دشمن اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے، کیا حماس کو مزاحمت سے روک پائے گا؟

خورشید عالم داؤد قاسمی

شہید ہنیہ ایک مخلص قائد:

حماس کے سیاسی بیورو کے چیرمین، جناب اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ شہید کردیے گئے۔ ان کی شہادت قضیۂ فلسطین کی بنیاد کو مزید مضبوط کرے گی۔ وہ اپنی شہادت کے صلے میں اپنے رب کریم سے حیات جاوداں کا انعام پائیں گے۔ ان کی شہادت وطن سے دور ہوئی۔ مسجد اقصی کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی کے لیے یہ کوئی پہلی شہادت نہیں ہے؛ بلکہ ان عظیم مقاصد کے لیے ان سے پہلے بھی بے شمار فلسطینی عوام اور قائدین نے فلسطین میں اور بیرون فلسطین دوسرے ممالک میں جام شہادت نوش کیا ہے۔ قضیۂ فلسطین ایک مخلص قائد سے محروم ہوگیا؛ اس لیے ہر اہل ایمان کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیادت کی صف خالی ہوگئی ہے۔ ماضی میں بھی بہت سے فلسطینی قائدین شہید ہوئے، مگر قیادت کی صف میں کبھی خلا محسوس نہیں کیا گیا۔ فلسطین کی سرزمین اس حوالے سے بڑی زرخیز ہے، ایک قائد جاتا ہے، دوسرا قائد اس کی جگہہ لیتا ہے۔

شہیدوں کے لہو سے جو زمیں سیراب ہوتی ہے – بڑی زرخیز ہوتی ہے، بڑی شاداب ہوتی ہے

شہید ہنیہ ایک قابل انسان تھے۔ وہ اپنی بات بہترین طریقے سے پیش کرتے، لوگوں کو غور سے سنتے، سب کو لے کر چلتے اور حالات کے مطابق لچک بھی دکھاتے تھے۔ وہ فلسطینی گروپ کی بین الاقوامی سفارت کاری کا اہم چہرہ تھے۔ وہ اس حالیہ جنگ میں، مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔ وہ دشمن کو اپنی بات منوانے کے ماہر تھے۔ وہ ایک اسرائیلی قیدی کے عوض سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی کروانےکا فن جانتے تھے۔ انھوں نے قدس کو سرخ لکیر قرار دیا اور قضیۂ فلسطین کے حوالے سے کبھی سودے بازی نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اقصی کی بازیابی، قدس و فلسطین کی آزادی اور فلسطینی عوام کے لیے متفکر رہے۔ انھوں اپنی شہادت سے دو دن پہلے، 29/ جولائی 2024 کو تمام عرب، اسلامی اور دیگر ممالک کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بروز: شنبہ، تین اگست کو غزہ کے مظلوم ومقہور عوام اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی حمایت کے لیے سڑکوں پر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قابض اسرائیل تقریبا دس مہینے سے غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اسرائیلی جیلوں میں مرنے والے قیدیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر انھوں نے تمام اسلامی، عرب اور دیگر ممالک کے عوام سے تین اگست کو مظاہرے کی اپیل کی تھی۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ اس سے قبل، یکم اگست کو تہران میں اور دو اگست کو دوحہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے سڑکوں پر جمع ہوں گے!

ایران کا سفر:

شہید ہنیہ نے ایران کا سفر، نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی غرض سے کیا تھا۔ انھوں نے اس تقریب میں شرکت کی اور نو منتخب صدر اور عالمی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ وہ 30/جولائی 2024 کی رات کو آرام کے لیے شمالی تہران میں، سابق فوجیوں کے خصوصی ہیڈکوارٹر میں واقع مہمان خانہ میں چلے گئے، جہاں وہ عام طور پر اپنے دورۂ ایران کے موقع پر قیام کیا کرتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے ان کی رہائش گاہ کو ایک گائیڈڈ میزائل کے ذریعے 31/جولائی 2024 کو، ایرانی وقت کے مطابق رات کے دو بجے نشانہ بنایا۔ ہنیہ صاحب اور ان کے محافظ وسیم ابو شعبان اس حملے میں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کی خبر ایرانی ٹی وی پر علی الصباح نشر کی گئی۔ حماس انتظامیہ نے بھی اپنے عظیم قائد کی شہادت کی تصدیق کردی۔ پھر عام لوگوں کو بھی اس خبر کی سچائی پر یقین کرنا پڑا۔

تہران میں نماز جنازہ:

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنئی نے یکم اگست کو شہید ہنیہ اور ان کے محافظ کی نماز جنازہ، تہران یوینورسٹی کے وسیع میدان میں پڑھائی۔ نو منتخب ایرانی صدر، وزرا، دیگر سرکاری عہدیداروں اور عوام کی بڑی تعداد نے جنازے میں شرکت کی۔ بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں شہید ہنیہ کی تصویر اور فلسطینی جھنڈے تھے۔ ایران نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔

دوحہ میں نماز جنازہ اور تدفین:

شہید ہنیہ اور ان کے محافظ کے جسد خاکی کو جمعہ کی شب، تہران سے قطر کے پایۂ تخت دوحہ لایا گیا۔ دوسری نماز جنازہ، بروز: جمعہ 2/ اگست 2024 کو امام محمد بن عبد الوہاب مسجد، دوحہ میں، حماس پولٹ بیورو کے سینئر رکن جناب خلیل الحیہ کی امامت میں، جمعہ کی نماز کے بعد ادا کی گئی۔ جمعہ کی نماز سے پہلے، مسجد کے خطیب الشیخ حسن المریخی نے قرآن وحدیث کی روشنی میں، شہادت کے موضوع پر انتہائی وقیع خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے خطبہ میں شہید ہنیہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انھوں نے خطبہ میں فلسطین کو امت مسلمہ کا “امّ القضایا” قرار دیا اور اس قضیہ کے حوالے سے قطر کے موقف کو سراہا۔ کاش کہ دوسرے عرب اور اسلامی ممالک بھی اس قضیہ کو “امّ القضایا” سمجھتے! صبح سے ہی عوام نے مسجد اور اس کے اردگرد جمع ہونا شروع کردیا تھا۔ دوحہ کی سڑکوں پر تا حد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے، گویا انسانوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ عوام اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھامے ہوئے تھے اور فضا نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر سے گونجتی رہی۔ ہر طرف فلسطینی پرچم ہوا میں سربلند اور لہراتا رہا۔ نماز جنازہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، ان کے والد گرامی شیخ حمد بن خلیفہ، شہید کے پیشرو جناب خالد مشعل سمیت کئی ملکوں کی اہم شخصیات، ترکیہ، افغانستان، ایران وغیرہ کے سرکاری عہدیداروں اور عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انھیں دوحہ میں واقع شاہی قبرستان لوسیل میں دفن کیا گیا۔ جب میت کو قبر میں اتاڑا گیا، اس وقت پھر فضا تکبیر اور فلسطین کی آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی۔ دنیا کے متعدد ممالک میں شہید ہنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔

حماس کا رد عمل:

عظیم قائد کی شہادت پر حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حماس کے سربراہ پر حملے کے ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر فلسطینی عوام، عرب عوام، امت مسلمہ اور دنیا بھر کے انصاف پسند عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ حماس کے معروف رہنما موسی ابو مرزوق نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایک بزدلانہ فعل ہے، جس کی سزا دی جائے گی۔ یہ ایک سنگین واقعہ ہے۔ ہنیہ کے قتل سے اسرائیل کو اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ رائٹرز سے بات کرتے ہوئے حماس کے سینئر ترجمان سامی ابو زہری نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔ اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے کھلی جنگ چھڑے گی اور حماس اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

عالمی رہنماؤں کا ردّ عمل:

وفا نیوز ایجنسی کی خبر کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے شہید ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی۔ انھوں نے حماس کے سربراہ کے قتل کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کو ثابت قدم رہنے پر زور دیا۔

شہید ہنیہ کے بیٹے عبدالسلام اسماعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے والد پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل اور امریکہ ہے۔ تاہم والد نے وہ حاصل کرلیا جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلسل جد وجہد کر رہے ہیں اور ہماری مزاحمت قیادت کی شہادت سے ختم نہیں ہوگی۔ حماس آزادی تک مزاحمت جاری رکھے گا۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے ایک بیان میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل فلسطینیوں کی خواہش کو ختم نہیں کر سکتا۔ ہنیہ کا قتل مسئلہ فلسطین کے مقصد کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا۔ اس قتل کا مقصد غزہ کی عظیم مزاحمت اور ہمارے فلسطینی بچوں کی جائز جد وجہد کو متاثر کرنا اور انھیں خوف زدہ کرنا تھا؛ لیکن صیہونیوں کی بربریت اپنے مقاصد حاصل نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ حماس رہنما کی شہادت پر ترکیہ میں یوم سوگ منایا گیا اور تل ابیب میں قائم ترک سفارت خانے پر ترکیہ کا جھنڈا سرنگوں کیا گیا۔

ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے شہید ہنیہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لیں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ بزدلانہ حملے کاحساب دینا پڑے گا۔ ایران اپنی علاقائی سالمیت اورعزت کا دفاع کرے گا۔ دہشت گرد حملہ آور اپنے بزدلانہ اقدام پر پچھتاوا کریں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ شہید اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کی شہادت سے ایران، فلسطینی قوم اور مزاحمتی تنظیموں کا رشتہ مزید مضبوط ہوگا، ایران اورفلسطین کےگہرے، اٹوٹ رشتہ کوتقویت ملے گی۔

قطر نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قتل کو گھناؤنا جرم اور کشیدگی میں خطرناک اضافے کا سبب سمجھتا ہے۔ قطری وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

روس کی نائب وزیر خارجہ نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہنیہ کا قتل ناقابل قبول اور سیاسی جرم ہے۔ اسرائیل کا اقدام کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی جیان نے ایک بیان میں ہنیہ کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کو اس واقعے پر شدید تشویش ہے۔ بیان میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو۔ غزہ میں جلد از جلد جامع اور مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں بلنکن کا کہنا تھا کہ “ہم اس بارے میں نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ہم اس میں ملوث ہیں، اس معاملے میں قیاس آرائیاں کرنا بہت مشکل ہے۔”

سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس:

شہید ہنیہ کی شہادت کے بعد،31/ جولائی 2024 کو ایران، روس، چین اور الجزائر کے نمائندوں کی درخواست پر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس میں ایرانی سفیر نے کہا کہ تہران نے ہمیشہ تحمل کامظاہرہ کیا ہے؛ لیکن جواب دینے کا حق رکھتے ہیں۔ ایرانی سفیر نے اجلاس سے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل اسرائیلی حملے کی مذمت کرے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرے۔ اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل سفیر امر بن جامہ نے اسرائیل کی جانب سے ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ہم تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اسرئیل نے آج صبح تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل کرکے دہشت گردانہ عمل کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ محض ایک شخص پر حملہ نہیں ہے؛ بلکہ سفارتی تعلقات، ریاستی خودمختاری کے تقدس اور عالمگیر نظام کی بنیادوں پر بھی حملہ ہے۔ وحشیانہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اسرائیل کا محاسبہ ہونا چاہیے۔

ہنیہ کی شہادت کے بعد او آئی سی کا اجلاس:

عظیم قائد اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد، 8/ اگست 2024 کو او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کا اجلاس جدہ میں منعقد ہوا۔ تنظیم اپنے معمول کے مطابق مذمتی قرارداد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ تنظیم نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں غاصب اسرائیل کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا۔ تنظیم کے سکریٹری جنرل ابراہیم طہ نے اسرائیلی جنگی جرائم کی مذمت کی۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہنیہ کا قتل ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل عالمی قوانین کو پاؤں تلے روند رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل غاصب اسرائیل کو عالمی قوانین کا پابند بنائے۔

ہنیہ کی شہادت پر نیویارک ٹائمز کا دعوی:

شہید ہنیہ کی شہادت پر مشہور نشریاتی ادارے کی کچھ خبروں پر بھی ایک نگاہ ڈالئے اور اندازہ لگائے کہ دشمن نے قائد تک رسائی کیسے حاصل کی اور کیسے شہید کیا۔ ایرانی اطلاع کے مطابق شہید ہنیہ کو گائڈڈ میزائل کے ذریعے شہید کیا گیا؛ لیکن مشہور امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” نے یکم اگست 2024 کو یہ دعوی کیا کہ ایرانی دارالحکومت تہران میں، جس کمرے میں اسماعیل ہنیہ موجود تھے، وہاں بم پہلے سے نصب کیا گیا تھا۔ ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کیا گیا اور پھر بم پھٹنے سے ہنیہ کی شہادت ہوئی۔ اخبار نے ذرائع سے دعوی کیا ہےکہ اسماعیل ہنیہ جس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں دو مہینے قبل ہی بم پہنچا دیا گیا تھا۔ ایران اور حماس نے واقعےکا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے؛ جب کہ بعض امریکی حکام نے بھی نام نہ بتانے کی شرط پر خیال ظاہر کیا ہے کہ اس میں اسرائیل ہی ملوث ہے۔ اسرائیل نے عوامی سطح پر اب تک واقعےکی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم اخبار کا دعوی ہےکہ اسرائیل نےکارروائی سے قبل امریکہ اور دیگر مغربی حکومتوں کو آگاہ کردیا تھا۔

دی ٹیلیگراف، لندن کی رپورٹ:

برطانوی اخبار “دی ٹیلیگراف” کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے زیر استعمال مہمان خانہ کے تین کمروں میں ایرانی سیکورٹی ایجنٹوں کی مدد سے دھماکہ خیز مواد نصب کروایا تھا۔ اخبار کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایران کے دورے میں، اکثر اسی عمارت میں قیام کیا کرتے تھے۔ اخبار نے دعوی کیا ہےکہ ایرانی حکام کے پاس عمارت کی سی سی ٹی وی موجود ہے جس میں ایجنٹوں کو چپکے سے کمروں میں انتہائی تیزی سے آتے جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ دھماکا خیزمواد نصب کرنیوالے ایجنٹ ایران چھوڑ چکے تھے، تاہم ایران میں ایک ساتھی سے ان کا تعلق قائم تھا اوردھماکہ خیزمواد کو ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے تباہ کیا گیا؛ جب کہ تحقیقات کے دوران دیگر دو کمروں سے دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیا گیا ہے۔

ہنیہ کی شہادت میں داخلی غدار بھی شامل:

اتنے اہم مہمان اور عظیم شخصیت کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کی آراء مختلف ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان کے قتل میں، کچھ اعلی عہدیدے پر فائز غداروں کی مدد شامل ہے۔ ان غداروں کی مدد کے بغیر، ہنیہ کا قتل آسان نہیں تھا۔ دی ٹیلی گراف اور نیویارک ٹائمز جیسے میڈیا ہاؤسز کی رپورٹ کے مطابق شہید ہنیہ کو قتل کرنے والا دھماکہ خیز مواد اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعہ کرائے پر لیے گئے “اسلامی انقلابی گارڈ کارپوریشن” (آئی آرجی سی) کے ایجنٹوں کے ذریعہ نصب کیا گیا تھا۔ ایرانی تفتیش کاروں کو اب یقین ہو گیا ہے کہ موساد نے انصار المہدی سکیورٹی یونٹ کے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی تھی۔ آئی آر جی سی کے ایک ذریعے نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ اس وقت تنظیم کی اندرونی تحقیقات جاری ہیں۔ امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” کی ایک خبر کے مطابق ہنیہ کی شہادت کی تحقیقات کے سلسلے میں متعدد ایرانی انٹیلیجنس اورفوجی افسران کو حراست میں لیا گیا ہے اور اس مہمان خانہ کے ملازمین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جہاں شہید ہنیہ مقیم تھے۔

ہنیہ کی شہادت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایران میں اہم عہدے پر فائز کچھ لوگ بکے ہوئے ہیں۔ ایران کا حفاظتی نظام بہت کمزور ہے۔ دشمن اتنے اہم اور خاص مہمان کو فوجی مہمان خانہ میں شہید کرسکتا ہے؛ تو اس کا مطلب ہے کہ دشمن کسی بھی وقت ایران میں تباہی مچا سکتا ہے۔ یہ ایران کے لیے ایک الارم ہے۔ دشمن کسی بھی وقت آسانی سے ایران کو شکار بناسکتا ہے۔ ایران کو ہوشیار رہنے اور اپنے داخلی نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایرانی تفتیش کاروں کو ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ شہید قائد پر قاتلانہ حملہ کس نے کیااورقاتل اپنے منصوبہ میں کس کی مدد سے کامیاب ہوا؟ تفتیش کاروں کو جتنی جلدی ان سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں، یہ ایران کے حق میں بہتر ہوگا۔

ہنیہ کی شہادت کے لیے ایران کا انتخاب:

شہید ہنیہ کوئی پہلے قائد نہیں ہیں، جنھیں صہیونی دشمن نے قتل کیا؛ بلکہ ان سے پہلے بھی دشمن نے بہت سے فلسطینی قائدین کو فلسطین کے اندر اور دوسرے ممالک میں قتل کیا ہے۔ اس عظیم قائد کے لیے دشمن نے ایران کا انتخاب کیا۔ دشمن کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سرزمین ایران پر قائد کی شہادت سے حماس والے بدظن ہوکر، ایران سے تعلقات ختم کرلیں؛ کیوں کہ بظاہر حماس کے تعلقات جن گنے چنے چند ممالک کے ساتھ اچھے ہیں، ان میں ایران اہم ملک ہے۔ مزید دشمن کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ اس شہادت کے بعد، سنی اور شیعہ حلقے میں مزید دوریاں پیدا ہو۔

شہید ہنیہ کی پیدائش:

اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ 23/ جنوری 1963 کو غزہ کی پٹی میں الشاطی پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے خاندان نے مقبوضہ ضلع “عسقلان” کے گاؤں الجورۃ سے، صہیونی ظلم وستم کی وجہہ سے ہجرت کرکے پناہ لی تھی۔ صہیونی ریاست نے “عسقلان” کا نام تبدیل کرکے، “اشکلون” کردیا ہے۔ شہید ہنیہ نے 16 سال کی عمر میں اپنی چچازاد بہن امل ہنیہ سے شادی کی۔ ان سے آپ کے 13 بچے ہوئے جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

تعلیم و تعلم:

اسماعیل ہنیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے اسکول میں ابتدائی اور پرائمری کی تعلیم حاصل کی اور پھر ازہر انسٹی ٹیوٹ سے سکنڈری اسکول کی سند حاصل کیا۔ انھوں نے 1987 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ وہ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران، اسٹوڈنٹ یونین کونسل کے ایک فعال رکن رہے۔ وہ سن 1993 میں، غزہ اسلامی یونیورسٹی میں، اسلامک بلاک کے ڈین بنائے گئے؛ جب کہ اس سے قبل وہ یونیورسٹی میں کئی عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔

قید وبند اورسیاست میں:

شہید ہنیہ شروع سے ہی قضیۂ فلسطین کے حوالے سے سرگرم تھے؛ چناں چہ سیاست میں قدم رکھا اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کی۔ اسرائیلی قابض حکام نے شہید ہنیہ کو پہلی بار سن 1987ء میں فلسطینی انتفاضہ شروع ہونے کے بعد، گرفتار کیا۔ اس وقت وہ 18 دنوں تک جیل میں رہے۔ پھر قابض اسرائیل نے انھیں دوسری بار سن 1988ء میں گرفتار کیا اور وہ چھ ماہ تک جیل میں رہے۔ اسرائیلی حکومت نےانھیں تیسری بار سن 1989 میں، حماس سے تعلق کی بنیاد پر گرفتار کیا اور وہ تین سال جیل میں رہے۔ اس کے بعد حماس کے دیگر قائدین کے ساتھ، انھیں جنوبی لبنان کے ایک علاقہ مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا۔ انھوں وہاں ایک سال جلاوطنی میں گذارا۔ سن 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد، وہ غزہ واپس آئے۔ وہ سن1997 ء میں شیخ احمد یاسین کے دفتر کے سربراہ مقرر کیے گئے۔ اس وقت سے انھوں نے سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔

مرحوم یاسر عرفات کی وفات کے بعد، جمہوری طور پر عام انتخابات 25/ جنوری 2006 کو فلسطین میں ہوئے۔ اس انتخابات میں حماس کو اکثریت سے کامیابی ملی۔ پھر حماس نے25/ مارچ 2006 حکومت بنائی گئی جس کے وزیر اعظم شہید ہنیہ بنائے گئے۔ تقریبا ایک سال انھوں نے حکومت کی۔ فلسطینی اٹھارٹی کے صدرمحمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کی منتخب حکومت کو14/ جون 2007 کو معزول کرکے، سلام فیاض کو وزیر اعظم بنا دیا۔ مگر پورے غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور شہید ہنیہ نے بحسن وخوبی قیادت وسربراہی کی۔ وہ 6/مئی 2017 کو جناب خالد مشعل کی جگہ، حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیف مقرر کیے گئے۔ وہ 2023 سے قطر کی راجدھانی دوحہ میں مقیم تھے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے 20/ مئی 2024 کو قاتل و مقتول کو ایک صف میں رکھتے ہوئے، یہ اعلان کیا کہ انھوں نے عدالت میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع یوو گیلانٹ کے ساتھ ساتھ اسماعیل ہنیہ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست جمع کرائی ہے۔

شہید ہینہ کے اہل خانہ کی شہادت:

شہید ہنیہ اپنی شہادت سے قبل، مسجد اقصی اور فلسطین کی آزادی کے لیے اپنے اہل خانہ میں سے درجنوں افراد کی شہادت پیش کرچکے تھے۔ گذشتہ سال 10/ نومبر 2023 کو اسرائیلی فضائی حملے میں ان کی ایک پوتی شہید ہوئی۔ پھر دس دن بعد، ان کا بڑا پوتا شہید ہوا۔ اس سال 10/ اپریل کو، عیدالفطر کے موقع پر، ان کے تین بیٹے: ہازم، محمد اور عامر اپنی گاڑی سے اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رشتے داروں کو عید الفطر کی مبارکباد دینے جا رہے تھے۔ اسرائیل نے اس دوران غزہ کے الشاطی کیمپ میں، ان کی گاڑی پر بمباری کی جس سے وہ تینوں شہید ہوگئے۔ جو پانچ بچے ان کے ساتھ تھے،وہ بھی وہیں شہید ہوگئے۔ اسرائیلی قابض فوج نے ان کی شہادت کے بعد، یہ اعلان کیا کہ ہنیہ کے بیٹوں کا قتل ایک ایسی کارروائی تھی جس کی منصوبہ بندی اندرونی سیکورٹی ایجنسی نے کی تھی۔ پھر اسرائیل کے فضائی حملے میں، ہنیہ کی بہن زہر ہنیہ شہید ہوئی۔ ظالموں اور دہشت گردوں نے صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ شہید ہنیہ کے گھر، جو الشاطی پناہ گزیں کیمپ میں تھا، پر بمباری کرکے ملبے میں تبدیل کردیا۔

خیال کیا جارہا تھا کہ شہید ہنیہ اپنی بہن، بیٹے، پوتے، پوتیاں وغیرہ کی شہادت سے کمزور ہوجائیں گے، وہ مایوس ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیں گے، وہ قابض وظالم کے سامنے شکست تسلیم کرلیں گے اور اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنے پر مجبورہوں گے؛ مگر وہ ایسے مخلص قائد تھے کہ ان حالات کے باوجود، انھوں نے مسجد اقصی اور فلسطین کے حوالے سے قابض وغاصب اسرائیل سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنے موقف پر اپنی شہادت تک قائم رہے۔ انھوں نے فلسطین اور اقصی کےلیے قربانی پیش کرنے والے لاکھوں شہدا کے خون سے غداری نہیں کی۔

دشمن کی کوشش ناکام:

دشمن کی یہ کوشش تھی کہ وہ ہنیہ کو شہید کرکے، حماس کو نفسیاتی طور پر کمزور کردیں گے اور مزاحمت سےروک دیں گے۔ مگر حماس والے ایسے حادثات کے عادی ہوچکے ہیں۔ شہید ہنیہ سے پہلے بھی حماس نے اپنے بڑے بڑے قائدین، مثلا: 22/مارچ 2004 کو شیخ احمد یاسین، 17/ اپریل 2004 کو شیر فلسطین ڈاکٹر عبد العزیز الرنتیسی، 24/نومبر 1993 کو عماد حسن ابراہیم عقل، 20/ جنوری 2001 کو جمال منصور اور جمال سلیم، 23/نومبر 2001 کو محمود ابو ہنود، 22/جولائی 2002 کو صلاح شہادۃ، 21/اگست 2003 کو انجینئر اسماعیل ابو شنب، 15/جنوری 2009 کو 2006 میں حماس کی حکومت میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے سعید صیام، 16/نومبر 2012 کو احمد جعبری، 21/اگست 2014 کوبیک وقت رائد عطار، محمد ابوشاملہ، محمد برہوم وغیرہ کو قابض اسرائیل کے فضائی حملے میں کھویا ہے۔ چناں چہ قابض اسرائیل ہنیہ کی شہادت سے حماس کو نفسیاتی طور پر کمزور کرسکتا ہے اور نہ ہی مزاحمت سے روک سکتا ہے۔ حماس کے اراکین نے نہایت ہی دانشمندی کے ساتھ، حماس کے نئے چیف کے طور پر یحیی سنوار کا انتخاب کرکے، دشمن کی کوشش کو ناکام کردیا اور یہ پیغام دیا کہ وہ نفسیاتی طور پر کمزور پڑنے والے نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنا عندیہ واضح کردیا کہ ایک شخص کی شہادت سے حماس جیسی تحریک کمزور نہیں ہوگی اور مزاحمت نہیں رکے گی؛ بلکہ دوسرے اراکین مزید قوت وطاقت کے ساتھ دشمنوں سے مقابلہ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ وہ مسجد اقصی کی بازیابی، قدس وفلسطین کی آزادی تک بلا تردد قربانیاں پیش کرتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔ شہید قائد نے کیا خوب کہا تھا: “ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔” ••••

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com