فطرت سے بغاوت پر مبنی تمدن (۱)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بر اعظم افریقہ کے سمندر میں کئی جزائر ہیں، ان میں ایک ری یونین ہے، دوسرا ماریشش ہے، میں دونوں جزائر میں پہلے بھی جا چکا ہوں، ری یونین فرانس کی کالونی ہے؛ اگرچہ فرانس نے یہاں کے باشندوں کو آزادی کی پیش کش کی تھی؛ لیکن جزیرہ میں رہنے والوں نے فرانس کا حصہ رہنے کو قبول کیا، ماریشش برطانیہ کے زیر قبضہ تھا، اور اس نے آزادی حاصل کر لی، ماریشش میں زیادہ تر ہندوستان نژاد لوگ رہتے ہیں؛ اس لئے ہندوستان سے جانے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں ہیں، زیادہ آبادی ہندوؤں کی ہے، اس کے بعد مسلمانوں کی ، پھر بدھشٹوں اور عیسائیوں کی ہے، تہذیب بھی بڑی حد تک یہاں سے ملتی جلتی ہے،؛ لیکن ری یونین جو فرانس کا حصہ ہے، وہاں کے لوگوں کو یوروپ کی شہریت حاصل ہے؛ اس لئے وہاں کے حالات کافی مختلف ہیں اور ان کی پوری ثقافت یوروپ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، یہاں یوں تو ایشیائی نسل کے لوگ ہیں؛ لیکن غلبہ افریقی نسل کے لوگوں کا ہے، اور ان کے ساتھ ساتھ سفید فام لوگ بھی آباد ہیں، مسلمانوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے؛ لیکن معاشی اعتبار سے وہ اچھی پوزیشن میں ہیں۔

ان دونوں ملکوں میں یوں تو میں پہلے بھی جا چکا ہوں؛ لیکن مولانا محمد زکریا گنگات کی دعوت پر ۱۸؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو میں براہ ماریشش ری یونین کے لئے روانہ ہوا، یہ جمعرات کا دن تھا، بعد مغرب ہمارا سفر شروع ہوا، اور وقت کے فرق کی وجہ سے جمعہ کے دن جمعہ سے پہلے ہم لوگ ری یونین پہنچ گئے، اس سفر کا خصوصی پروگرام فرنچ زبان میں اسلام پر مولانا انس لالہ صاحب کی کتاب کی اور عربی زبان میں عزیز مکرم مولانا یحییٰ گنگات سلمہ کی کتاب کی رسم اجراء تھی، یہ مغربی ملکوں میں مسلم اقلیت کے شرعی مسائل پر ہے، اور یہ ان کا وہ مقالہ ہے، جو انھوں نے المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے تخصص فی الفقہ سال دوم کے لئے لکھا تھا۔

یوں تو یوروپ کے کئی ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے اور خود ری یونین بھی ایک سے زیادہ بار جا چکا تھا؛ لیکن اس بار وہاں پندرہ دنوں مسلسل قیام کا موقع ملا، اور میرا خیال ہے کہ اگر یوروپ کے مزاج کو سمجھنا ہو تو اس کو فرانس سے سمجھنا چاہئے؛ کیوں کہ یہیں سے مذہب کے خلاف بغاوت شروع ہوئی، اور آج بھی یہ مذہب بیزاری میں سب سے نمایاں ملک ہے، ان دو ہفتوں میں وہاں متعدد پروگراموں میں شریک ہونے کا اور بہت سارے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، اور میں نے گہرائی کے ساتھ یوروپ کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی؛ کیوں کہ فرانس ایک فوجی طاقت ہے، چاہے مغرب کی سب سے بڑی طاقت نہ ہو؛ لیکن ثقافتی پہلو سے وہ مغرب کا قبلہ ہے۔

میں نے فرانس کے آئینہ میں پورے یوروپ کی تصویر دیکھی، مجھے یہ دو رُخی تصویر نظر آئی، ایک پہلو وہ ہے، جو انسان کو بہت متأثر کرتا ہے، اور اسلام نے جو اخلاقی تعلیمات دی ہیں، اس کا عملی نمونہ نظر آتا ہے، جیسے صفائی ستھرائی، گھر کے اندر اور باہر، سڑک ہو یا بازار، مسجد ہو یا میریج ہال، سمندر کا ساحل ہو یا عوامی مقامات ہوں، ہر جگہ اتنی صفائی ستھرائی کہ انسان چاہے تو وہیں لیٹ جائے، روشنی کا بقدر ضرورت استعمال، ہمارے ملکوں کی طرح روشنی کا سیلاب نہیں، مغرب ہوتے ہی سر شام پوری مارکیٹ بند ہو جاتی ہے اور سوائے کلبوں کے اور میڈیکل اسٹور کے کوئی دوکان کھلی نہیں رہتی، رات دیر تک جاگنے اور ہوٹل بازی کرنے کا عمومی مزاج نہیں ہے، راستہ چلنے والوں بالخصوص بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور بیماروں کا بہت خیال کیا جاتا ہے، چاہے ریڈ سگنل نہ ہو تب بھی گاڑی روک دی جاتی ہے، نو واروں کے ساتھ بھی پورے اخلاق کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے، چیخنے چلانے اور زور سے جھگڑنے کی آواز نہیں آتی، خرید وفروخت وغیرہ میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دے کر پیسے حاصل کرنے کا مزاج نہیں ہے، انسان کہیں بھی نکل جائے، اپنے کو مامون اور محفوظ سمجھتا ہے؛ لیکن سر راہ چھیڑنا اور زور زبردستی کرنے کے واقعات کم ہی پیش آتے ہیں، حکومت ٹیکس اتنا ہی لیتی ہے، جتنا ہندوستان میں ہے؛ لیکن وہاں ہر شہری کے لئے مفت علاج، ہر بچہ کے لئے مفت تعلیم اور بے گھر لوگوں کے لئے مکان کا نظم یا کرایہ میں تعاون ، بوڑھوں اور مریضوں کے لئے خدمت کا انتظام وغیرہ کی سہولت دی جاتی ہے؛ اس لئے لوگ وہاں کبر سنی کے باجود تنہا زندگی گزارنے پر بھی آمادہ رہتے ہیں۔

انسانی خدمت اور ظاہری اخلاق کے اعتبار سے بہت سی خوبیاں وہاں نظر آتی ہیں، اور یہ لوگوں کے مزاج کا حصہ بن گئی ہیں؛ لیکن ان کی زندگی کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ خدا اور مذہب کے لئے ان کی زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے، اس بات نے ان کو فطرت کا باغی بنا دیا ہے، بڑی سے لے کر چھوٹی باتوں تک قدم قدم پر فطرت سے بغاوت کا اظہار ہوتا ہے، انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ خدا کی طرف لپکتا ہے، خاص کر کوئی مصیبت سامنے آتے ہی، قرآن مجید نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کیا، وہ بھی مصیبت کی گھڑی میں اللہ کو پکارتے ہیں، اور رسمی طور پر ہی صحیح عبادت گاہوں سے رجوع کرتے ہیں؛ لیکن یوروپ کے چرچ ویران ہیں، اور مردم شماری کے خانہ کے اعتبار سے جو لوگ عیسائی کہلاتے ہیں، وہ بھی چرچوں میں نہیں آتے۔

جب شیطان کسی فرد یا گروہ کے دل ودماغ کو مسخر کر لیتا ہے تو وہ اسے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی لانے پر اُکساتا ہے: ولآمرنھم فلیغیرن خلق اللہ (النساء: ۱۱۹) یوروپ اس وقت اس کی واضح مثال ہے، اگر کسی کو اس کی عملی مثال دیکھنی ہو تو اس کو یوروپ کو دیکھنا چاہئے، وضع قطع، باہمی تعلقات اور مردوں اور عورتوں کے ساتھ سلوک ہر جگہ فطرت سے بغاوت کا جذبہ نمایاں ہے، انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب ماں باپ کی عمر بڑھتی ہے تو اس کو ان کی خدمت کرنے یہاں تک کہ ان کاغصہ برداشت کرنے میں بھی لطف آتا ہے، بوڑھے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ ایسی لگتی ہے کہ گویا اولاد پر محبت کے پھول برس رہے ہوں؛ لیکن یوروپ میں والدین انسان کو ایسا بوجھ محسوس ہوتے ہیں کہ آدمی کتے اور بلی کی پرورش تو کر لیتا ہے؛ لیکن بوڑھے والدین کو اپنے گھر میں رکھنا نہیں چاہتا، یا تو وہ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، یا ان کو اپنے پیاروں سے دور بوڑھوں کے ہاسٹل میں رکھ دیا جاتا ہے، جہاں کوئی ان سے محبت کے دو بول بولنے والا بھی نہیں ہوتا۔

مرد کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو اپنی بیوی بچوں کی ملکیت تصور کرتا ہے، ان کے ایک ایک سامان ِ راحت کے لئے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے، خود بھوکا رہ کر بچوں کو کھلاتا ہے، خود معمولی پہن کر ان کے لئے اچھے لباس کا انتخاب کرتا ہے؛ لیکن یوروپ کا مزاج ایسا ہے کہ بیوی مرد کے لئے محض نفسانی خواہش پوری کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں ایک دوسرے پر قربان ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ حقوق کے طلب گار ہوتے ہیں، ایک بار لندن میں مجھے ایک ہندوستانی نژاد دوکان دار نے بتایا کہ ہندوستان میں میاں بیوی جب کوئی چیز لینے کے لئے آتے ہیں تو شوہر چاہتا ہے کہ بیوی کو اچھی سے اچھی چیز دلائے، چاہے اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہ بچے؛ لیکن یہاں جب مشترکہ استعمال کی چیز خریدتے ہیں تو شروع سے آخر تک لڑائی رہتی ہے کہ دوسرا فریق اس کی ادائیگی کرے ، اور جب بیوی کے استعمال کی چیز لی جاتی ہے تو شوہر چاہتا ہے کہ وہی اس کی قیمت ادا کرے، شوہر کو ادا کرنا نہ پڑے۔

اولاد انسان کے لئے اس کی زندگی کے بعد سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے، اور شوہر وبیوی دونوں خواہش مند ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد وہ جلد سے جلد ماں باپ بن جائیں، اور جب اللہ کی طرف سے کوئی نیا بچہ پیدا ہوتا ہے تو پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، یہ انسانی فطرت ہے، قرآن مجید نے کم از کم دو پیغمبروں کا ذکر کیا ہے، جنھوں نے بڑے گریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعافرمائی، ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام ، دوسرے حضرت زکریا علیہ السلام، اور پھر وہ اولاد سے نوازے گئے؛ لیکن یوروپ میں ایک رجحان اولاد سے اجتناب کا پیدا ہوگیا ہے، شوہر وبیوی دونوں سمجھتے ہیں کہ بچے ہماری آزادی اور عیاشی میں خلل انداز ہوں گے؛ اس لئے ان سے جس قدر دامن بچایا جائے، بہتر ہے؛ اس لئے بعض لوگ تو پوری زندگی میں بے اولاد گزار لیتے ہیں، اور بعض دیر سے ماں باپ بننا پسند کرتے ہیں اور اگر کسی کے یہاں ایک سے دو بچے ہوگئے ہوں تو اس کے بعد مزید اولاد ان کے لئے بالکل ناقابل قبول ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ فطرت کے خلاف بات ہے، دنیا بھر میں جتنی اہم شخصیتیں گزری ہیں، ان میں سے زیادہ تر کے ماں باپ کثیر الاولاد تھے، اور قدرت کی طرف سے ان کی پیدائش کا نمبر چوتھا، پانچواں، چھٹا وغیرہ تھا، اولاد کی جو فطری طلب انسان میں رکھی گئی ہے، اس کو عام طور پر کتوں اور بلیوں سے پورا کیا جاتاہے، کتوں کی اتنی ناز برداری کی جاتی ہے جو کسی طرح ہمارے ملک میں بچوں کی ناز برداری سے کم نہیں ہے۔

انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بچوں کو اپنی آغوش محبت میں رکھنا چاہتا ہے؛ اسی لئے ماں بننے کے ساتھ ہی عورت کے سینے سے دودھ کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے، جو نومولود کے کام آتا ہے، ماں سے اگر اس کا بچہ چھین لیا جائے تو وہ دماغی عارضہ کا شکار ہوجاتی ہے، اگر شوہر وبیوی میں علیحدگی کی نوبت آئے تو شوہر کو سب سے زیادہ اسی کی فکر ہوتی ہے کہ اس کے بچے اس سے دور ہو جائیں گے، محبت کا، پرورش کا اور اپنی گود میں کھلانے کا یہ جذبہ ایک فطری جذبہ ہے؛ لیکن یوروپ میں عورتیں چاہتی ہیں کہ بچہ کو اپنا دودھ پلانا نہ پڑے، بچے ڈبوں کا دودھ لیں، بہت کم عمری اور بعض اوقات شیر خواری کی عمر میں بچوں کو ایسی پرورش گاہوں اور اسکولوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے ، جہاں چھوٹے بچوں کی پرورش ہوتی ہے، ماں باپ اپنی اپنی ملازمت گاہوں میں چلے جاتے ہیں، چھوٹے بچوں کا تعلق اپنے ماں باپ سے ۲۴؍ گھنٹوں میں چند گھنٹے کا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ فطرت سے بغاوت کی ہی ایک شکل ہے! (جاری)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com