ہندوستان میں ہیٹ اسپیچ یعنی نفرت انگیز بیان بازی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح کے معاملوں میں بیشتر کا تعلق آر ایس ایس کی تنظیموں سے جڑے کارکنان کا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دو ہیومن رائٹس گروپوں نے ہندوستان میں اقلیتوں کو لے کر کی گئی بیان بازی پر کچھ اعداد و شمار پیش کیے ہیں جو حیرت انگیز ہیں۔ دونوں گروپس نے رپورٹ جاری کر اقلتیوں پر حملوں اور ہیٹ اسپیچ کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ تازہ رپورٹ ‘ہندوتوا واچ’ کے ذریعہ پیش کی گئی ہے۔ اس ہاف ایئرلی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 17 ریاستوں میں 255 پروگرام ہوئے ہیں جن میں مسلم مخالف تقاریر کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریباً نصف پروگراموں کو منعقد کرنے والی تنظیمیں آر ایس ایس سے منسلک ہیں۔
‘ہندوتوا واچ’ کے امریکی ریسرچ پروجیکٹ ‘اینٹی مسلم ہیٹ اسپیچ ایونٹس اِن انڈیا’ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال چھ ماہ میں ملک بھر کی 17 ریاستوں میں اس طرح کے 255 پروگرام ہوئے، جن میں سے 80 فیصد یعنی 205 بی جے پی حکمراں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں میں ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید جانکاری دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان پروگراموں میں سے 42 فیصد کو منعقد کرانے والے گروپ آر ایس ایس سے جڑے ہیں۔ علاوہ ازیں 70 فیصد پروگرام ان ریاستوں میں ہوئے ہیں جن میں 2023 یا 2024 میں انتخابات ہونے ہیں۔ ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں یہ بھی مطلع کرایا گیا ہے کہ مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں سب سے زیادہ اس طرح کے پروگرام ہوئے ہیں۔ 29 فیصد پروگرام تو صرف مہاراشٹر میں کرائے گئے ہیں۔
اس سے قبل ستمبر ماہ کے شروع میں ایک ہندوستانی این جی او ‘یونائٹیڈ کرشچن فورم’ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آٹھ ماہ میں عیسائیوں پر حملے کے 525 معاملے سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں جانکاری دی گئی تھی کہ 2014 کے بعد سے ان واقعات میں تیزی آئی ہے اور 147 سے یہ نمبر 500 کے پار چلا گیا ہے۔ فورم نے کہا کہ عیسائیوں پر حملے سے متعلق اتر پردیش میں سب سے زیادہ 211، چھتیس گڑھ میں 118 اور ہریانہ میں 39 واقعات پیش آئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی جانکاری دی گئی کہ 520 عیسائی جنھیں گرفتار کیا گیا، ان کی مذہب تبدیلی سے متعلق جھوٹے معاملوں میں گرفتاری ہوئی ہے اور اس کے لیے موافق ثبوت بھی نہیں ہیں۔