نقطۂ نظر: ڈاکٹر منظور عالم
عام انتخابات 2024 کا بگل بج چکاہے ، یہ انتخاب بیحد اہم اور فیصلہ کن ہے ، الیکشن کے نتائج سے ملک کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا اس لئے سیکولر اقدار کی حامل پارٹیوں کو بہت ذمہ داری کے ساتھ انتخاب لڑنا ہوگا ، اپنے آپسی اختلافات کو فراموش کرکے پوری توجہ الیکشن پر دینی ہوگی ۔ حالیہ انتخاب میں واضح طور پر دو نظریہ کے درمیان لڑائی ہے۔ ایک نظریہ سیکولرزم اور مہاتما اگاندھی کے اصولوں پر مبنی ہے ، دوسرا نظریہ فاششزم اور فرقہ پر ستی کی بنیاد پر ہے ۔ سیکولرزم پر مبنی نظریہ میں ملک کے تمام شہریوں کیلئے یکساں مواقع ہیں، سبھی کیلئے انصاف، آزادی اور مساوات ہے ۔ دوسرے نظریہ میں طاقت کا محور صرف چند لوگوں کو بنایا جائے گا ، عوام کو انصاف اور آزادی سے محروم رکھا جائے گا، ملک کی معیشت اور تمام ریسورسیز پر مٹھی بھڑ لوگوں کا قبضہ ہوگا عام لوگوں کو اپنی زندگی گزار نے کیلئے ان کے قدموں میں جھکنا پڑے گا ۔ ملک کا بھائی چارہ ختم کیا جائے گا ، سماج میں فرقہ واریت کو بڑھا وادیا جائے گا ، آپس میں لوگوں کو لڑایا جائے گا ۔
گذشتہ سالوں میں عوام نے سچائی کو اپنی نگاہوں سے دیکھ لیا ہے ، حقیقت کو جان لیاہے ،عوام کو اچھی طرح احساس ہے کہ ترقی کے نعرہ کے نام پر ان کے ساتھ دھوکہ ہواہے ، جن لوگوں کو انہوں نے اقتدار سونپا تھا تھا ، ووٹ دیا تھا یہاں تک پہنچایا تھا وہ اب فریب خوردہ محسوس کررہے ہیں لیکن عوامی بیداری اور اس احساس کا اثر اسی وقت سامنے آئے گا جب سیاسی پارٹیاں اپنی ذمہ داری نبھائیں گی ، عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی ، عوام کی بھلائی ، ملک کی ترقی اور امن وسلامتی کے فروغ کیلئے اپنے انا کی قربانی دے گی ، اپنی پارٹی کو فروغ دینے سے پہلے ملک کو بچانے کی کوشش کرے گی ، اپنی پارٹی کو اقتدار میں لانے سے پہلے ملک کیلئے خطرہ بنی پارٹیوں سے نجات حاصل کرنے جدوجہد ہوگی ۔
عام انتخاب کیلئے تاریخوں کا اعلان ہوگیا ہے لیکن ابھی تک اپوزیشن پارٹیوں میں اتحاد مکمل نہیں ہوسکاہے ، انڈیا اتحاد جب بنایاگیا تو عوام نے راحت کی سانس لی ، ایک امید روشن ہوئی ، لوگوں کو لگا اپوزیشن پارٹیاں فکر مند ہیں ، ملک کے حالات کو بدلنے کیلئے وہ کوشاں ہیں لیکن ابھی تک انڈیا نے عملی طور پر اس کا مظاہرہ نہیں کیاہے ، کئی صوبوں میں انڈیا اتحاد نے آپس میں سیٹوں کی تقسیم کی ہے تو خبر آرہی ہے کہ کئی صوبوں میں انڈیا اتحاد کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور سبھی اپنے نمائندے وہاں اتار رہے ہیں ، الیکشن لڑنے کا یہ طریقہ سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہونچائے گا ، فرقہ پرست پار ٹیوں کا فائدہ ہوجائے گا اور اتحاد کی پوری کوشش بے فائدہ ثابت ہوگی ۔ دہلی ، یوپی اور بہار میں جس طرح انڈیا اتحاد نے سمجھ بوجھ کر سیٹوں کو تقسیم کیا ہے اسی طرح سیٹوں کی تقسیم مغربی بنگال اور پنجاب سمیت دوسری ریاستوں میں بھی ہونی چاہیے لیکن وہاں اتحاد میں شامل پارٹیاں جھکنے کو تیار نہیں ہے ، اصل حریف کو کمزور کرنے کے بجائے اپنے ساتھی کو کمزورکرنے میں لگی ہے جس کا یقینی طور پر اسی پارٹی کو فائدہ ہوگا جس کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے گذشتہ پانچ مہینوں سے یہ کوشش چل رہی ہے ۔
سیکولر اور اپوزیشن پارٹیوں نے ایک مشترکہ الائنس بناکر اچھی پہل کی ہے ، عوام کو حوصلہ ملاہے ، نوجوانوں کا اعتماد بڑھا ہے ، ملک کے فکرمند احباب اور دانشوران ہر طرح کا ساتھ دینے کو تیار ہیں ، ملک کو تباہی اور بربادی سے بچانا ہر شہری کی ذمہ داری ہے ، باشعور افراد پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو فرقہ پرست پارٹیوں کے اثر سے بچائیں ، یہاں کی برسوں پرانی تہذیب وثقافت کو ختم کرنے والی سیاست کے خلاف مہم چلائیں ، جمہوریت اور سیکولرزم کی مضبوطی کیلئے ہر طرح کی قربانی دیں ،سیکولرزم اور ملک کی مثبت تعمیر وترقی کے اصولوں پر گامزن سیاسی پارٹیوں کا ساتھ دیں اور اس وقت عوام و خواص میں یہ احساس بھی پایا جارہا ہے ، وہ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن یہ کوشش اور جدوجہد سیاسی پارٹیوں کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، جرات مندانہ فیصلہ لینے کی ضرورت ہے ، عوام کے درمیان یہ پیغام بھی جانا ضروری ہے کہ ملک کی جو پارٹیاں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ کھڑ ی نہیں ہیں ، مشکل وقت اور بحران سے دوچار حالات میں وہ اپنی الگ راہ اپنا رہی ہے ، اتحاد کا حصہ نہیں بن رہی ہیں، ایسی پارٹیاں بھی یقینی طور پر فرقہ پرستوں کا ساتھ دے رہی ہیں ، ملک کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے ، بڑھتی ، مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کے تئیں کوئی فکر نہیں ہے ۔ اس لئے ووٹ ڈالنے کیلئے پارٹی ، اتحاد اور امیدوار کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کرنا ہے ، ہر علاقہ اور خطہ میں بیداری لانا ضروری ہے ۔
بھیم راؤ امبیڈکر نے ایک ایسے سماج میں جنم لیاتھا جہاں ذات پات کی لڑائی بہت زیادہ تھی اس کو بڑھانے کی کوشش بہت زیادہ تھی، آپس میں برابری کا تصور نہیں تھا ، ان کا سماج مساوات ، انصاف ، آزادی ،تعلیم اور ہر طرح کے انساق حق سے محروم تھا لیکن انہوں نے اس سے باہر نکلنے کی کوشش کی ، ہر طرح کی قربانی دی، برابری اور انسانی حقوق کیلئے پوری زندگی وقف کردی اور پھر دستوری انداز میں سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی۔ گاندھی کے اصولوں کو آگے بڑھانے کی زبردست جدوجہد کی۔ آئین ہندلکھنا جب شروع کیا تو سبھی کو برابری کا درجہ دیا ، اونچ نیچ کو ختم کیا ، سبھی کو یکساں حق دیا ، آج ایک مرتبہ پھر ہمارے سماج میں بھید بھاؤ بڑھنے لگا ہے اور اس کو بڑھاوا دینے کی بہت کوشش ہورہی ہے۔ سرکاری سطح پر بھی اس کو بڑھاوا دیا جارہا ہے ، انسانوں کو انسانی حقوق سے محروم کیا جارہاہے ، گاندھی کے اصولوں کو نظر انداز کرکے ہم بھید بھاو ¿ کی طرف جارہے ہیں جو آئین کے خلاف ہے۔ گاندھی کے اصولوں کے خلاف ہے ، بھیم راؤ امبیڈ کی قربانیوں کے خلاف ہے۔
بھارت کا آئین اور دستور بہت ہی جامع اور مستند ہے ،بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے جو راستہ دکھایاتھا اسی پر چلنے میں سبھی کی بھلائی ہے ، دستور کے تحفظ میں اقلیتوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزوروں کے تحفظ کی ضمانت ہے ، اس کو باقی رکھنے ، اس پر عمل کرنے والی پارٹیوں کو اقتدار سونپنا ، اس کیلئے کوشش کرنا ہر بھارتیہ شہری کی ذمہ دار ی ہے اور شہریوں سے زیادہ زیادہ ذمہ داری خود پولیٹکل اور اپوزیشن پارٹیوں کی ہے ۔ اپنی پارٹی کی توسیع اور زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر جیت حاصل کرنے سے زیادہ ضروری ملک کو بچانا ، اس کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا اور آئین میں تبدیلی کی کوشش پر قدغن لگانا ہے اور اس کیلئے سیاسی پارٹیوں کو قربانی دینی ہوگی، انا کی لڑائی بند کرکے سبھی کو مواقع دینے ہوں گے ۔ ضرورت پڑنے پر مزید پارٹیوں کو الائنس میں لینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے ، تبھی کامیابی ملے گی اورملک تباہ وبرباد ہونے سے محفوظ رہے گا ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)