قاسم سید
آفتاب، شردھا نام کی لڑکی کے ساتھ دوسال سے لیو ان ریلیشن شپ میں تھا۔ ایک دن اس نے شردھا کو قتل کر کے درجنوں ٹکڑے کیے اور مختلف مقامات پر پھینک دیے۔ سوشل میڈیا سے لے کر مین اسٹریم میڈیا تک وحشیانہ قتل کےمختلف پہلوؤں پر اتنی گفتگو ہو رہی ہے کہ افواہیں، امکانات، قیاسات اور حقائق سب خلط ملط ہوگیے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس کی کڑی نگرانی کے باوجود آفتاب کے 70ٹکڑے کرنے کے ارادے سے ہندوتووادیوں نے اس پر تلواروں سے حملہ کرنے کی کوشش کی گرچہ وہ اس میں ناکام رہے۔ اس دوران حالانکہ ملک کے مختلف علاقوں میں شردھا جیسے کئی دل دہلانے والے واقعات ہوئے لیکن وہ میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہے۔
مثال کے طور پر متھرا میں ہائی وے ایکسپریس پر سوٹ کیس میں ایک 22سالہ شادی شدہ لڑکی کی لاش ملی ہے، اس کو گولی ماری گئی تھی بدن پر زخموں کے نشان تھے معلوم ہواکہ اس کا نام آیوشی یادو تھا باپ نے غیربرادری میں شادی کرنے پر مار ڈالا ۔ ماں نے لاش کو سوٹ کیس میں رکھنے میں مدد کی۔
اعظم گڑھ کے پرنس یادو نے اپنی سابق 20سالہ محبوبہ کو 6 ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک کنوئیں میں پھینک دیا، لڑکی کا نام آرادھنا تھا ۔ پرنس یادو نے دوسری شادی کرنے پر بھیانک انتقام لیا۔ قاتل مقتول دونوں ہندو تھے۔
مدھیہ پردیش کے شہڈول میں شوہر نے ناجائز تعلقات کے شبہ میں بیوی کو قتل کر دیا پھر اس کے ٹکڑے جنگل میں الگ الگ مقام پر دفنایا دیے قاتل کا نام رام کشور پٹیل ہے اور مقتول کا سرسوتی پٹیل تھا ۔
بہار کے نالندہ میں ایک نوجوان وکاس کے سابق محبوبہ نے شوہر رنجن کے ساتھ مل کر کئی ٹکڑے کیے، اس کا سر پٹنہ کی ایک ندی میں بورے کے اندر ملا۔تینوں ہندو تھے۔
ایسا ہی معاملہ جبل پور کا ہے جہاں بے وفائی کے شک میں عاشق نے محبوبہ شلپا کا گلا ریت دیا اس کی ویڈیو بنایا اور فرار ہوگیا۔ دونوں ہندو تھے۔
دہلی میں شردھا جیسا ایک اور واقعہ ہوا جب بیٹے نے ماں کی معاونت سے اپنے باپ کے 20ٹکڑے کیے آفتاب کی طرح فریج میں رکھا اور مختلف مقامات پر پھینکتا رہا قاتل مقتول ہندو تھے، وجہ ناجائز تعلقات کا شبہ۔ کئی اور ایسے ہی واقعات میڈیا میں آئے مگر وہ بھی شہ سرخیاں نہ بن سکے ہاں جب ایک ٹی وی ایکٹرس نے خود کشی کی اور اس کا معشوق مسلمان نکلا تو تجزیوں انکشافات کی باڑھ آگئی ۔ اس طرح کے واقعات لگاتار ہورہے ہیں لاش کے ٹکڑے کرنا انہیں مختلف مقامات پر پھینکنا ٹرینڈ بن گیا ہے پہلے بھی ہوئے ہیں مگر اب ‘فیشن’ بن گیا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو ایسے ہر واقعہ میں جوگزشتہ دنوں سامنے آئے غصہ، انتقام، بہیمیت ، درندگی، سفاکیت، اپنی انتہا پر نظر آتی ہے ،کہیں محبت کے نام پر بے وفائی ، کہیں ناجائز تعلقات کا شک تو کہیں لیو ان ریلیشن سے اکتاہٹ، بیزاری اور چھٹکارا حاصل کرنے کے جنون میں پارٹنر کو بےرحمی سے مار دیا گیا، یہ پہلی بار ہورہا ہے ایسا بھی نہیں مگر تب نفرتوں کا کوئی مذہب نہیں تھا، جرائم کی کوئی مذہبی شناخت نہیں تھی مجرم صرف مجرم ہوتا تھا، ہندو – مسلم نہیں تھا۔ ظاہر ہے مجرمانہ ذہنیت اور کرتوتوں کو ایک چشمہ سے دیکھا جانا چاہیے، ٹکڑے چھ ہوں یا سات، مارنے والا ہندو ہو یا مسلمان جرم کی کیفیت اور کمیت کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔ خاص بات یہ ہے کہ زیادہ تر اس کا شکار عورت ہے۔ یہ رجحان جس میں ناپسند شخص کے ٹکڑے کرنے کے بعد ہی سکون مل رہا ہے بہت بھیانک، خطرناک اور سماج کے لیے تباہ کن ہے۔ قانون کا خوف ، خاندان ، سماج کا ڈر، رشتوں کا تقدس و احترام ملیامیٹ ہورہا ہے، ہم دھیرے دھیرے انارکیت کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھے گا اور اذیت دینے میں شیطانی سکون ملے گا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساری توجہ صرف آفتاب، شردھا معاملہ پر ہی کیوں ، آخر اسے لو جہاد کا لبادہ صرف ٹی آر پی بڑھانے ہندو -مسلم بیانیہ کو مزید دھار دینے کے لیے اوڑھایا جارہا ہے؟ پرنس یادو نے بھی اپنی محبوبہ کے متعدد ٹکڑے کیے ، دہلی میں بیٹے نے اپنے باپ کے بیس ٹکڑے کردیے ، یہ جرم سنگین نہیں؟ ، ہوا دینے کے لیے آفتاب یا شیزان ہونا ضروری ہے؟ مان لیں اگر شردھا کی جگہ حسینہ ہوتی، آفتاب کو کسی پرمیلا نے ٹکڑوں میں بانٹا ہوتا تب بھی میڈیا اور ہندوتووادی اسی غصہ اور نفرت کا مظاہرہ کرتے؟ پرائم ٹائم میں بحث ہوتی الیکشن کا موضوع بنایا جاتا؟ شاید نہیں ۔ واقعہ کی سفاکیت تو دیگر کیسوں میں بھی ہے لیکن آفتاب ، شردھا کے الگ مذہب کا ہونے کی وجہ سے جرم زیادہ خطرناک ، زیادہ قابل مواخذہ ہے؟ صرف شردھا کے قتل پر سیخ پا مگر آیوشی یادو، آرادھنا، شلپا کے لیے ہمدردی کا شورشرابہ نہیں؟ یہ بھی تو ہندو ہی ہیں ہندوتووادیوں کا خون ان کے لیے کیوں نہیں کھولتا؟ گویا یہ نفرت، غصہ شردھا کی وجہ سے نہیں آفتاب ہونے کے سبب سے ہے! یہ تو ہیپوکریسی اور منافقت ہے۔ بحث کو ہندومسلم زاویہ دینا، اس کے بہانے ایک خاص مذہب کے خلاف اوزار کی طرح استعمال کرنا، لوجہاد کا جامہ پہنانا اور سیاسی فائدے کے لیے ایشو بناکر اکثریتی طبقہ کو بھڑکانا کسی بھی مہذب سماج کے لیے شرمناک ہے۔ اگر کردار ہندو ہوں تو پردہ ڈال دیں۔ مذہب الگ ہے تو آسمان سر پر اٹھالو اب میڈیا اسی سڑاند کے ساتھ اپنی ذلالت میں نئی ڈگری حاصل کرے گا؟
آفتاب کو قانون سزادے گا، بھارت کی یہی خوبصورتی ہے ، مگرسادھوی پراچی کا کہناکہ آفتاب کے پانچ سو ٹکڑے کردو! ہم راستہ نکال لیں گے، اس بیان پر کوئی کارروائی نہ ہو، وکیلوں کا ہاتھا پائی کرنا، ہندو سینا کا آفتاب کو لے جانے والی وین پر تلواروں سے حملہ کرنا قانون کے خوف کا دل سے نکل جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہ سڑکوں پر انصاف کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی ذہنیت رکھنے والوں کےبڑھتے حوصلوں کی عکاسی ہے، جو ڈرانے والی ہے ایسا کیوں لگتاہے کہ ہندو مسلم بیانیے کے زہریلے اثرات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دروازے تک پہنچ گئے ہیں ، تعلیم دینے والے ذہنوں کو مسموم کرنے لگے ہیں، تھانوں سے لے کر عدالتوں تک پر انگلیا ں اٹھنے لگی ہیں ۔
کوئی بھی ذی ہوش آفتاب جیسے مجرم کی وکالت نہیں کرسکتا ۔ کوئی وکاس اگر مسلم نام رکھ کر یہ حرکت کررہا ہے تو اس کے پس پشت کار فرما ذہنیت سے ملنے والے خوفناک سگنل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ ٹارگٹ صرف آفتاب ہی کیوں؟ سنگ ملامت آفتاب کے لیے ہی کیوں؟ کیا کرداروں کا ہندو مسلم ہونا جرم کے گراف اور سنگینی کو طے کرے گا، قانون و انصاف کا اب یہی معیار ہے؟ کیا اس نئے بیانیے کے ساتھ 5 ٹریلین اکنامی کا ہدف حاصل ہوگا؟کیا بھارت اسی تصویر کے ساتھ وشو گرو بنے گا؟ کیا لیو ان ریلیشن کے بھیانک انجام پر غور کرنا نہیں چاہیے؟ کیا بھارت جیسے مذہبی اقدار پر یقین رکھنے والا ملک اس ماحول کا متحمل ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے سخت رویے ، وارننگ کے باوجود میڈیا کی ڈھٹائی اور منھ زوری پر کوئی لگام نہیں ، ہندو مسلم بیانیے کے تکثیری سماج پر پڑنے والے بد اثرات پر کوئی تشویش نہیں تو جان لینا چاہیے کہ بھیڑیے کے منھ کو خون لگ گیا ہے۔ انجام کیا ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں۔