ریاض: (مولانا شاہد) معروف میڈیا ہاؤس ملت ٹائمز کے بانی جناب شمس تبریز قاسمی کی آمد پر سعودی عربیہ کی راجدھانی ریاض میں ایک خصوصی استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جو ٹفن پارٹی کا حصہ ہے۔۲۰ جون ۲۰۲۴ کے بعد یہ پہلی ٹفن پارٹی تھی۔ مولانا ہارون صاحب نے پرجوش انداز میں اس کا اعلان کیا ۔ وہی مزاحیہ انداز اور تفریحی ماحول والا لہجہ۔ تاریخ ۹ اگست ۲۰۲۴ بروز جمعہ بعد نماز عشاء ، بیت مولانا عبد الباری صاحب سرپرست لجنہ علمیہ ؛ لیکن دو دن پہلے ٹفن پارٹی کو مولانا عبد الباری صاحب کے مکان سے مولانا ہارون صاحب ملز کے مکان پر منتقل کردیا گیا۔
یہ ٹفن پارٹی گزشتہ پارٹیوں سے قدرے مختلف تھی۔ قاسمی ٹفن پارٹی کا منہج اور مقصد ہے کہ مہینہ دو مہینہ میں ریاض میں مقیم قاسمی برادران کو ماحضر کے ساتھ مدعو کیا جائے ؛ تاکہ سب لوگ ایک جگہ مل بیٹھیں ، آپس میں سلام مصافحہ ہو ، خیر خیریت اور خوشی و غمی میں سب کی شرکت ہو جائے۔ یہ مقصد تو اپنی جگہ تھا ہی؛ لیکن اس میں اضافہ یہ ہوا کہ قاسمی برادران کے ایک ہونہار سپوت جس نے اپنی قابلیت اور حوصلہ و ہمت کی بنیاد پر اپنی کم عمری میں ہی صحافت اور میڈیا کے میدان میں ایک انوکھا کردار نبھا یا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا ڈیجیٹل نیوز چینل قائم کیا ہے جس کی لمبے ٹائم سے پوری ملت کو ضروری تھی۔ انہوں یہ چینل قائم کر کے ملت اسلامیہ ہند پر ایک عظیم احسان کیا ہے۔ ان کی عمر بہت زیادہ نہیں ہے۔ ان کی پیدائش ۱۹۹۲ میں ہوئی اور ۲۶ سال کی عمر میں ہی “ ملت ٹائمس” میڈیا ہاؤس کی بنیاد ڈال دی، جو ارد، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں ملت کی آواز بن کر کام کرتا ہے۔ اور اللہ کے فضل سے روز بروز ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے اور کامیابی حاصل کر رہا ہے۔
اس لائق فائق سپوت کا نام ہے مولانا شمس تبریز قاسمی ۔ یہ ان دنوں سعودی عربیہ عمرہ کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں ۔ ان کے اعزاز و اکرام میں یہ ٹفن پارٹی بلائی گئی تھی۔
اس مجلس کا آغاز مولانا شمساد قاسمی نے قرآن پاک کی تلاوت سے کیا۔ نعت خوانی کا شرف مولانا ہاشم صاحب قاسمی کے حصہ میں رہا۔ دونوں ماشاء الله خوش آواز اور صاحب فن ہیں۔
تلاوت و نعت کے بعد ، مولانا شمس تبریز قاسمی کے اکرام و اعزاز کی رسم پوری کی گئی۔ مولانا کو عربی سرخ و سفید خانوں والا شماغ ( سر کا رومال) اور کالے رنگ کا بشت ( جبے کے اوپر پر ڈالے جانے والا باریک اور ہلکا بنا ہوا کور) پہنایا گیا ۔ پھر لوگوں نے باری باری مولانا شمس تبریز قاسمی کے ساتھ تصویریں کھینچ وائیں اور فخر محسوس کیا۔
اعزاز و تکریم کی رسم کے بعد مولانا صادق صاحب نے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے ، مولانا عتیق الرحمن صاحب کو دعوت دی کہ اپنا مقالہ پڑھ کر سنائیں ۔ مولانا نے موقع کی مناسبت سے ایک مضمون تیار کیا ہوا تھا ۔
مولانا نے اپنے مضمون میں انگریزوں کے بھارت میں پیر جمانے بعد ، ان کو بے دخل کرنے جو کوششیں ہوئیں اس کو سر سری انداز میں پیش کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کی انگریزوں کے ساتھ مزاحمت اور اس راستے میں شہادت ، دکن کے شیر سپوت حیدر علی ، ٹیپو سلطان کی جوان مردی اور انگریزوں سے لوہا لینے اور دانت کھٹے کر دینے اور پھر جام شہادت نوش کرنے، اس سلسلے میں شاہ عبد العزیز محث دہلوی کے فتوئ جہاد فی سبیل اللہ ، جس نے پورے ملک میں آگ کا کام کیا ، شامل ہے۔ علماء کرام نے عزم کر لیا کہ اب انگریزوں کو ملک سے باہر ڈھکیل دینا ہے۔ اس جرم میں خود شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کو انگریزوں کی طرف سے سخت اذیتیں اور سزائیں بھگتنی پڑیں ، علماء کرام کو ان گنت قربانیاں دینی پڑیں جو لَا تُعَدُّ و لَا تُحْصَى ہیں۔ شاملی کا میدان اسی قربانی کی ایک کڑی ہے۔ اسی تحریک کی ایک کڑی دار العلوم دیوبند بھی ہے، جو ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے اور مسلمانان ہند کے دین و ایمان کی بقا کے لئے ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ کے بعد علماء شاه ولی اللہی کی فکر سے وجود میں لایا گیا۔
جب سے دار العلوم قائم ہے ، اس نے لاکھوں افراد مہیا کئے جو دینی خدمات عالم کے گوشے گوشے میں انجام دے رہے ہیں؛ لیکن کچھ ایسے ہونہار سپوت اس مادر علمی نے پیدا کئے جن کی خدمات قدرے عالی و مختلف ہیں۔ جیسے مولانا اسماعیل صاحب مہاراشٹر، جو دار العلوم کی شوری کے ممبر بھی ہیں ، MLA بھی اور خطیب و امام بھی۔ مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی جو راجیہ سبھا میں مسلمانوں کی مضبوط آواز تھے۔ مولانا محمد اجمل صاحب قاسمی ممبر آف پارلیمنٹ۔ مولانا ولی اللہ رحمانی جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز تھے اور بے لوث خد مت کی۔ مولانا برہان الدین قاسمی ڈائریکٹر مرکز المعارف ممبئی ۔ مولانا لئیق اللہ خان صاحب قاسمی صدر شعبہ اردو ریڈیو جدہ سعودی عرب ۔ مولانا کفیل احمد قاسمی سابق صدر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔
۱۹۹٢ء میں سیتامڑھی میں ایک عام گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ۔ ابتدائی تعلیم قریب کے مدرسہ اشرف العلوم میں حاصل کی اور پھر دار العلوم کا سفر کیا ، جہاں اس بچے نے ششم ، ہفتم، دورہ کی تعلیم مکمل کی ، شعبہ انگریزی میں داخلہ لیا اور انگریزی زبان میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد مزید پختگی کے لئے جامعہ ملیہ میں داخلہ لے کر عربی میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اس بچے نے عام روش سے ہٹ کر ، کچھ الگ اور انوکھا کرنے ٹھانی اور صحافت کی دنیا میں ملت کے لئے ایک آن لائن نیوز چینل قائم کیا ، جس کا نام ہے “ ملت ٹائمس “ اور اس ہونہار کا نام ہے شمس تبریز قاسمی۔
مولانا عبد الباری صاحب نے نیک خواہشات کا اظہار اور لوگوں کو مدد کی بھی ترغیب دلائی ، مولانا انعام الحق قاسمی صاحب نے دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا اور مدد کی مہم چلائی ، اس کے بعد ، مولانا شمس کو دعوت سخن دی گئی۔ انہوں نے سب سے پہلے حمد و ثنا کے بعد ، لجنہ علمیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی دلی خوشی کا بھی اظہار کیا کہ وہ اپنوں کے بیچ کتنا خوش ہیں۔ انہوں نے بتا یا کہ ان کو بہت سارے ایوارڈ ملے ؛ لیکن جو خوشی آج محسوس کر رہے ہیں اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ پھر مولانا نے صحافت کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے فرمایا کہ میڈیا ایک Narrative تیا کرتا ہے اور رای عامہ کو ہموار کرتا ہے۔ آج یورپین کلچر اس لئے حاوی ہے کہ مغرب کا میڈیا پر کنٹرول ہے۔ جتنے عالمی نیوز چینل ہیں سب یہود و نصاریٰ کے قبضے میں ہیں۔ اس میں صرف الجزیرہ واحد چینل ہے جس کی آنر شپ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر الجزیرہ نہ ہوتا تو نہ ہم کو فلسطین کی خبریں ملتیں اور نہ ہی ہم کو معلوم ہوتا کہ امریکہ کی ان کے ساتھ کیا ڈیل ہورہی تھی؟
بھارت میں تمام ٹی وی چینلز ہندوؤں کے قبضے ہیں، تہذیب ٹی وی چینل دینی پروگرام تک محدود ہے۔ اسی طرح اخبار کے بھی مالک وہی ہیں ۔ اردو اخبار کے مالک بھی دینک جاگرن وغیرہ ہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی زبان ہندی ہے۔ ہندی اخبار کی فہرست اٹھا لیجئے ، سب کے مالک ہندو ہیں۔ انگریزی اخباروں کا بڑا اثر و رسوخ ہے، لیکن ان کی فہرست تیار کر لیں ، ان میں کوئی بھی مسلمانوں کی ملکیت میں نہیں ہے۔
آج بھارت میں مسئلہ ہماری شناخت کا ہے۔ ان کو دقت ہے ہماری داڑھی سے، ٹوپی سے، لباس سے، اذان سے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا نام مسلمان ہو لیکن ہماری پہچان اور کلچر اسلامی نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں ہم جاوید اختر بن جائیں، شبانہ اعظمی بن جائیں ، شبنم اعظمی اور عارف محمد خان بن جائیں۔
آج مسئلہ یہ ہے کہ ہم کو مارا بھی جائے، قتل بھی کیا جائے؛ لیکن ہم آواز نہ اٹھا سکیں ۔ مولانا نے بتایا کہ کتنی شدید ضرورت ہے کہ ایک ایسے نیوز چینل کی جو مسلمانوں کی آواز بلند کر سکے۔
مولانا شمس نے مختصرا “ ملت ٹائمس “ کی کر کردگی پر بھی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک عالم دین جب صحافت میں آتا ہے تو وہ خبروں کو سمجھتا ہے اور اس کا مقصد صرف خبر چلانا نہیں ہوتا ؛ بلکہ ایک فکر اور سوچ بھی اس میں ڈالنا ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگوں نے ایک مسلم یوٹیوبر کا ایک گروپ تیار کیا ہواہے، جن کی تعداد پچاس کے آس پاس ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے اگر کوئی خبر ماب لنچنگ وغیرہ کی مین اسٹریم میڈیا نظر انداز کرنے کی کو کوشش کرتا ہے تو ہم لوگ اس خبر کو زور شور سے چلاتے ہیں ، جانبداری اور بدنامی کے خوف سے مین اسٹریم میڈیا بھی ان خبروں کو چلانے پر مجبور ہوتا ہے۔
آج مسلمانوں کے عقائد پر حملہ کیا جاتا ہے، اسلامی ٹرمس کا مذاق اڑایا جا تا ہے، مسلم حکمرانوں کی کردار کشی کی کوشش کی جاتی ہے، تو ہم ان کا انکاؤنٹر کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہم نے ایک ویب سائٹ لانچ کی ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ اورنگ زیب عالمگیر رح کو بدنام کرنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے۔ ان کو اس طرح دکھا یا جاتا ہے کہ وہ بڑا ظالم حلمراں تھا، اس نے اقتدار کے لئے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا، باپ کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ ہم نے اس کے انکاؤنٹر میں اشوکا د گریٹ کی کہانی چلائی ، جو کہ ہندو تھا یا بودھ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ اس نے اقتدار کے لئے اپنے ۹۰ بھائیوں کو قتل کیا تھا اور ۴۰۰ حرم کی عورتوں کو ہلاک کر ڈالا تھا۔
بات جاری رکھتے ہوئے، مولانا نے مالی تعاون کی ضروت کی طرف توجہ دلائی۔ آزاد صحافت کے لئے آپ لوگوں کا مالی تعاون بہت ہی اہم ہے؛ ورنہ ہم کانگریس و غیرہ سے اگر پیسہ لے لیں تو پھر ہم خبر دکھانے میں آزاد نہیں رہیں گے۔ اگر آپ لوگ دو دو سو روپیہ ماہانہ تعاون کے لئے طے کر لیں تو ہم کو کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
مولانا اپنی بات مکمل کر کے بیٹھ گئے۔ مولانا عبد الباری صاحب دوبارہ کھڑے ہوئے اور مجمع کو مخاطب کیا کہ ہم ۲۰ ریال ماہانہ “ ملت ٹائمس” کے تعاون کے لئے طے کرلیں تو ۴۰۰ روپیہ بن جائے گا۔ پھر مولنا عبد الباری صاحب نے مولانا شمس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کسی فرد کو انگریزی صحافت کے لئے تیار کریں ، ہم لوگ اس کا خرچ اٹھا ئیں گے۔
مولانا کے بیان کے بعد دعا ہوئی اور پھر عشائیہ۔اس تقریب میں درج ذیل علماء نے شرکت کی
1 مولانا عبد الباری قاسمی
2 مولانا محمد انعام الحق قاسمی
3 مولانا محمد ہارون قاسمی
4 مولانا اشرف علی قاسمی
5 مولانا صابر آزاد قاسمی
6 مولانا نور محمد قاسمی
7 مولانا محمد ہاشم قاسمی
8 مولانا محمد کامل قاسمی
9 مولانا محفوظ احمد قاسمی
10 مولانا جنيد احمد قاسمي
11 مفتی عبید اللہ قاسمی
12 مولانا شاھد قاسمی
13 مولانا صادق مجید
14 مولانا معاذ قاسمی
15 مولانا کلیم الدین اعظمی
16 مولانا راشد غزالی
17 مولانا عبد الماجد
18 مولانا سہیل قاسمی
19 مولانا عتیق صاحب
20 انظر سیف قاسمى
21 جناب اسامہ شکیل
22 مولانا شفیق میڈیکل
23 جناب مصباح الدین قاسمی
24 مولانا حسن قاسمی
25 ڈاکٹر جاوید قاسمی
26 مولانا عبدالرزاق قاسمی
27 قاری شمشاد قاسمی
28 مولانا عبدالکریم قاسمی
29 حافظ وامق صاحب
30 مولانا عرفان قاسمی
31 قاری بلال احمد صاحب
32 مولانا نثار احمد صاحب