ایک نہ ہوگے تو مٹ جاؤ گے

مکرمی!
ملت ٹائمز
آج ہندوستان میں مسلمانوں پرِ برا دور ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں،کبھی بے قصور نوجوانوں کوخاص طورسے ڈاڑھی ٹوپی والے کو گرفتار کیا جارہاہے،قصور صرف انکا یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں،لیکن ہم اور ہمارے قائد’’بت‘‘کی طرح خاموش ہیں اور تماشہ بین بنے ہیں۔صرف اخبار میں بیان دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔اگر ان مسلم نوجوانوں کی جگہ ان کی اپنی اولاد ہوتی تو کیا ان کا یہی رویہ ہوتا؟؟
نہیں ہر گز نہیں
بلکہ وہ روڈ جام کرتے جلوس نکالتے جلسہ کراتے وغیرہ وغیرہ،کوئی حکومت کا خصیہ بردار ہے تو کوئی چمچہ ،ایک جماعت اگر ناراض ہے تو ایک جماعت بہت خوش اورجاجاکر حکومت سے ملاقاتیں بھی کرہے ہیں ،لیکن کبھی ان کو توفیق نہیں ہوتی کہ ان سے اس موضوع پر بھی گفتگو کریں کہ اب بند کرو یہ تماشہ اور ڈرامہ کہ محض شک کی بنیاد پر کسی کی زندگی تباہ کر دی جائے،اور سوشل میڈیا پر پروسی ملک سے تعلق کی بناپر اسے جیل میں بند کر کے ایسی تکلیف دی جائے جس سے انسانیت شرمسار ہوجائے
اور خود اپنے حلف نامہ کے موقع سے انھیں دعوت دیں تو بہت خوب۔
خیر ہمیں اس بارے میں کیا کرناچاہئے،یہ ہمیں یہ فیصلہ خود لینا ہوگااگر کوئی مسلمان گرفتار ہوتا ہے خواہ وہ کہیں کا رہنے والاہو ہم اسکے لئے احتجاج کریں گے روڈ جام کریں گے پر امن جلوس نکا لیں گے،اور اسکاساتھ دیں گے ،ورنہ ہماراحال فلسطینی مسلمانوں جیساہوجائے گا
خاموش مزاجی تمہیں جینے نہ دے گی
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچادو
ہمیں اب بلا تفریق ایک ساتھ قدم بڑھانا ہوگا،نہیں تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے اور ہمارے قائدین بھی اب اپنی کرسی بچانے کے لئے مصلحت،پسندی کاسہارا نہ لیں بلکہ کھل کر ساتھ دیں بے باک ہوکر، ایک مرد مومن کو کیسا ڈر؟؟
اور وہ بھی ان جیسوں سے جن کو ہم نے خود کرسی پر بٹھایا ہے
محمد افسر علی قاسمی سمستی پوری
متعلم درالعلوم دیوبند

SHARE