شمالی جرمن صوبے لوئر سیکسنی کے دارالحکومت ہینوور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہینوور میڈیکل یونیورسٹی (ایم ایچ ایچ) کی انتطامیہ نے اس نادانستہ غلطی پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ایم ایچ ایچ کی طرف سے جاری کردہ ایک معذرتی بیان میں کہا گیا ہے، ”ہینوور میڈیکل یونیورسٹی دو لاشوں کی شناخت کے حادثاتی طور پر بدل جانے کے نتیجے میں پیش آنے والے اس واقعے پر گہرے افسوس اور متعلقہ مسلمان کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔”
تدفین کے لیے میت کے بجائے راکھ
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جس مسلمان کی میت کو گزشتہ جمعے کے روز غلطی سے نذر آتش کر دیا گیا، وہ ایک 71 سالہ مرد اور ترک شہری تھا۔ اخبار ‘ہینورشے الگمائنے سائٹنگ’ کے مطابق اس مسلم مرد کی میت کو جس دوسرے شخص کی لاش سمجھ کر نذر آتش کر دیا گیا، وہ ہینوور ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک 81 سالہ مرد تھا۔
ہینوور میڈیکل یونیورسٹی کے عملے کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب انتقال کر جانے والے ترک شہری کے اہل خانہ اس کی تدفین کی تیاریاں کر رہے تھے اور متوفی کی میت کے بجائے ایک راکھ دان میں اس کی راکھ اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔
اس غلطی کے انکشاف کے بعد متوفی ترک شہری کے لواحقین نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کر دی، جس کی طرف سے تفتیش جاری ہے۔ ہینوور پولیس کے ترجمان کے مطابق، ”ہم دونوں متاثرہ خاندانوں کے ارکان کے ساتھ رابطے میں ہیں مگر اس واقعے کی ایک قابل سزا مجرمانہ واقعے کے طور پر چھان بین نہیں کی جا رہی کیونکہ یہ ایک غلط فہمی تھی، جس میں اب تک کسی بھی دانستہ مجرمانہ اقدام کا کوئی سراغ نہیں ملا۔”
مسلمانوں کی صوبائی تنظیم کی طرف سے مذمت
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں مسلمانوں کی ایک تنظیم ‘شوریٰ لوئر سیکسنی’ نے اس افسوس ناک واقعے پر گہرے دکھ اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ ہینوور میڈیکل یونیورسٹی میں جیسے بھی حالات میں ایک مسلمان اور ایک مسیحی باشندے کی لاشوں کی شناخت بدل جانے کا یہ واقعہ پیش آیا، یونیورسٹی ہسپتال کی انتظامیہ کو اس کی تفصیلی چھان بین کر کے مستقبل میں ایسے کسی بھی ممکنہ واقعے کے دوہرائے جانے کا راستہ روکنا چاہیے۔
شوریٰ لوئر سیکسنی کے سربراہ رجب بِلگین نے ایک بیان میں کہا کہ متعلقہ ترک شہری کی موت اس کے اہل خانہ کے لیے دوہرے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنی۔ رجب بِلگین کے بقول ایک تو اس خاندان کے افراد پہلے ہی اپنے اس رکن کی موت پر شدید صدمے میں تھے اور دوسرے یہ کہ اس مسلمان کی میت بھی جلا دی گئی، جو کہ اسلامی مذہبی احکامات کے سراسر منافی اور انتقال کر جانے والے مسلمانوں کی آخری رسومات کے جائز طریقہ کار کے بالکل برعکس ہے۔