا ہوئ ہے کہ جب ہمیں اس کی ضرورت ہے قیادت باہم دست وگریباں ہے ۔دستوری ترمیمات پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے اور قدم واپس نہ لینے کے اعلان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مفاہمت کے لیے ثالثی کمیٹی بنانے کے باوجود بظاہر امکانی حل کے سارے دروازے بند کر دیے گئے ہیں ۔ضد ،انانیت ہٹ دھرمی ،رعونت کا رویہ خواہ کسی
کی طرف سے اختیار کیا جائے اس کے نتائج خلفشار کی آنچ کو تیز کرتے ہیں۔قیادت کی طرف سے بار بار ‘فریق مخالف ‘کوعدالت میں جانے کے لیے اکسانا اور چیلنج کرنا خطرے کا الارم ہی نہیں مشاورت کوتعطل کی حالت میں پہنچانے اور “پرانے دن لوٹ آنےکی خواہش”کی غمازی کرتا ہے ۔
بہر حال ان سب کے باوجود مجلس عام کی میٹنگ سے توقعات تھیں کہ اس حدت کو کم کرے گی ،کوئ راستہ نکالے گی مگر اکابرین مشاورت کی میٹنگ سے لاتعلقی اورناخن تدبر سے گتھیاں سلجھانے والوں کی عدم موجودگی سے یہ امکان ختم ہوگیا ۔میٹنگ اس لیے بھی تاثر نہ چھوڑسکی کہ اس میں انہی باتوں کا اعادہ کیا گیا جو وہاٹس گروپ کی زینت بنتی رہی ہیہ ،صدارتی تقریر کا کافی حصہ جماعت اسلامی ہند کے خلاف “چارج شیٹ ” پر مشتمل تھا ,اس کے’ گناہوں اور ناقابل قبول اقدامات ‘کی روداد بیان ہوئ مگر سزا یا اس کا حل پیش نہیں کیا گیا ۔میٹنگ بظاہر دستوری ترمیمات پر مہر لگوانے کے لیے تھی یہ رسم پچیس سے بھی کم ارکان کی موجودگی میں پوری ہوگئ ۔
اب انتخابی عمل کا اعلان کردیا گیا ہے یہ کیسے ہوگا کیونکر ہوگا کون ممبر اس میں ووٹ کرسکے گا؟ ۔اب تک ارکان کی حتمی فہرست سامنے نہیں آسکی ہے کیا وہ ارکان کو وقت پر ملے گی ؟جو نکال دیے گیے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟کیا ممبران اس میں شرکت کریں گے ۔اس پر بہت کچھ دارومدار ہے
بلاشبہ نوید حامد بہت متحرک فعال اور سرگرم شخصیت ہیں انہوں نے اپنی زندگی کےچھ قیمتی سال مشاورت کو دیے ہیں۔ دفتر میں پابندی سے صبح سے لے کر دیر رات تک اپنا ہرپل مشاورت کے سپرد کیا۔مشاورت کو اوڑھنا بچھونا بنالیا یہ معمولی بات نہیں ہے(یہ الگ بحث ہے کہ اس کا حاصل و نتیجہ کیا رہا) ۔ملک کی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کامیاب کوششیں بھی کیں ۔مگر بدقسمتی سے ابتدائی سنہرے دور کو چھوڑ کر ان کا دور صدارت تنازعات ،ممبروں سے محاذآرائ ،ممبر تنظیموں سے مورچہ بندی،پنجہ آزمائ اور جوڑتوڑ اور خط وکتابت میں گزرا،یہ شوق آبلہ پائ مشاورت کو کس اندھی سرنگ میں لے جاۓ گا کہنا مشکل ہے اور یہ بھی کڑوی حقیقت ہے مشاورت میں کچھ لوگوں نے پہلے دن سے ہی نوید حامد کی صدارت کو تسلیم نہیں کیا اورمنتخب شدہ صدر کے معاملے کو عدالت تک لے گیے جس سے مشاورت کو نقصان پہنچا یہ رویہ جمہوری مزاج کے خلاف تھا حالات کو بگاڑنے اور یہاں تک پہنچانے میں کہیں نہ کہیں میں اس غیر جمہوری رویہ نے اپنا کردار ادا کیا
مشاورت ملت کا عظیم سرمایہ ہے کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ،اس پر کسی کا بھی ‘غلبہ یا تسلط ‘قابل قبول نہیں ہے خواہ وہ تنظیم ہو یا فرد ۔ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ادارے کو پرایویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جارہا ہے نہ ہی سازشی نظریہ کی حوصلہ افزائ ہونا چاہیے اختلاف کو مخالفت،مخالفت کو دشمنی اور سازش سمجھنا ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔کسی کے لیے غلط الفاظ کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔اختلاف میں احترام اورغیر پارلیمانی الفاظ سے گریز ضروری ہے ۔
لگتا یہی ہے کہ کشمش کو ابھی اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ روش نے مشاورت کی ساکھ ،اس کے وقار ، اعتبار اور وفاقی حیثیت کو بری طرح مجروح کیا ہے ا ۔اگر کوئ حل نہیں نکلا، رویوں میں لچک نہیں آئ تو بہت بڑا نقصان دروازے پر دستک دے رہا ۔کوئ ہے جو جہاز کو طوفان سے بچاسکے!!!!