مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مسلم اسکالروں اور علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کی حقیقت کوسامنے لائیں اور بتائیں کہ عورت کے مسئلے اور ان سے متعلقہ احکامات میں صحیح اور درست وہی ہے جو اسلام نے کہا ہے، دقت یہ ہے کہ قرآن واحادیث سے حوالہ دے کر انہیں سمجھائیے تو اسے قدیم کہہ کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی بحث کا سارا رخ منطقی ہوتا ہے، اور قرآن واحادیث کو بالائے طاق رکھ کر ہوتا ہے ، حالانکہ مسلمانوں کے لیے یہ بات کافی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، اللہ رسول کے حکم کے آگے سرجھکا دیاجائے،کیونکہ ہماری سمجھ کمزور ہو سکتی ہے،لیکن قرآن واحادیث کی تعلیم کی معقولیت میں کوئی کمزوری نہیں ہے ۔
مثال کے طور پر لڑکے لڑکیوں کی نابالغی میں شادی کا مسئلہ ہے ،نا بالغی کی شادی حکومت کی نظر میں قانونا جرم ہے، گو اس کا اطلاق ابھی تک مسلم پرسنل لا پر نہیں ہوتا ،لیکن یہی قانون داں حضرات اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اگر نا بالغ لڑکے اور لڑکی نے آپسی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کر لیا تو اس میں داروگیر کی گنجائش نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ تعلق رضا مندی سے ہوا ہے ، اس لیے اسے ریپ (Rape) زنا بالجبر قرار نہیں دیا جاسکتا، جائز طریقے سے نا بالغی میں کی جانے والی شادی ہندوستانی قانون میں درست نہیں ، البتہ نا جائز طریقے سے نا بالغی کی عمر میں رضا مندی سے زنا کرنا ان کے نزدیک جائز ہے، شریعت کہتی ہے کہ جائز طریقہ سے نکاح نابالغی میں بھی جائز ہے، کیونکہ نابالغ کا نکاح بھی رضا مندی سے ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ اس میں دونوں کے ولی کی رضا مندی معتبر ہے ، کبھی مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کم عمری میں شادی کرنی ہوتی ہے ، اس لیے کسی بھی طرح اس عمل کو غیر منطقی اور غیر عقلی نہیں کہاجا سکتا ۔
اسی طرح چار شادیوں کا مسئلہ ہے، یہاں یہ بات رکھنے کی ہے کہ شریعت نے چار شادی کرنے کا نہ تو حکم دیا ہے اور نہ ہی اسے لازم قرار دیا ہے، یہ تو صرف ایک اجازت ہے جو عدل جیسی سخت شرط کے ساتھ دی گئی ہے، اسی لیے چار شادیوں کا رواج کم ہے ، اور اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اقل قلیل ہے، ہر آدمی اپنے گاؤں اور محلوں میں ایک سے زائد شادی کرنے والوں کا سروے کرکے اس حقیقت کی تصدیق کر سکتا ہے، لیکن میڈیا نے اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کر رکھا ہے گویا سارے مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں، دوسری طرف ہندوستانی قانون میں (لیو ان ریلیشن شپ) کو درست سمجھاجاتا ہے، بیوی نہیں ہے، لیکن بیوی کی طرح ہی مرد کے ساتھ لڑکیاں اور عورتیں رہ رہی ہیں ، قانون نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ وہ جائیداد جو مرد نے ذاتی جدوجہد سے حاصل کیا ہے وہ اس کے ترکہ میں حصہ پانے کی بھی حقدار ہے ، ناجائز تعلق زندگی بھر رکھا ، وہ اس کی کمائی میں حصہ پارہی ہے،پھر ان کی تعداد بھی مقرر نہیں ، جتنی کو زندگی کا پارٹنر بنا لو، اسلام جائز طریقے سے چار کی اجازت دیتا ہے تو اس پر سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں، اور دانشور طبقہ ناک بھوںء چڑھانے لگتا ہے ، دونوں کی صورت حال پر غور کرکے فیصلہ خود ہی کر سکتے ہیں کہ نکاح والی عزت کی زندگی بہتر ہے یابے نکاحی ذلت کی زندگی ، لا تعداد عورتوں سے تعلق کے مقابلے چار نکاحی عورت میں ہی آپ کو عزت نظر آئے گی ۔
ایک سوال طلاق کے حوالہ سے اٹھایا جاتا ہے،یہ چاہتے ہیں کہ طلاق کا حق عورتوں کو بھی دے دیاجائے ،جس طرح نکاح اس کی مرضی سے ہوتا ہے طلاق میں بھی اس کی مرضی شامل رہے،مردوں کو طلاق کا حق دینے میں خود عورتوں کا تحفظ ہے، خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے شریعت نے یہ حق مردوں کو دیا ہے ، اگر یہ حق عورتوں کومل جائے تو جذباتیت کی وجہ سے خاندان زیادہ ٹوٹیں گے ، پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے بالکل یہ اسے اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے، اسے اس کا پابند کیا گیا کہ اگر وہ رشتے کو پسند نہیں کرتی تو اس کے وجوہات بتا کر بعض حالتوں میں قاضی سے اپنا نکاح فسخ کر اسکتی ہے اور بعض حالتوں میں خلع لے کر جان خلاصی کر واسکتی ہے، اس طرح رشتے ٹوٹیں گے بھی تو ان کی وجوہات معقول ہوں گی ، اور بہت نا گزیر حالت میں ہی ایسا ہوا کرے گا۔
ایک سوال تین طلاق کے نفاذ پر بھی اٹھایا جاتا ہے ، کہ تین طلاق ایک مجلس میں دینا شریعت کے مقررکردہ طریقے کے خلاف ہے ، اس لیے اس کو نافذ نہیں ہونا چاہیے، یہاں اعتراض کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک ہے کسی چیز کا غلط استعمال اور ایک ہے غلط استعمال کے نتائج و اثرات ، دو نوں الگ الگ چیز ہے کسی کو گولی مارنا غلط ہے ، بندوق کا استعمال غلط کیا گیا، کسی کو چاقو مار دی گئی ، چاقو کاغلط استعمال ہوا، لیکن کون عقلمند یہ کہے گا کہ بندوق اور چاقوکے غلط استعمال کی وجہ سے آدمی بھی محفوظ رہ جائے گا ، اس کی جان نہیں جائے گی ، کیونکہ آلہ کا غلط استعمال ہوا ہے ، جس طرح گولی اور چاقو لگنے کے بعد آدمی کی جان جا سکتی ہے آدمی زخمی ہو جاتاہے، اسی طرح تین طلاق کا یک بارگی استعمال واقعتاً غلط ہے، لیکن استعمال کے غلط ہونے کے باوجود اثرات کے طور پر نکاح ٹوٹ جائے گا اور عدد کے اعتبارسے حکم لگایا جائےگا۔ طلاق کا نفقہء عدت شوہر کے ذمہ ہے ، اسے اچھے طریقہ پر اپنے گھر سے الوداع کہنا بھی اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے یا تا حیات، سابق شوہر سے کھانا خرچہ دلانا کون سی عقلمندی ہے، جب شوہر نے عورت کو چھوڑ دیا ، اور اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تو اب وہ دوسری عورتوں کی طرح غیر ہے، سابق شوہر سے اس کاکوئی رشتہ کسی درجہ میں باقی نہیں ہے، اس لیے عدت گذرنے کے بعد وہ اپنے نفس کی مجاز ہے ،کسی بھی مؤمن مرد سے رشتہ کر سکتی ہے ، پھر بھلا مرد کیوں اس نفقہ کا ذمہ دار ہوگا، اور کیوں اسے Maintenance دلایا جائے گا، یہ عورت کی غیرت کے بھی خلاف ہے کہ جس نے اسے اپنے نکاح میں باقی نہیں رکھا اس کے کھانا خرچہ پر وہ زندگی گذارے، کھانا خرچہ لازم کرنے کی وجہ سے عورت کے گناہ میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہے، طلاق کے بعد کھانے خرچہ کا تعلق اسے کبھی بھی معصیت میں مبتلا کر سکتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی کھڑا کیاجاتا ہے کہ عورت بوڑھی ہو گئی اور اس کے شوہر نے طلاق دیدی ، عمر کی اس منزل میں اس کی شادی بھی نہیں ہو سکتی پھر وہ کہاں رہے گی ، کس طرح زندگی بسر کرے گی ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے کسی کو لاوارث نہیں چھوڑا ہے، اس حالت میں اس کا کھانا خرچہ ان لوگوں پر لازم ہے جو عورت کے پاس مال ہونے کی صورت میں اس کے وارث ہوتے، وہ والد بھی ہوسکتے ہیں اور بھائی وغیرہ بھی ، میکے میں بھی کوئی نہیں ہو تو حکومت اور امارت شرعیہ کے امیر اس کے ولی ہوں گے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انا ولی من لا ولی لہ۔ جس کا کوئی ولی نہیں ، میں اس کا ولی ہوں، یعنی حکومت اور امیر اس کی کفالت کے لیے فکر مند ہوں گے ، اسی وجہ سے علماءنے لکھا ہے کہ اسلام میں کوئی لا وارث نہیں ہے ، جس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری کسی پر نہ ہو ۔
طلاق کے حوالہ سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ غصہ اور نشہ کی طلاق کو نافذ نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ ان دونوں حالت میں آدمی اپنے آپ میں نہیں رہتا ، یہ اعتراض بھی لایعنی اور فضول ہے ،کبھی آپ نے سنا کہ کسی نے اپنی بیگم کو محبت میں طلاق دیا ہو، طلاق تو غصہ ہی میں دی جاتی ہے ، غصہ کی طلاق کو نافذ نہ ماننے کا مطلب ہوگا کہ طلاق تماشہ بن کر رہ جائے اور اس کے اثرات واقع نہ ہوں ، اسی طرح نشہ کی طلاق کا معاملہ ہے ، نشہ میں جو شخص طلاق دے رہا ہے، وہ اس قدر ہوش وحواس میں ضرور ہے کہ وہ جانتا ہے طلاق بیوی کو دیجاتی ہے ،ماں بہن کو نہیں ، اگر نشہ میں اس کی عقل نے جواب دے دیا تو اس نے ماں بہن کے لیے طلاق کے الفاظ کیوں نہیں استعمال کئے ،بیوی کو طلاق دینے کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ نشہ کے با وجود اس کے اندر تمیز کی صلاحیت ہے اور تمیز کی صلاحیت کی وجہ سے ہی نشہ کے حالت کی طلاق نا فذ ہوجاتی ہے۔
طلاق کبھی جبر و اکراہ کے ساتھ بھی دی جاتی ہے ، اگر جبر و اکراہ میں تحریر کے ساتھ زبان کا استعمال بھی کرلیا تو طلاق نافذ ہوجائے گی۔ حالانکہ جبر و اکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر قابل اعتبار نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کا محل قلب ہے اور طلاق کا محل زبان ، جب چیز اپنے محل سے نکل جائے گی تو اس کا اثر پڑے گا ، جبر و اکراہ اگر کلمۂ کفر کے کہنے پر ہوا اور قلب مطمئن ہو تو صرف کلمۂ کفرکے کہنے سے ایمان نہیں جائے گا ، اس کے بر عکس طلاق کا محل زبان ہے اور جبر واکراہ میں طلاق اس نے زبان سے کہہ دیا تو اب یہ طلاق محل سے ادا ہو جانے کی وجہ سے نافذ ہوگی۔
اس کا ایک دوسری طرح جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حالت جبر طلاق میں ہے ہی نہیں اس لیے کہ اگر کسی نے گردن پر بندوق رکھ کر طلاق دینے کوکہا تو اس نے اسے اختیار دیا کہ تم اپنی جان دے دو یا بیوی سے دست بردار ہوجاؤ ۔اس نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاکر اپنی جان بچالی اور بیوی کو چھوڑ دیا یہ دو چیزوں کے درمیان اختیار اور پسند کا معاملہ ہے وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ جان دیدے اور بیوی کو باقی رکھے، تاکہ اس کے ترکہ سے اس کو قاعدے سے حصہ مل جائے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
سوالات عورت کی آزادی اور مساوات کے حوالہ سے بھی اٹھائے جاتے ہیں، عورتوں کو آزادی دے کر مغرب نے اس سے لطف اندوزی کاسامان کر لیا ، اسے قحبہ خانوں اور کوٹھوں کی زینت بنا دیا !
ماچس کی ایک ڈبیہ بھی بغیر اس کی تصویرکے نہیں بک رہی ہے ، اس آزادی نے عورت کو مظلوم بنا کر رکھ دیا ،اسلام نے اسکا ساراکھانا خرچہ مرد پر ڈالا تھا، مرد نے اپنی جان بچانے کے لیے اس سے کموانا شروع کر دیا ، اب وہ دفتری اوقات میں ڈیوٹی بھی کرتی ہے، بچے بھی پیدا کرتی ہے ، گھر آنے کے بعد با ورچی خانہ بھی اسی کا منتظر رہتا ہے ،بال بچوں کی پرورش و پرداخت اور شوہرکی خدمت گذاری بھی اسے کرنی پڑتی ہے ، یہ آزادی کے نام پر عورتوں پر ظلم ہے، جسے کوئی بھی ذی ہوش آدمی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
یہی حال مساوات کا ہے ،مساوات کا مطلب صرف یہ ہے کہ صلاحیت وقوت کے مطابق اس کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں، اب مساوات کا مطلب یہ لیا جائے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی چار شادی کی اجازت ہو ،تومساوات کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ ایک بچہ ایک سال عورت پیدا کرے اور دوسرا بچہ دوسرے سال مرد پیدا کرے، چیر مین کی کرسی پر ایک دن چیر مین صاحب بیٹھیں اور دوسرے دن چپراسی اس کرسی پربراجمان ہو جائے ؛ کیونکہ مساوات کا تقاضہ یہی ہے،ظاہر ہے اس قسم کے مساوات کاکوئی قائل نہیں ہے،لیکن ہمارا دانشور طبقہ بار بار اس بات کو اٹھاتا رہتا ہے،بلکہ ماضی قریب میں تو ایک جج صاحب نے عورتوں کو چار شادی کی اجازت دینے کی تجویز رکھی تھی، اس پر ایک صاحب نے ان سے گذارش کی تھی کہ یہ نیک کام آپ اپنے گھر سے ہی شروع کریں۔
ایک اعتراض ترکہ میں لڑکے لڑکی کے حصوں میں فرق کے حوالہ سے بھی کیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد مورث کے مال سے لڑکی کو ایک حصہ اور لڑکے کو دو حصہ ملے گا، واضح سی بات ہے کہ ہر قسم کی ذمہ داری مرد پر ہے، عورت پر خرچ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اس لیے انصاف کے طور پر اس فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ بھی بار بار اعتراض کا موضوع بنتا ہے، حالاں کہ اٹھائیس سے زائد شکلیں یتیم پوتے کی بنتی ہیں، جن میں ایک ہی شکل میں دوسرے چچا کی موجودگی میں وہ محروم ہوتا ہے، بقیہ ساری شکلوں میں وہ حصہ پاتا ہے اور دادا کی وصیت ہو تو ایک تہائی مال تک اسے مل جاتا ہے، جو دوسرے وارثوں کے حصے سے عام حالات میں کہیں زائد ہوجاتا ہے۔
اعتراضات اور بھی ہیں، سب زاویۂ نظر کی کجی کا نتیجہ ہے، جولوگ اسلامی قانون کو نہیں ماننا چاہتے وہ اسلامی قانون میں ترمیم کے بجائے دوسرا متبادل تلاش لیں انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ لازمامسلم پرسنل لا ہی سے چمٹے رہو ،مسلم پرسنل لا اسلامی قوانین کا حصہ ہے اور یہ خدائی قانون ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ نہیں ہو سکتی، خواہ عورت کی آزادی کے تعلق سے ہو یامساوات کے تعلق سے، اسے سماجی اصلاح کا نعرہ دیا جائے یا یکساں سول کوڈ کا ، معاملہ نکاح وطلاق کاہویا دیگر عائلی اور خاندانی مسائل کا، اسلام کا قانون نا قابل تبدیل ہے،جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں کفر کا راستہ ہی پسند ہے تو ان کو نہ کوئی دلیل کام آسکتی ہے اور نہ کوئی منطق۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ہیں)
رابطہ : 9431003131