مکرمی
صحافت ایک بہت اہم اور حساس پیشہ ہے ،اس کی قدروقیمت اور اہمیت کیلئے بہت ضروری ہے کہ سچائی اور حقیقت پسندی سے کام لیا جائے ،عقیدت اور محبت کو صحافت کی راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے ،مجھے خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے دوست اور نوجوان صحافی شمس تبریز قاسمی اسی اصول پر عمل پیرا ہیں اور بیباکی اور حق گوئی کیلئے اس میدان میں اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں،اسی حق گوئی کامظاہر ہ کرتے ہوئے انہوں نے گذشتہ دنوں ملت ٹائمز میں ایک رپوٹ شائع کی جس کا تعلق جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب سے تھا، مولانا صاحب پر راجیہ سبھا ایم پی رہنے کے دوران گھوٹالے کے کچھ الزامات لگے تھے جس سے انہیں کورٹ نے ضمانت پر بری کردیا ،ملت ٹائمزنے یہ رپوٹ شائع کردی تو مدنی صاحب کے بھکتوں نے ایک ہنگامہ کھڑ ا کردیا اور فیس بک پر گٹھیا ترین حرکت کرنے لگے ،فحش اور غلیظ گالیاں دینے لگے کہ ملت ٹائمز نے یہ خبر شائع کیوں کی ۔حالاں کہ یہ خبر ہندی ،انگریزی اور اردو کے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی ۔مجھے فیس بک پر کچھ کمنٹس دیکھ کر نہ صرف ا فسوس ہواکہ بلکہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا کوئی مسلمان بھی اس طر ح کی گندی زبان استعمال کرسکتاہے اور سچ بولنے پر کسی کو اس طرح سے گالیاں دی جاسکتی ہے ۔
تاہم میں شمس تبریز قاسمی صاحب اور ملت ٹائمز کو پوری ٹیم کو اس حق گوئی کیلئے مبارکباد پیش کرتاہوں اور یہ امید رکھتاہوں کہ یہ اخبار اسی طرح بیباکی کے ساتھ صحافتی فرائض انجام دیتارہے گا ،نیز یہ بھی گزارش ہے کہ اندھے عقیدت مندوں کی ان تنقید سے آپ بے فکر رہیں ،ہر گزدل پر نہ لیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اکابر پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں ۔اخیر میں یہ بات کہوں گا کہ محمود صاحب کے جو عقیدت مند ہیں وہ ملت ٹائمز کے خلاف بکواس کرنے کے بجائے عدلیہ کا بائیکاٹ کریں کہ کیوں کہ یہ فیصلہ عدلیہ سے آیا ہے ،وہ سی بی آئی کے خلاف بولیں جنہوں نے یہ الزام عائد کیا ہے ،ملت ٹائمز نے صحافتی فریضہ انجام دیتے ہوئے صرف یہ خبر شائع کی ہے اور دنیا کو یہ بتایاکہ مولانا محمود مدنی صاحب پر جوالزامات لگائے گئے تھی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا ہے۔
قمر تسلیم
ممبئی