انٹرویو نگار: علیزے نجف
اردو زبان کی بساط پہ اب تک بےشمار ایسے فنکار پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے مختلف جہت سے اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے، انھیں میں سے ایک معتبر نام غضنفر بھی ہے، ان کی شخصیت مختلف ادبی حوالوں کے ذریعے پہچانی جاتی ہے فکشن، شاعری، تنقید، لسانیات، کے موضوع پہ ان کی ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں منصۂ شہود پہ آ چکی ہیں، یہ کتابیں ان کے فکر و خیال اور اردو ادب کے تئیں ان کے نظریات کی ترجمانی کرتی ہیں، ان کا علمی و ادبی دائرہ انتہائی وسیع ہے، حقیقت تک پہنچنے کا داعیہ ان کے اندر موجود ہے، انھوں نے حقیقت کو ہر پہلو سے دیکھنے کی سعی کی ہے اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
غضنفر صاحب نے گورنمنٹ آف انڈیا مشہور و معروف ادارہ سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف انڈین لینگویجز میسور ایک ذیلی مرکز اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سنٹر سولن ہماچل پردیش میں اپنی خدمات انجام دیں پھر اسی ادارے کے لکھنؤ سینٹر میں پرنسپل کے عہدے پہ بھی فائز ہوئے علیگڈھ میں بھی کچھ وقت رہے 2008 میں اکادمی برائے فروغ استعداد اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر و ڈائریکٹر ہوئے، اس دوران غضنفر مختلف انجمنوں تنظیموں اور اداروں مثلاً گیان پیٹھ این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔، این۔ ٹی۔ ایم۔، این۔ ٹی۔ ایس۔ سی۔ آئی۔ ایل۔ وغیرہ کے ممبر بھی رہے۔ انھوں نے اب تک نو ناول اور بےشمار افسانے اور خاکے قلمبند کئے اس کے ساتھ تنقیدی و تحقیقی کتابیں بھی لکھیں ڈرامے لکھے، شعر و ادب کی مختلف ہیئتوں میں طبع آزمائی بھی کی۔ غضنفر کی تحریروں میں سادگی و سادہ بیانی کو خاص اہمیت حاصل ہے، اردو ادب سے ان کی والہانہ محبت سے ہر کوئی واقف ہے، اس حوالے سے وہ ضرورت سے زیادہ خوش خیالی میں جینے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اردو ادب کی دگرگوں حالت کے لئے وہ اردو دان طبقے کو بھی ذمےدار سمجھتے ہیں۔ اس کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے وہ اپنی بساط بھر ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ اس وقت غضنفر صاحب میرے سامنے موجود ہیں ان کی شخصیت کے گو ناگوں پہلوؤں کو جاننے و سمجھنے کے لئے میں نے سوالات ترتیب دے لئے ہیں آئیے ان سے براہ راست بہت کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی شخصیت کو ہر پہلو سے سمجھنے میں آسانی ہو۔
علیزے نجف : سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کس خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت آپ کہاں پہ قیام پذیر ہیں؟
غضنفر : میرا تعارف مختصر بھی ہے اور طویل بھی۔ میں صرف غضنفر لکھتا ہوں اور ادبی دنیا کے لوگ مجھے اسی نام سے پہچانتے ہیں۔ یہ نام اتنا مختصر ہے کہ مشہور مذاح نگار مجتبٰی حسین کو یہ لکھنا پڑا، “میں نے اتنا مختصر نام آج تک نہیں سنا ۔یوں تو ہر ادیب یا شاعر کو اس کے چاہنے والے اس کے نام کے کسی جز سے ہی یاد رکھتے ہیں لیکن کتابوں پر شعرا اور ادیبوں کے پورے نام ہی لکھے ہوتے ہیں۔” اور طویل اس لیے کہ میری پہچان مختلف حیثیتوں سے کی جاتی ہے ۔کچھ لوگ مجھے فکشن نگار کی حیثیت سے پہچانتے ہیں تو کچھ لوگ شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔کچھ لگ خاکہ نگار سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ مثنوی نگار کی شکل میں دیکھتے ہیں اور بہت سارے لوگ کی نظر میں تو میں آیک ماہر درسیات کی حیثیت رکھتا ہوں ۔اسی لیے مجھ پر لکھتے وقت زیادہ تر ادیب و نقاد یہ جملہ ضرور لکھتے ہیں کہ غضنفر ایک ہمہ جہت فن کار ہیں ۔
میں ریاست بہار کے ضلع گوپال گنج کے ایک چھوٹے سے گاؤں”چوراوں” میں پیدا ہوا ۔میرے اس گاؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کی مرغیاں بھی حافظ ہوتی ہیں ۔یعنی اس بستی میں قرآن وحدیث کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا تھا ۔چنانچہ میری تعلیم کی شروعات بھی مذہبی تعلیم و تربیت سے ہوئی۔ اس وقت میی علی گڑھ میں قیام پذیر ہوں ۔ویسے میری رہائش دہلی میں ہے ۔
علیزے نجف: آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام کس طرح کے ماحول میں گذرے اس ماحول نے آپ کی ذہن سازی پہ کیسے اثرات مرتب کئے اس ماحول کے نمایاں مظاہر کیا تھے؟
غضنفر: میری ابتدائی زندگی کے ایام دو طرح کے ماحول میں گزرے ۔اور دونوں ماحول ایک دوسرے کی ضد تھے ۔ ایک طرف دینی فضا کا غلبہ تھا ۔ایسا غلبہ کہ وقت سے پہلے ہی کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔اور طریقت, نقشبندیہ کے اذکار میں مستغرق رہنے لگا ۔ساتھ ہی تبلیغ جماعت کے اثر میں آکر چلہ بھی کھینچنے لگا۔
۔اور دوسرے ماحول جو بعد میں شروع ہوا وہ ایسا تھا جس نے پہلی والی فضا سے دور کردیا ۔اس نے آندھی کی طرح ایسے دنیوی جھکڑ اٹھائے کہ ایک سیدھا سادہ بندہ بھی آوارہ گرد ہو گیا ۔ کافی دنوں تک یہ ماحول طرح طرح کی گردشوں سے مجھے دوچار کرتا رہا ۔مجھ پر زمانے کا گردوغبار چڑھاتا رہا ۔مجھ سے دھول پھنکواتا رہا ۔
علیزے نجف: ماحول اور حالات انسانی صلاحیتوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں انسانی صلاحیتوں کو مہمیز دینے میں عمومی طور پہ کن عناصر کا اہم کردار ہوتا اس حوالے سے آپ کا ذاتی تجربہ کیسا رہا؟
غضنفر: آپ نے درست لفظ استعمال کیا کہ ماحول مہمیز کا کام کرتا ہے ۔وہ ایسا ایڑ لگاتا ہے کہ باغ کا باسی بیاباں میں جا گرتا ہے اور صحرا میں بھٹکنے والا آدمی باغ میں گلگشت کرنے لگتا ہے ۔ میرے حالات نے مجھے دونوں طرح کے مزے چکھوائے۔ میں نے صحرانوردی بھی کی اور سیر, گلگشت بھی کیا ۔ گرم گردابی ہواؤں کے جھکڑ بھی کھائے اور باد بہاری کا مشکبار لمس کا مزہ بھی اٹھایا ۔
علیزے نجف : آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اور یہ تعلیمی سفر کس اسکول سے شروع ہو کر کس ادارے پہ جا کے ختم ہوا آپ کی ذہنی استعداد کی نشوونما میں تعلیمی اداروں نے کس طرح کا کردارکیا؟
غضنفر: گاؤں کے مکتب سے ابتدائی درجات ،سیمرا میڈل اسکول سے ساتویں درجے کا امتحان پاس کیا ۔اسکے بعد وی ۔ایم ۔ایم ایچ گوپال گنج سے ہائر سکینڈری اور گوپال گنج کالج گوپال گنج سے بی۔اے کیا ۔اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ گیا اور وہاں سے اردو میں ایم ۔اے پاس کیا اور وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ مدارس نے میرے اندر خوف خدا پیدا کیا ،میں سمجھتا ہوں کہ انسان کے ذہن ودل میں اس خوف کا ہونا ضروری ہے ۔اس سے دماغ کا گھوڑا قابو میں رہتا ہے ۔اگر یہ قابو میں نہ رہے تو یہ دوسروں کو تو روندے گا ہی اپنے مالک کو بھی لہولہان کر کے رکھ دےگا ۔اس خوف سے دل بھی موم بنا رہتا ہے ۔ اور دوسروں کے دکھ درد پر آنسوؤں کی طرح پگھلا کرتاہے اور یہ جب پگھلتا ہے تو بہتوں کی گرم آہوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اور کراہیں تھمتی ہیں ۔
اور مکتبوں نے وہ بنیاد رکھی جس پر علم و عمل کی عمارت کھڑی ہوئی ۔جسے کھڑی کرنے میں پہلے میرے کالج اور پھر میری یونیورسٹی نے نہایت اہم کردار نبھایا۔اگر میں ان اداروں میں نہیں جاتا تو میرے ذہن میں علم کا خزانہ نہیں آتا ۔ مجھے پرسوز کہانیاں نہیں ملتیں اور کہانیاں نہیں ملتیں تو میرا دل گداز نہیں ہوتا ۔دوسرے کا درد مجھے اپنا نہیں لگتا ۔میرے پاس لفظوں کا ذخیرہ نہیں ہوتا
جن کی مدد سے میں ہر طرح کی تصویریں بنا لیتا ہوں ۔ہر ایک کرب کو پیکر میں ڈھال لیتا ہوں ۔ہر طرح کے اظہار میں کامیاب ہو جاتا ہوں ۔
۔ علیزے نجف : تعلیمی ادارہ کسی بھی معاشرے کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے المیہ یہ ہے کہ وہی ادارہ خود غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے اس کے واضح اثرات معاشرے پہ مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اس صورتحال کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں اور کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے؟
غضنفر : بلا شبہ تعلیمی ادارے معاشرے کو استحکام بخشتے ہیں اور اگر وہ ادارے اس ارادے سے قائم کیے گئے ہیں کہ قوم و ملت کو قعر, مذلت سے نکال کر اوج, ثریا پر پہنچانا ہے جیسا کہ سرسید احمد خاں یا ان جیسے دوسرے مدبروں اور مفکروں کی نیت تھی تو ان کے استحکام میں میں تو فولاد جیسی مضبوطی آجاتی ہے مگر آپ کا یہ مشاہدہ حقائق پر مبنی ہے کہ ان اداروں کا استحکام کمزور اور متزلزل ہوتا جا رہا ہے ۔بنیادیں روز بروز ہلتی جا رہی ہیں ۔دیواروں پر نونی لگتی جا رہی ہے جیسے ان کی جڑوں میں شورہ پڑ گیا یو۔اگر وقت رہتے خیال نہیں رکھا گیا تو ایک دن یہ بھربھرا کر دھڑام سے گر جائیں گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر توجہ مرکوز کی جائے ،ان کی خرابیوں کے اسباب کا پتا لگایا جائے اور انھیں دور کرنے کی تدبیریں تلاش کی جائیں۔ منتظمین حرص و ہوس کو چھوڑ کر اداروں کی تنظیمی کاموں میں لگ جائیں۔اپنی صلاحیتیں ادھر ادھر ضائع کرنے کے بجائے نشوونما کے کاموں میں صرف کریں ۔اپنے اندر مشینری جیسی اسپرٹ پیدا کریں اور خدمت کے جذبے اور خلوص نیت سے کام کریں ۔اگر ایسا کیا گیا تو ان تعلیمی و تربیتی اداروں کا وقار پھر سے قائم ہو جائے گا اور پھر سے علم کی شعاعیں پھوٹنے لگیں گی ۔
علیزے نجف: آپ نے علامہ شبلی نعمانی پہ تنقیدی نظریات پر مقالہ لکھ کر پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی یہ ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب تھی آپ نے پی ایچ ڈی کے لئے علامہ شبلی کی شخصیت کا ہی انتخاب کیوں کیا، کیا یہ آپ کا اپنا انتخاب تھا یا کسی کا مشورہ اس تحقیقی مقالے کے لکھنے کے دوران آپ علامہ شبلی کے کس نظریے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور کیوں؟
غضنفر: میں نے تو کچھ اور موضوع منتخب کیا تھا اور وہ تھا “حالی اور شبلی کے نظریہء شعر کا تقابلی مطالعہ” مگر شعبے کی رسرچ کمیٹی نے اسے بدل کر ” شبلی کے تنقیدی نظریات” کر دیا ۔عام طور پر کسی تخلیق کار یا نقاد کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ کوئی فن پارہ تخلیق کرتا ہے یا جس کی رو سے کسی تخلیق کو پرکھتا ہے مگر شبلی کے نظریات بدلتے رہے ،اس لیے مجھے ان کے کسی ایک نظریے یا غالب نظریے پر بات کرنے کے بجائے ان کے مختلف نظریات پر توجہ مرکوز کرنی پڑی ۔اسلیے بھی ایسا کرنا پڑا تاکہ موضوع کا جواز فراہم کیا جا سکے ۔اور میں نے شبلی کو پڑھتے ہوئے پایا کہ ان کے افکار اور اظہار دونوں میں صفائی و شفافیت تھی۔
میں شبلی کے جمالیاتی نظریہء شعر سے زیادہ متاثر ہوا کہ یہ نظریہ فن پارے میں حسن کی تلاش کرتا ہے جو کسی تحریر کو ادب بناتا ہے اور اسے فنون لطیفہ کو درجہ دلاتا ہے اور حسن صرف اسلوب ہی میں نہیں ہوتا بلکہ مواد موضوع میں بھی مضمر ہوتا ہے ۔اور یہ حسن اپنے جلو میں جمالیاتی جلوے کے ساتھ ساتھ افادی جلوے بھی رکھتا ہے ۔
علیزے نجف: آپ کس پروفیشن سے وابستہ ہیں اس کا آغاز کس ادارے سے ہوا اور اب تک کن کن اداروں کے ساتھ آپ کو کام کرنے کا موقع ملا اس پورے سفر کا تجربہ کیسا رہا؟
غضنفر: میں اس پروفیشن سے وابستہ رہا جسے شاہجہان نے قید خانے کی زندگی میں اپنے لیے منتخب کیا ۔ یہ وہ پیشہ ہے جو بادشاہوں کو بھی قبضے اور قابو میں رکھنے کا ہنر سکھاتا ہے ۔ اندھیرے سے باہر نکلنے کا علم دیتا ہے ۔ عمل کے لیے راستے ہموار کرتا ہے ۔ پل صراط پار کراتا ہے اور ویران آنکھوں میں بھی قندیلیں جلا دیتا ہے ۔
سب سے پہلے مجھے اپنی مادری درس گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پڑھانے کا موقع ملا
کسی وجہ سے کچھ دنوں بعد یہ موقع میرے ہاتھ سے جاتا رہا مگر جلد ہی میرا مستقل تقرر گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک مشہور ادارے سنٹرل انسی ٹیوٹ آف انڈین لنگویجز میسور کے ایک ذیلی مرکز” اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سنٹر سولن ہماچل پردیش میں ہو گیا ۔ وہاں سے میں ترقی پا کر ریڈر کم پرنسپل کے عہدے پر لکھنؤ چلا گیا ۔ لکھنؤ کی ملازمت کے دوران ہی میرا تقرر ریڈر کے عہدے پر اے۔ایم ۔یو میں ہو گیا اور میں وہاں تین سال تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتا رہا ۔انھیں دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میں نے پروفیسر کی پوسٹ کے لیے اپلائی کیا اور خدا کے فضل و کرم سے مجھے اکادمی برائے فروغ استعداد, اردو میڈیم اساتذہ کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا ۔مجھے ایک ساتھ دو دو
عہدے حاصل ہو گئے ایک پروفیسری کا اور دوسرے ڈائریکٹر شپ کا ۔
اس پورے سفر کی روداد بیان کرنے کے لیے ایک دفتر چاہیے ۔میں بہت کچھ اپنی خود نوشت ” دیکھ لی دنیا ہم نے” میں لکھ چکا ہوں مگر اب بھی میرے پاس اتنا کچھ باقی ہے کہ لکھنا شروع کروں تو اور ایک کتاب بن جائے ۔یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ میں یہ داستان چھیڑوں کہ اگر چھڑی تو اسے چھوڑنا مشکل ہو جائے گا مگر آپ کا یہ سوال یوں ہی نہ چلا جائے ،اس لیے میں بس اتنا کہوں گا
کہ اس پورے سفر کا نچوڑ یہ ہے کہ
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ, سایہ دار راہ میں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آور
سفر یہ ختم ہو جائے نہیں ایسا نہیں ہو گا
بہت ہو گا تو ان اشجار کا سایہ نہیں ہو گا
میرے اس سفر میں اچھے موڑ بھی آئے اور برے موڑ بھی۔ نفرتیں بھی ملیی اور محبتیں بھی ۔دوست بھی ملے اور دشمن بھی ۔پھول بھی اور کانٹے بھی۔
اور یہ احساس بھی ہوا کہ نفرت محبت کے مزے کو بڑھا دیتی ہے ۔ کانٹے پھول کے لمس کو اور پر لطف بنا دیتے ہیں اور اگر برے موڑ نہ ہوں تو اچھے موڑ کی اچھائی کا پتا نہ چلے ۔
علیزے نجف : مسلسل سیکھتے رہنے سے ہی محکم خیالات و نظریات کی تشکیل ممکن ہوتی ہے اس میں فارمل تعلیم کے ساتھ انفارمل تعلیم کی معنویت بھی مسلّم ہے آپ انفارمل تعلیم کو کس قدر ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کے لئے کن ذرائع کو سب سے زیادہ معاون سمجھتے ہیں؟
غضنفر: شخصیت کی تکمیل کے لیے دونوں طرح کی تعلیمات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ خود کو سمجھنے اور دنیا کو جاننے کے لیے ان فارمل تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ فارمل ۔ سیکھنے کے لیے قدم قدم پر وسیلے موجود ہیں۔ بس پکا ارادہ کرنے کی ضرورت ہے ،وسیلے خود بخود ہاتھ میں آ جائیں گے ۔
9 ۔ علیزے نجف : آپ ایک اہل قلم ہیں قرطاس اس کا جزو لازم ہے آپ کا قلم و قرطاس سے رشتہ کیسے بنا کن عناصر نے آپ کو اس کی طرف مائل کیا اس تعلق کو آپ نے کیسے پروان چڑھایا ؟
غضنفر: میرے شہر کے کالج میں ایک مشاعرہ ہوا ۔ ان دنوں میں اسکول میں تھا ۔وہ ایک طرحی مشاعرہ تھا ۔ مصرعہء طرح تھا :
محافظ وطن کے وطن بیچتے ہیں
اس شعری زمین میں کچھ کہنے کے لیے میں نے بھی ارادہ کیا اور قلم میرے ہاتھ میں آ گیا ۔ہاتھ میں قلم لے کر میں نے سوچنا شروع کیا تو ذہن کے پردے پر کچھ شعر ابھر آئے اور میں نے انھیں صفحہ ء قرطاس پر اتار دیا۔ ان شعروں پر مجھے داد بھی مل گئی۔پھر مجھے لکھنے کا چسکا پڑ گیا۔ اور ایسا پڑا کہ فن پارے پر فن پارے خلق ہوتے چلے گئے ۔ کتابوں پر کتابیں بنتی گئیں۔
علیزے نجف: آپ ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ناول نگاری بھی آپ کی فکری کاوشوں کے تحت پروان چڑھی اس وقت آپ کے نو ناول منظر عام پہ آ چکے ہیں ان ناولوں کی تخلیق کرتے ہوئے آپ نے زندگی کے کن پہلوؤں کو شدت کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں کن خیالات کو مرکزیت حاصل رہی؟
غضنفر: مختلف اصناف میں مختلف موضوعات پر میری کتابیں دیکھ کر لوگ کہتے تو یہی ہیں کہ میں ہمہ جہت ادیب ہوں اور آپ کا اس طرف اشارہ کہ میں نے ایک بڑی تعداد میں ناول لکھے ہیں مگر یہ بتانا میرے لیے مشکل ہو گا ان میں زندگی کے کن کن پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
البتہ اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پانی اس پیاسے انسان کی کہانی ہے جسے سنسیر ایفرٹ کرنے کے باوجود پانی نہیں ملا کہ پانی کے منبعوں پر مگر مچھوں کا قبضہ ہے۔
کینچلی اس کرب کا قصہ ہے جس کا علاج معاشرہ،مذہب ،فلسفہ،ازم کسی کے پاس نہیں ۔ یہ کسی اپاہج شوہر کی کفالت کے مسئلے کو ہی پیش نہیں کرتا بلکہ کسی اپنے کے دکھ میں شراکت کے معاملے کو بھی پیش کرتاہے ۔
کہانی انکل’اپنی کہانیوں میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی پر طرح طرح سے کیے جانے والے ظلم وجبر کی روداد سناتا ہے اور بچوں کی رگوں میں اس جابرانہ نظام اور رویے کے خلاف ایسی آگ سلگاتا ہے کہ جسے دیکھ کر بڑی طاقتیں کہانی انکل کی زبان کاٹ ڈالتی ہیں ۔
دویہ بانی ایک بڑے طبقے کے احساس کو ڈیمیج کر دینے کی سازش کی کہانی ہے ۔اور یہ سازش اس لیے کی گئی کہ مٹھی بھر لوگ ایک بڑی آبادی کو اپنا غلام بنا سکیں ۔
فسوں میں اس جادو کو دکھایا گیا ہے جسے دنیا اپنے ہاتھوں سے اس طرح چلاتی ہے کہ روشنی کا متلاشی اور تاریکی کے خلاف آواز اٹھانے والا تھک کر راستے میں بیٹھ جاتا ہے ۔
مم میں بے نظیر کو کچھ ایسا سنایا اور بتایا جاتا ہے کہ وہ مگر مچھوں کے پیروں کے نیچے سے پانی کھسکا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
شوراب ان ترمیم یافتہ نوجوانوں کی زندگی کے سچ کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور ہیں مگر دوسری زمینیں بھی انھیں بے زمینی کے کرب میں مبتلا رکھتی ہیں اور اس کرب کا احساس ان کے رگ و ریشے میں شوراب بھرتا رہتا ہے ۔
اور مانجھی میں ویاس مانجھی یہ کتھا سناتا ہے کہ لکشمی اور درگا کی پوجا اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سرسوتی جی ہم سے ناراض ہو کر کہیں چھپ گئی ہیں
اور سںنسار میں جو اتنی ساری خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں وہ اسی لیے ہوئی ہیں کہ ہم نے سرسوتی جی کو چھوڑ دیا ہے ۔
علیزے نجف: افسانے حقیقی زندگی کا ہی ایک عکس ہوتے ہیں لیکن افسانوں میں پایا جانے والا آئیڈیل ازم اکثر موضوع تنقید بنا ہے آپ آئیڈیل ازم کو کس طرح دیکھتے ہیں آپ نے خود اپنے افسانوں میں اس کو کس طرح برتا ہے یا اس سے مکمل احتراز کیا ہے ؟
غضنفر: تصوراتی صورت حال کا تصور اس لیے کیا جاتا ہے کہ ہماری زندگی کے کینوس پر ایسی تصویریں ابھر جائیں جو ہمارے حواس میں لطف و انبساط اتار دیں ۔جو دل ودماغ کو صبر و قرار دیں مگر حقیقی دنیا میں ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ تصور چاہتا ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ تصور جو چاہتا ہے وہ نہیں ہوتا لیکن تصور کی یہ چاہتیں حقائق پر لگام ضرور لگاتی ہیں جن سے کسی حد تک توازن قائم رہتا ہے اور تصورات سے ملنے والے احساس, انبساط ذہن و دل کو التباس میں ڈالے ریتا ہے جس سے ایک خاص طرح کا اطمینان بھی حاصل ہوتا رہتا ہے ۔شاید یہ صورت حال آپ کو میری کہانیوں میں بھی مل جائے ۔
علیزے نجف: آپ کی فطرت میں تخلیقیت کا عنصر غالب ہے آپ نے تنقید نگاری کو بھی تخلیقی اصولوں کے ساتھ بِرتا ہے آپ کے خیال میں تنقید نگاری کے بنیادی اصول کیا ہیں تخلیق کرنا مشکل ہے یا تنقید کرنا کیا تنقید پہ بھی تنقید کی جا سکتی ہے؟
غضنفر : آپ کا یہ کہنا درست ہے کہ میری تنقید میں بھی تخلیقیت کی جھلک ملتی ہے اور تنقید کرتے وقت بھی شعوری یا لاشعوری طور پر یہ حقیقت میرے سامنے رہتی ہے کہ جب تنقید بھی ادب کا ایک حصہ ہے تو اس میں بھی تو ادبیت ہونی چاہیے اور ادبیت جن حربوں یا وسیلوں سے پیدا ہوتی ہے ان میں ایک حربہ یا وسیلہ اسلوب ہے ۔لہذا میرے اندر کا نقاد تنقیدی تحریروں میں بھی اسلوب کی کرشمہ سازی دکھا دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ تنقید کی زبان کو تخلیق کی زبان سے مختلف یونی چاہیے ۔اسے صاف ستھری اور سادہ یونی چاہیے ۔اس میں تخلیق جیسی چاشنی نہیں ہونی چاہیے ۔میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا ۔اس لیے کہ اس سے ہمارے بہت سارے ادیبوں کا تنقیدی سرمایہ تنقید دامن سے خارج ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ تنقید کی ایک قسم جمالیاتی تنقید بھی بے معنی ہو جاتی ہے ۔
آپ کے اس سوال کے اس سرے سے دو اور سوال بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ایک یہ کہ تخلیق کرنا مشکل ہے یا تنقید کرنا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی آسان نہیں ۔دونوں میں عالم, کشف سے گزرنا ہوتا ہے ۔دونوں ہی میں نین جلتے ہیں ۔ پتلی میں پیڑا ہوتی ہے ۔نسیں پھٹتی ہیں ۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا تنقید پر تنقید کی جا سکتی ہے تو اس کا جواب ہے ہاں کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے ۔
علیزے نجف : انسانی علم کے ترویج و ارتقاء میں تنقیدی رویے کا ایک بڑا کردار رہا ہے تنقید دراصل ایک تنقیحی عمل ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اب تنقید بھی اپنا معیار کھوتی جا رہی ہے مذہبی روایات سیاست، ادب ہر جگہ یہ ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے آپ کے خیال میں اس کے پیچھے کیا وجہ ہے اور کس طرح صحتمند تنقید کو پھر سے فروغ دیا جا سکتا ہے؟
غضنفر : بلا شبہ انسانی علم کے فروغ میں تنقید کا اہم کردار رہا ہے کہ اس نے علم کی ہمیشہ رہنمائی کی ہے ۔اسے غلط راستے پر جانے سے روکا ہے ۔ صحیح راہ دکھائی ہے۔ اس کے رخ بدلے ہیں ۔اس کے لیے نئے دروازے کھولے ہیں ۔
صحت مند تنقید کو فروغ دینے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنے ذہن و دل کو صحت مند بنایا جائے ۔تعصبات کی کثافتوں کو دور کیا جائے۔۔اپنے رویوں کو مثبت بنایا جائے۔ منفی رویوں سے بچا جائے۔ متن پڑھ کر تنقید لکھی جائے زبان کی باریکیوں پر دھیان دیا جائے۔ منطقی اور معروضی اپروچ اپنایا جائے۔
علیزے نجف: آپ نے خاکہ نگاری کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں کیا بنیادی فرق پایا جاتا ہے آپ نے اب تک کن شخصیات پہ خاکہ لکھا ہے اور ان سے آپ کس طرح متاثر ہوئے؟
غضنفر: خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں بنیادی فرق یہ ہےکہ خاکے میں کسی انسان کی شخصیت کے نمایاں اور نکیلے پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ زیادہ دھار دار بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ سوانح نگاری میں کسی انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کیا جاتا ہے اور ایک ایک پہلو کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔
میں نے اب تک تقریباً پچاس لوگوں کے خاکے لکھے ہوں گے جن میں میرے بزرگ بھی ہیں اور میرے خورد بھی اور میرے معاصر احباب بھی ۔
ظاہر ہے خاکہ انھیں کا لکھا جاتا ہے جن کی زندگی میں کچھ انوکھا پن ہوتا ہے ۔جن کی زندگی میں جھانکنے کی خواہش ہوتی ہے ۔جن میں کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے حظ حاصل ہوتا ہے ۔کچھ ترغیب ملتی ہے ۔تو میں نے انھیں لوگوں پر لکھا جو ان اوصاف سے متصف تھے ۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے تدریسی کتابیں بھی تخلیق کی ہیں تدریسی کتابوں کی تخلیق کے لئے ایک ادیب کو کن اضافی خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کس طرح تمام بچوں کی ذہنی استعداد کا خیال رکھا جاتا ہے؟
غضنفر: تدریسی نوعیت کی کتابیں وہی ادیب لکھ سکتا ہے جسے درس وتدریس کا تجربہ ہو ۔جو متعلم کی نفسیات کو سمجھتا ہو ،جسے درسیات کے مبادیات و اصولوں کا پتا ہو جسے متعلم ، ہدف اور مدت کے درمیان کے رشتے کا علم ہو جو کسی حد تک کریٹیو بھی ہو۔اور جو طلبہ کی مختلف ذہنی سطحوں سے بھی واقف ہو۔
علیزے نجف: بات تدریسی کتابوں کی تخلیق کی ہو رہی ہے تو اس ضمن میں ہم یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ موجودہ وقت میں پرائمری درجے کا جو نصاب ہے اس میں اتنا بوجھل پن کیوں بڑھتا جا رہا ہے بچے سارا سارا دن لکھنے پڑھنے میں ہی لگے رہ جاتے ہیں ٹیوشن کا بوجھ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی جسمانی سرگرمیاں تقریبا ختم ہونے کے قریب ہیں ایسا کیوں ہے نصاب میں تخفیف لانا کیا وقت کی ضرورت نہیں بنتا جا رہا آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
غضنفر : ایک ساتھ آپ نے کئی سوال کر دیے ہیں ۔میں ان کا سلسلے وار جواب دینے کی کوشش کروں گا ۔ آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ پرائمری درجات کے نصابات بوجھل کیوں ہے؟
تو میرے خیال میں اس کے کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کتابوں میں اسباق کا انتخاب متعلم (learners) کے آہنی سطح،ان کی لسانی لیاقت (vocabulary ذخیرہ ء الفاظ) اور ان کی دلچسپی کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا اسی لیے کسی سبق میں مواد ان کی سمجھ اور ذہنی سطح سے اوپر ہو جاتا ہے اس لیے سبق کو سمجھنے میں انھیں مشکل ہو تی ہے اور کسی سبق میں مواد آسان ہوتا ہے تو زبان مشکل ہو جاتی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نصاب تیار کرنے والے بیشتر حضرات کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کس ایج گروپ کے بچوں کے لیے ذخیرہ الفاظ کی تعداد کتنی ہوتی ہے ۔اور وہ کس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں اسی ذخیرہ الفاظ کو سامنے رکھ کر اسباق تیار کرنا چاہیے یا منتخب کرنا چاہیے ۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتاب میں جو اسباق شامل کیے گئے ہیں وہ اس گروپ کے ذہنی سطح سے بالا تر ہیں ۔یا کمتر ہیں ۔ نصاب اس لیے بہتر نہیں ہو پاتا یا بوجھل ہو جاتا ہے کہ نصاب کی تیاری کے وقت جن تین باتوں: متعلم، نشانہ اور مدت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اور بھی کئی اسباب ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ نصاب کو روائز کرنا نہ صرف یہ کہ وقت کی صورت ہے بلکہ نظام تدریس یا اصول, درسیات کا یہ تقاضا بھی ہے کہ ہر پانچ سال پر نظر ثانی کی جائے اور زمانے کی تبدیلی اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر اس میں مناسب ترمیم و تنسیخ کی جائے۔ متون یعنی اسباق کی مشقوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے تاکہ متن ہر طرف سے پوری طرح کھل جائے اور اس کا مفہوم متعلم کے دل ودماغ کے ریشے ریشے میں گھل جائے۔
علیزے نجف: ‘دیکھ لی ہم نے دنیا’ آپ کی خودنوشت ہے جس میں آپ نے اپنی زندگی کے سبھی پیچ و خم کو بیان کیا ہے خودنوشت لکھتے ہوئے انسان اپنی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات پہ ازسر نو غور کرتا ہے یقینا آپ نے بھی کیا ہوگا اس جدوجہد کے دوران آپ نے اپنی زندگی میں کن نظریات کو غالب پایا اور آپ کی زندگی کا حاصل کیا رہا؟
غضنفر: مضبوط دل ودماغ پر نظریات غالب نہیں ہو پاتے۔ اللہ کا شکر ہے ک مجھے اس نے ایسا مضبوط اور توانا بنایا ہے کہ کوئی بھی نظریہ مجھ پر حاوی نہ ہوسکا۔نہ زندگی کرنے میں اور نہ ادب تخلیق کرنے میں۔یہی وجہ ہے کہ مجھ پر کسی طرح کا لیبل نہ ہو سکا۔ میں نے ادب کو ادب جانا۔ فن کو فن سمجھا اور اسی طرح سے برتا ۔ میں نے خود کو کسی ازم مثلاً ترقی پسندیت ،جدیدیت ،مابعد جدیدیت سے کبھی وابستہ نہیں کیا اس لیے کہ میرا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے تخلیق کار اپنے کو محدود کر لیتا ہے جبکہ تخلیقیت کی حدیں لا محدود ہوتی ہیں ۔
علیزے نجف: آپ کی اب تک دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی کتابوں کی تفصیل خود بتائیں اور ان میں سے وہ کون سی کتابیں ہیں جس کی تخلیق کا خواب آپ نے ابتدائی عمر میں ہی دیکھا تھا کیا اس کے حوالے سے آپ مستقبل کے لئے کوئی ہدف بھی رکھتے ہیں؟
غضنفر: خود سے اپنی کتابوں کے نام گنوانا اچھا تو نہیں لگتا مگر چونکہ یہ آپکے انٹرویو کے فارمیٹ کا حصہ تو مجھے بتانا پڑ رہا ہے کہ میرے نو ناول: پانی ،کینچلی،کہانی انکل،دویہ بانی ،فسوں، وش منتھن ، مم ، شوراب اور مانجھی ، دو افسانوی مجموعے: حیرت فروش اور پارکنگ ایریا ،تین خاکوں کے مجموعے: سرخ رو، روئے خوش رنگ اور خوش رنگ چہرے ، دو شعری مجموعے: آنکھ میں لکنت اور سخن غنچہ ، تین مثنویاں: کرب, جاں، قمر نامہ اور حرز, جاں، آٹھ تنقیدی وتدریسی نوعیت کی تصانیف: مشرقی معیار, نقد، آسان اردو قواعد ،زباں و ادب کے تدریسی پہلو، تدریس, شعر و شاعری ،فکشن سے الگ،جدید طریقہ ء تدریس ،لسانی کھیل ،فرہنگ مرکبات غالب ،
ایک ڈراما کوئلے سے ہیرا اور ایک داستان ،داستان مرد,جنوں پسند کل انتیس تصنیفات منظر عام پر آ چکی ہیں ۔
ان میں سے کسی بھی کتاب کا خواب میں نے نہیں دیکھا تھا البتہ میرا دل کہتا تھا کہ میں آگے چل کر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور لکھوں گا جس سے میری پہچان بنے گی ۔مستقبل کے لیے کوئی خاص ہدف نہیں ہے ،ہاں یہ خواہش ضرور ہے کہ میں اپنی آخری سانس تک کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں ۔
علیزے نجف : آپ نے شعری صنف میں بھی خاطر خواہ طبع آزمائی کی ہے۔ آپ نے پہلا شعر کس عمر میں کہا اور آپ نے کس کی شاگردی میں شعری صلاحیتوں کو پروان چڑھایا کیا اور کن شعراء کے کلام سے آپ کو مدد حاصل ہوئی؟
غضنفر: میں نے اپنا ادبی سفر شاعری سے ہی شروع کیا ۔
پہلی باقاعدہ غز 1971 میں کہی جب میں بی ۔اے فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا ۔ اس غزل کے دو شعر یاد رہ گئے ہیں:
کیچوے کے سر پہ پھن کو دیکھیے
بہہ رہی الٹی پون کو دیکھیے
کس میں کتنی گرد ہے بیٹھی ہوئی
اپنے اپنے پیرہن کو دیکھیے
میری شاعری کی رفتار اس وقت بڑھی جب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہو گیا ۔
میری خوش قسمتی تھی کہ شہریار جیسے نآمور ، باکمال اور اسم با مسمی شاعر کی شاگردی کا شرف مجھے حاصل رہا۔ بس انھیں سے میں نے اصلاح لی۔ انھوں نے میری تجسس میں بھی میری رہنمائی فرمائی اور
ملازمت کے حصول میں بھی وہ مدد گار ثابت ہوئے۔ شاعری کی تمام اہم اصناف میں طبع آزمائی کی ۔یہاں تک کہ میں نے تین تین مثنویاں بھی لکھیں جس کے بارے میں اہل نظر نے لکھا کہ میں نے ایک مری ہوئی صنف میں روح پھونک دی ہے ۔ پہلی مثنوی کرب جاں کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں تو پوری ایک کتاب آ چکی ہے جس میں تقریباً پینتالیس پچاس مضامین شامل ہیں۔
علیزے نجف : کہتے ہیں شعری صلاحیت خدا داد ہوتی ہے جسے کوشش کرکے نہیں سیکھا جا سکتا آپ اس نظریے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ بہترین درجے کی شاعری کرنے کے لئے استاد کی رہنمائی کس حد تک ضروری ہوتی ہے؟
غضنفر : بات تو صحیح ہے کہ شعری صلاحیت خدا داد ہوتی ہے ۔اور صرف شعری صلاحیت ہی کیوں ساری صلاحیتیں ہی انسان کو خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہیں ۔ہاں انسان محنت اور مشقت سے ان صلاحیتوں کو صیقل کرتا ہے ۔ ان کو منجھ کر چمکاتا ہے ۔دھار دار بناتا ہے ۔ اس محنت میں یقیناَ استاد معاون ثابت ہوتا ہے کہ وہ فن شاعری کی باریکیوں سے واقف ہوتا ہے ۔استاد کی رہنمائی میں غلطیوں کے امکانات کم ہوتے ہیں ۔خصوصا عروضی غلطیاں پکڑ میں آ جاتی ہیں اور آسانی سے دور بھی ہو جاتی ہیں ۔
علیزے نجف : اردو زبان کی بساط پہ آپ کی تخلیقات نے جنم لیا اور اسے فروغ ملا یوں آپ نے اردو زبان کے نشیب و فراز کو قریبی جانا اور سمجھا ہے اس وقت اردو زبان کی جو حیثیت ہے اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے اس کو درپیش خدشات و امکانات کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
غضنفر: یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے بلکہ یہ یہی میری کرم بھومی بھی رہی ہے اور موضوع پر میں نے سوچا بھی بہت ہے اور لکھا بھی کافی ہے ۔اس وقت اوپر سے دیکھنے پر لگتا ہے کہ اردو زبان وادب کا دائرہ پھیل رہا ہے ۔ مقامی اور عالمی ہر سطح پر اردو کے خوب پروگرام ہو رہے ہیں ۔ کافی تعداد میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں ۔خوب انعمات بنٹ رہے ہیں ۔اردو کے اہل قلم مالا مال ہو رہے ہیں ۔بعض تنظیموں اور اداروں نے اس کے معیار کو عالمی سطح کے معیار پر پہنچا دیا ہے مگر اندرون کا معاملہ یہ ہے کہ اپنوں سے بھی اس کا رشتہ کٹ چکا ہے۔ اسکول تو اسکول اردو گھروں سے بھی غائب ہو چکی ہے۔اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اس صورت حال کا اردو والوں کو ملال بھی نہیں ہے ۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت کی معتبریت کا عالم یہ ہے کہ آپ نے نہ صرف کتابیں تخلیق کی ہیں بلکہ آپ کی شخصیت پہ ادیبوں نے متعدد کتابیں بھی تخلیق کی ہیں یہ ایک آپ کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے اس کے علاوہ توصیفی اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوئے ان اعزازات کے بارے میں بھی ہمیں بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کو پہلا اعزاز کب اور کس خدمت کے لئے نوازا گیا؟
غضنفر: انعامات و اعزازات کے پیمانے اب بدل چکے ہیں۔یہ عام طور پر ان کی جھولیوں میں گرتے ہیں بلکہ ڈالے جاتے ہیں جن کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں یا ان ہاتھوں کو کچھ دوسرے ہاتھ تھامے رہتے ہیں مگر اپنے حصے میں آئے انعاموں کا ذکر نہ کرنا بھی ناشکری ہوگی اس لیے بتا دوں کہ جو قابل ذکر انعامات مجھے حاصل ہوئے ہیں ان میں اقبال سمان کے علاؤہ اتر پردیش اردو اکیڈمی اور بہار اردو اکادمی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ س ہیں اوران میں صد ف انٹرنیشنل ایوارڈ بھی شامل ہے ۔
علیزے نجف: آپ گزشتہ کئی دہائیوں سے قلم کے پیچ و خم سے نبرد آزما ہیں اس کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز بھی ہمراہ رہے اب تک کے تجربات کی روشنی میں زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کس طرح کی اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے؟
غضنفر: کامیابی کے پیمانے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر ایک کا پیمانہ مختلف ہو سکتا ہے۔ پھر کوئی کروڑوں پا کر بھی خوش نہیں ہوتا اور کوئی محض چند کوڑیوں سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ اللہ نے مجھے نفس مطمئنہ کی دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔اس لیے ہر حال میں مست رہا۔
علیزے نجف: ہر انسان کی شخصیت کا کچھ ایسا گوشہ ہوتا ہے جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے آپ اپنے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں جو اب تک شاید ہی کسی کو معلوم ہو وہ کوئی عادت یا واقعہ بھی ہو سکتا ہے؟
غضنفر: دیکھ لی دنیا ہم نے ، میں میں اپنے بارے میں کافی کچھ لکھ چکا ہوں ۔اور صاف صاف بیان کر چکا ہوں ۔پھر بھی ہر ایک انسان کی طرح میرے پاس بھی ممکن ہے کچھ ایسی باتیں ہوں جو میرے سامنے بھی نہ آنا چاہتی ہوں۔
علیزے نجف:لکھنے پڑھنے کے علاوہ آپ کے اور کیا مشاغل ہیں اور اس کے لئے کیسے وقت نکالتے ہیں اور اس مصروف زندگی میں خود کو کس طرح وقت دیتے ہیں؟
غضنفر: اب تو میرے پاس وقت ہی وقت ہے ۔ پڑھنے لکھنے کے علاوہ اس عمر میں اور کیا مشاغل ہو سکتے ہیں ۔ہاں ایک مشغلہ ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں اسے فیس بک پر پوسٹ کر تا ہوں اور صبح سے رات گئے تک کمینٹس پڑھتا رہتا ہوں ۔اور چھوٹے سے پردے پر بڑے بڑے مظاہر بھی دیکھتا رہتا ہوں جو باطن کی بند کوٹھریوں سے نکل نکل کر جسم و جان کے سربستہ رازوں کو کھولتے رہتے ہیں ۔