اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر ایران کے حملوں کا جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ جواب کب اور کیسے دیا جائے گا۔ غزہ کی جنگ کے باعث کئی ماہ سے جاری بدامنی کے تناظر میں مشرق وسطیٰ کا خطہ مزید کشیدگی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ، جنہوں نے ایرانی حملے کو پسپا کرنے میں اسرائیل کی مدد کی تھی، کسی بھی کشیدگی کو مزید پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دوسری جانب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے سالانہ فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کو کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے کے پیش نظر اس مرتبہ سالانہ پریڈ کو ایک بیرک میں منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ خلاف معمول اس کو لائیو نشر بھی نہیں کیا گیا۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر رئیسی نے کہا ہے کہ اسرائیل پر اختتام ہفتہ پر کیا گیا حملہ محدود تھا اور یہ کہ اگر ایران اس سے بڑا حملہ کرنا چاہے، تو ”صیہونی حکومت کا کچھ بھی نہیں بچے گا۔”
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون اور جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک دونوں نے ہی کل بدھ 17 اپریل کو اسرائیل کے اعلیٰ حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان دونوں یورپی ممالک نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لے۔
کیمرون نے کہا، ”یہ واضح ہے کہ اسرائیلی ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر رہا ہے۔” تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل سمجھداری سے ایسا جواب دے گا، جس سے تنازعہ جتنا ممکن ہو، کم ہو سکے۔ کیمرون نے مزید کہا کہ ان کے دورے کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت اور حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا، ”جرمنی اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔” تاہم انہوں نے اسرائیل سے تحمل سے کام لینے کو کہا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کا صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسرائیل پہلے ہی ایرانی حملے کو ناکام بناتے ہوئے اپنی دفاعی فتح کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ (بشکریہ ڈی ڈبلو اردو)