ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ انسان نے جس کے لئے کوشش کی وہ اسے ضرور ملے گی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: ’’جب جب میرے منصوبے ناکام ہوئے میں نے اللہ کو پہچانا‘‘۔ انسان منصوبے بناتا ہے، کوشش کرتا ہے، کبھی کامیابی قدم چومتی ہے اور کبھی کامیابی کی منزل کے قریب پہنچ کر بھی اس سے دور رہ جاتا ہے۔ اس لئے تقدیر پر یقین ایمان کی کسوٹی ہے۔ انسان کبھی سب کچھ پالینے کی حرص میں سب کچھ کھودیتا ہے اور اس کی محرومی پر کسی کو کبھی افسوس نہیں ہوتا۔ ہاں! جب تک انسان کے پاس دولت، اقتدار ہے دنیا اس کے ساتھ ہے۔ جب وہ اس سے محروم ہوجاتا ہے تو جس طرح شام ڈھلتے ہی سایا بھی غائب ہوجاتا ہے اُسی طرح وہ لوگ جانثاری کا بھرم بھرتے ہیں وہ بھی نظر نہیں آتے۔ اس پس منظر میں اگر ششی کلا نٹراجن کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کا جائزہ لیں تو کبھی رشک بھی آتا ہے اور کبھی عبرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت جب ششی کلا کے لئے تاملناڈو کی چیف منسٹر کی کرسی تقریباً مل چکی تھی‘ صرف حلف لینے کی دیر تھی‘ پہلے کارگزار چیف منسٹر او پی سیلوم کے اعلان بغاوت نے پہلی رکاوٹ کھڑی کی اور پھر غیر محسوب اثاثہ جات کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئے 4سال کی قید اور 10کروڑ روپئے جرمانے کی سزا سنائی۔ ششی کلا جو 61برس کی ہیں‘ 10برس تک الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ اور جب یہ سزا کی میعاد ختم ہوگی تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں وہ دم خم باقی رہے گا یا نہیں۔ اقتدار اور آزادی سے محرومی‘ کے بعد انسان ہر پل مرتا ہے۔ اپنے ساتھ چھوڑ کر پرائے بن جاتے ہیں تو حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
کارگزار چیف منسٹر او پی سیلوم چیف منسٹر برقرار ہیں گے یا نہیں یہ بہت جلد معلوم ہوجائے گا۔ ششی کلا نے اپنے وفادار وزیر پی ڈبلیو ڈی پالنا سامی کو اے آئی اے ڈی ایم کے کا جنرل سکریٹری مقرر کیا ہے جنہوں نے ریاستی گورنر سے ملاقات کرکے تشکیل حکومت کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ ششی کلا نے اپنے گولڈن بے ریسورٹ میں جن ارکان اسمبلی کو ’’باؤنسرس‘‘ کی نگرانی میں رکھا تھا‘ اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اِن ارکان اسمبلی کی انہیں مکمل حمایت حاصل ہے‘ آیا وہ او پی سیلوم کے کیمپ میں آجائیں گے یا ششی کلا کے زوال کے باوجود ان کا ساتھ دیں گے۔ جو بھی ہو یہ بات طئے ہے کہ وقتی طور پر کامیابی اوپی سیلوم کی بھی ہے۔ اب چاہے جو کچھ کہا جائے کہ او پی سیلوم کو بی جے پی کی حمایت تھی یا ڈی ایم کے نے انہیں مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا، کارگزار چیف منسٹر کو جو کام کرنا تھا‘ انہوں نے پہلے کردیا۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ نے پوری کردی۔ یہ اور بات ہے کہ ان تمام واقعہ میں سبرامنیم سوامی کا رول بڑا ہی اہم ہے جنہوں نے 1990 کے دہے میں جئے للیتا اور ششی کلا کے خلاف سات کروڑ کی غیر محسوب اثاثہ جات یا رقم اکٹھا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔ جئے للیتا اگر بقید حیات ہوتیں تو شاید انہیں بھی جیل کی ہوا کھانی پڑتی۔ دسمبر میں وہ چل بسی تھیں۔ ان کی موت کی وجوہات کی بھی تحقیقات کا کارگزار چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ کیوں کہ انہیں شبہ ہے کہ جئے للیتا کی موت قدرتی نہیں تھی۔ اور ہاسپٹل میں شریک ہونے سے پہلے ان کے ساتھ دھکم پیل کی گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جتنے دن وہ ہاسپٹل میں رہیں اس دوران او پی سیلوم کو ان سے ملاقات کا موقع نہیں دیا گیا۔ ششی کلا اور انکے کیمپ نے ان سے چیف منسٹر کے عہدہ سے زبردستی استعفیٰ حاصل کیا تھا اور جب انہیں نے اعلان بغاوت کیا تو اسکے ساتھ ہی ششی کلا نے 128ارکان اسمبلی کو اپنے فائیو اسٹار ریسورٹ میں منتقل کردیا تھا جہاں ان کی سخت نگرانی کی جارہی تھی۔ دو ارکان اسمبلی اسی طرح بچ نکل کر سیلوم کے کیمپ میں پہنچ گئے تھے۔ ششی کلا نے یہ ہنر شاید فاروق عبداللہ اور چندرا بابو نائیڈو سے سیکھا ہے!
ششی کلا نٹراجن کا سیاسی سفر ان کے عروج کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر مرد کی کامیابی میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘ یہاں ششی کلا کی ترقی میں اس کے شوہر نٹراجن کا بڑا اہم رول رہا۔ جو تاملناڈو کی آئی اے ایس آفیسر وی ایس چندرلیکھا کے ساتھ ایک پبلک ریلیشن آفیسر کے طور پر ملازم تھے۔ یہ انتہائی عیار، مکار شخص جو یہ جانتا تھا کہ کس سے کیسا کام لیا جائے۔ کس ہستی کو کیسے استعمال کیا جائے۔ اس نے چندرلیکھا سے درخواست کی تھی کہ ایک مرتبہ ششی کلا کی جئے للیتا سے ملاقات کرادیں۔ ششی کلا اُن دنوں ویڈیو کیسٹس کو کرایہ پر دینے کا بزنس کیا کرتی تھی۔ چندرلیکھا کی کوشش سے جئے للیتا سے ششی کلا کی ملاقات ہوئی‘ اس نے ایک انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جسے جئے للیتا نے پسند کیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد ایک ویڈیو گرافر تاملناڈو کی دوسری سب سے بڑی بااثر شخصیت بن گئی۔ ششی کلا نے غیر محسوس طریقہ سے جئے للیتا کا اور ان کے قریبی ارکان خاندان کا اعتماد حاصل کیا۔ دنیا جانتی ہے کہ جئے للیتا کو جو مقام ملا وہ محض ایم جی رامچندرن سے قربت کی بناء پر۔ ایم جے آر کی موت کے بعد انتہائی نازک اور بحران کی دور سے وہ گزر رہی تھی اور اسی دور میں ششی کلا ان سے اس قدر قریب ہوگئیں کہ جئے للیتا کا گھر اس کا اپنا گھر بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بھانجے سدھاکرن کو جئے للیتا نے منہ بولا بیٹا بنالیا اور اس کی شادی اس قدر دھوم دھام سے کی گئی کہ انکم ٹیکس کا محکمہ حرکت میں آگیا اور گھر اور دفاتر پر دھاوے ہونے لگے۔ جئے للیتا اور ششی کلا کی قربت سے اے آئی اے ڈی ایم کے کارکنوں میں انتشار پیدا ہوا پھر کم از کم تین موقعوں پر جئے للیتا نے ششی کلا کو اپنے گھر سے نکال بھی دیا مگر بہت جلد اختلافات ختم بھی ہوگئے۔
جئے للیتا کی بگڑتی ہوئی صحت کا ششی کلا نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اربا ب اقتدار کا ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے جئے للیتا کے بھانجے دیپک جئے کمار کو اپنا دوست بنالیا مگر بھانجی دیپا جئے کمار کو بے دخل کردیا۔ اس طرح جئے للیتا کی جائیداد کی مختارکل بننے والی تھی بلکہ لگ بھگ بن چکی تھی۔ چوں کہ تاملناڈو کی عوام کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ بعض ہستیوں سے جنون کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کے لئے اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔ پہلے اَنّادورائے، ایم جی آر اور پھر جئے للیتا کے چاہنے والوں کا یہی حال ہے۔ عوام کے مزاج جئے للیتا کی موت کے بعد کے حالات کے پیش نظر انہیں اے آئی اے ڈی ایم کے کا جنرل سکریٹری بھی بنادیا گیا اور تاج پوشی کی تیاری بھی مکمل کرلی گئی تھی۔ کسی کے وہم و گماں میں تک نہ تھا کہ ہمیشہ خاموش رہنے والے پنیرسیلوم کی خاموشی دراصل کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
بہرحال جو واقعات رونما ہوئے اس نے پورے ملک کو چونکا دیا۔ جئے للیتا سے جو عوام کی محبت یا عقیدت نہیں ہے اب وہ باقی نہیں رہے گی کیوں کہ ان کے ساتھ سپریم کورٹ ججس تھے بعد از مرگ کسی قسم کی مروت نہیں کی۔ انہیں بھی ششی کلا کی طرح مجرم قرار دیا گیا۔لہٰذاتاملناڈو کی تاریخ میں جئے للیتا ایک بدعنوان چیف منسٹر یا اے آئی اے ڈی ایم کی قائد کے طور پر یادرکھی جائیں گی۔ ششی کلا نٹراجن نے چیف منسٹر کی گدی تک پہنچنے کے لئے جو جو حربے اختیار کئے اس میں وہ بڑی حد تک کامیابی ضرور رہی مگر جس بلندی پر پہنچ وہ ذلت و رسوائی کی کھائی میں گری ہے‘ اس کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونا ناممکن ہے۔ ویسے بھی انہوں نے خودسپردگی کے لئے اپنی ناسازی صحت کا بہانہ کرکے چار ہفتوں کی مہلت مانگی ہے۔ یہ چار ہفتے ارکان اسمبلی کو خریدینے، وفاداروں کو برقرار رکھنے کے لئے کافی ہوں گے۔
تاملناڈو میں چیف منسٹر کے عہدہ پر کون فائز رہے گا؟ اس سے اب عام آدمی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یوں تو پنیرسیلوم کو تائید کی پیشکش کی اطلاع سے ڈی ایم کے نے انکار کیا ہے مگروہ سیاسی جماعت ہی کیا جو وقت اور حالات کا فائدہ نہ اٹھائے۔او پی سیلوم کی چیف منسٹر کے عہدہ پر برقراری یا پھر ان کے بجائے ششی کلا کی جانشین کا انتخاب یا جئے للیتا کی بھانجی میدان میں اتریں گی‘ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ فی الحال وقت ہے‘ تاملناڈو کی سیاسی حالات بالخصوص ششی کلا کے زوال اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کا ۔ انسان چاہے بلندیوں تک پہنچنے کے لئے کتنا ہی شارٹ کٹ راستہ اختیار کیوں نہ کرے اس کا ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اور داغدار ماضی مستقبل کو بھی تاریک کردیتا ہے یہ سچ ہے کہ ہمارے درمیان ایسی مثالیں بھی ہیں‘ کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگے اور دامن بدعنوانیوں کے داغوں سے بھرے پڑے ہیں وہ اونچے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ضرور ہوئے‘ مگر یہ کامیابی‘ ترقی عارضی ہے۔ قدرت کی جانب سے دی گئی ڈھیل ہے‘ جس دن کارخانہ قدرت میں ہلچل ہوگی یہی ڈھیل شکنجہ بن جائے گی۔ اور آنے والی نسلوں کے لئے درس عبرت بن جائے گی۔
انسان کا مقدر لکھ دیا گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا اختیار ضرور دیا ہے کہ یا تو اچھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ۔ سیدھے راستے عام طور پر دشوار گزار ہوتے ہیں مگر جب منزل ملتی ہے تو چھینی نہیں جاتی۔
( مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
رابطہ : 9395381226





